ARTICLESشرعی سوالات

دیدہ دانستہ ترکِ واجب کا ارتکاب کرنا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ترکِ واجب کا حکم کیا ہے ، بعض لوگ تو اس وجہ سے ترکِ واجب کا ارتکاب کر دیتے ہیں کہ ان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ واجب ہے او ران کا نظریہ ہوتا ہے کہ ہمیں تو علم ہی نہیں ہم پر دم وغیرہ لازم نہیں اور بعض کو علم ہوتا ہے اور جان بوجھ کر ترکِ واجب کا ارتکاب کرتے ہیں اور برملا فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ دم دے دیں گے ان سب کا کیا حکم ہے ؟

(السائل : محمد اشفاق قادری از لبیک حج گروپ ، مکہ مکرمہ)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حج کے واجبات میں سے چند واجبات کے ترک پر علماء کرام نے دم یا صدقہ کے لازم نہ ہونے کا ذکر کیا ہے چاہے ان کا ترک کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بلا عذر ہو ان میں سے ایک دو رکعت نمازِ طواف ہے دوسرا واجب نمازِ مغرب مزدلفہ میں پڑھنے کے لئے اُسے عشاء تک مؤخّر کرنا، تیسرا مزدلفہ میں رات گزارنا اور چوتھا واجب حجر اسود سے طواف کی ابتداء ہے جیسا کہ ’’حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب‘‘ (ص46) میں ہے ۔ اور کچھ واجبات ایسے ہیں کہ جن کا ترک اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو دَم وغیرہ لازم نہیں آتا جیسے طواف و سعی میں مرض یا پاؤں کٹے ہوئے ہونے یا کبر سنی کے سبب پیدل نہ چل سکا۔ اسی طرح طوافِ زیارت کو حیض یا نفاس کے سبب واجب ایام سے مؤخر کر دیا یا وقوف مزدلفہ کو ازدحام و ضعف کی بنا پر ترک کیا یا حلق یا قصر کسی عذر کی بنا پر ترک کیا وغیرہ، یعنی کسی واجب کو ایسے عذر کے سبب ترک کیا کہ جس عذر کو شرع نے معتبر کہا ہو تو اس کے ترک پر بھی دَم یا صدقہ لازم نہیں آتا۔ اس کے علاوہ بقیہ واجبات میں سے حاجی نے اگر کسی ایک کو بھی ترک کر دیا چاہے اس کا ترک مسئلہ سے عدم واقفیت کی بنا پر ہو یا بھول جانے کی وجہ سے ہو یا سہواً ہو یا قصداً ہو بہر صورت جزاء لازم آئے گی۔ باقی رہا گناہ تو وہ صرف ایک صورت میں لازم آئے گا وہ یہ کہ حاجی نے اس واجب کا ترک جان بوجھ کر کیا ہو۔ چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

حکم واجبات آنست اگر ترک کرد یکے از آنہا صحیح باشد حج اُو و لازم آید بروے دم یا صدقہ برابر ست کہ ترک کردہ باشد آن را عمداً یا سہواً یا نسیاناً، یا جہلاً لیکن چون ترک کرد بطریق تعمد آثم باشد اگرچہ دم دہد و مرتفع نگردد آن اثم بغیر توبہ (147)

یعنی، واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو ترک کر دے تو اس کا حج صحیح ہو جائے گا اور اس پر دم یا صدقہ لازم آئے گا چاہے اُسے عمدًا یا سہواً یا نسیاناً یا علم نہ ہونے کی وجہ سے ترک کیا ہو لیکن جب جان بوجھ کر ترک کیا ہو تو گنہگار ہو گا اگرچہ دم دے دے اور وہ گناہ بغیر توبہ کے نہ اٹھے گا۔ اور بعض لوگوں کا دیدہ دانستہ جان بوجھ کر بغیر کسی انتہائی مجبوری کے واجبات کو ترک کر دینا اور پھر یہ سوچ کر کہ کیا ہوا واجب ہی تو ہے ہم دم دے دیں گے ، یہ انتہائی قبیح او ربہت بُری سوچ اور گھٹیا نظریہ ہے جو اُن میں جنم لے رہا ہے ، یہ اللہ عزّ وجلّ اور اس کے رسول ا کے احکامات کی نافرمانی پر دلیری اُن کے خلاف اعلانیہ بغاوت ہے ، ایسے لوگوں کو اللہ عزّ وجلّ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے ۔ یہ تو واجبات ہیں جن کے ساتھ ان کا یہ معاملہ ہے شرع مطہرہ نے تو ہمیں سنّتوں کی بھی پابندی کا سبق سکھا یا ہے اور بتایا ہے کہ ترکِ سُنَن محرومیوں کا سبب ہے ، پھر یہ لوگ خود قصداً ظاہر ظہور، کُھلم کُھلاترکِ واجب کا ارتکاب کرتے ہیں اور دیگر عوام جو انہیں دیکھ کر ترکِ واجب کے مُرتکب ہوں گے اس کا وبال کس پر ہو گا۔ تو یقینا جس طرح اس کا گناہ اُن مُرتکبین پر ہو گا اسی طرح اس کا وبال اِن ناعاقبت اندیشوں پر بھی ہو گا۔ پھر ان لوگوں سے پوچھو کہ تم دم تو دے دو گے مگر اس پر ہونے والے گناہ کو کیسے معاف کرواؤ گے ۔ احکم الحاکمین کے احکام کی کُھلم کُھلا مخالفت کر کے اس کے عذاب کو تم نے دعوت دی ہے تو اس کی ناراضگی اور غضب سے کس طرح بچو گے ۔ بس اس کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے نادم ہوں ، آنسو بہائیں ، روئیں اور گڑگڑائیں ، اپنے کئے پر شرمندہ ہوں ۔ اس کی معافی مانگیں اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا اس بے نیاز سے وعدہ کریں اور امید رکھیں کہ اللہ عزّ وجلّ ان کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ اور اس کے سوا اُن کے لئے اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس کے احکامات کی قصداً خلاف ورزی کرنے میں تم جس مال پر اِتراتے ہو کہ دم دے دیں گے وہ مال بھی اسی کا عطا کردہ ہے ، وہ چاہے تو ایک لمحہ سے بھی قبل تمہیں فقیر و محتاج کر دے لہٰذا اس کے غضب سے ڈرا جائے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الجمعۃ، 16ذوالحجۃ 1427ھ، 5ینایر 2007 م (349-F)

حوالہ جات

147۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرسالۃ، فصل سیوم، ص45

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button