دیدار باری تعالی
مشہور

دیدار الہی اور اہل سنت کا عقیدہ

دیدار الہی مخلوق کے لئے اللہ رب العزت کی اعلی و افضل ترین نعمتوں میں سے ہے،  جس کا قرآن و حدیث میں متعدد بار ذکر آیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:”جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالی فرمائے گا: ”کیا تم وہ چیز چاہتے ہو جو میں تم کو زائد دوں؟“  وہ عرض کریں گے: کیا تو نے ہمارے منہ صاف شفاف نہ کر دیئے؟ کیا تو نے ہم کو جنت میں داخل نہیں کر دیا اور ہم کو آگ سے نجات نہ دے دی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ پھر رب حجاب اٹھا دے گا،  یہ رب کی ذات کا نظارہ کریں گے تو انہیں کوئی چیز رب کے دیدار سے زیادہ پیاری نہ دی گئی ۔“[1]

 یہ تو ایسی خاص  نعمت الہیہ  ہے جو کہ  کلیم اللہ علیہ السلام  کی تمنا رہی ، بلکہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی دعا یہ ہے:”أسألك لذة النظر إلى وجهك، والشوق إلى لقائك“ ترجمہ:  میں تجھ سے تیری ذات کو دیکھنے کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق مانگتا ہوں۔[2]

  لیکن  اس خاص نعمت الہیہ کے متعلق بھی بعض افراد  افراط و تفریط کا شکار ہو گئے۔   بعض افراد نے تو  اپنی ناقص عقل کے بل بوتے پر سرے سے ہی اس کا انکار کر دیا اور یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ چونکہ ہماری عقل  و دانش  اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ  کسی چیز کو دیکھنے کے لئے  اس کا  رنگ دار اور جسم والا ہونا ضروری ہے اور اللہ رب العزت رنگ و جسم سے پاک ہے ،چنانچہ اللہ تعالی کا دیدار بھی نہیں ہو سکتا، چاہے ایسا فرمانے والی ذات حبیب الہی کے مرتبے پر ہی فائز کیوں نہ ہو! (معاذ اللہ) حالانکہ انہوں نے نہ اس بات پر غور  کیا کہ اس موقف کو اپنانے سے وہ (معاذ اللہ)رب کبریا کی قدرت کو محدود تصور کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی تو ہر شئے پر قادر ہے، جس ذات نے اس آنکھ میں یہ قدرت پیدا فرمائی کہ وہ رنگ دار و مجسم اشیا دیکھ سکے ، اس قادر مطلق ذات  کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ وہ اسی آنکھ میں بغیر رنگ و جسم والی اشیا دیکھنے کی طاقت  پیدا فرما دے؛ اور نہ یہ دیکھا کہ ان کی یہ چونکہ چنانچہ، ان کی اپنی ناقص عقل کی کارستانیاں ہیں اور انہیں اس کی وجہ سے  قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں باطل تاویلات و تحریفات کرنا پڑ رہیں ہیں۔[3] پھر اس عقل کا کیا ہے!  بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ عقل کو کوئی بات سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے لیکن جب حقیقت حال کی طرف راہنمائی کی جائے تو عقل اس بات کے امکان کو تسلیم کر لیتی ہے[4]۔ کیا سائنسی تھیوریز (Theories) تبدیل نہیں ہوتیں؟؟ پھر اس ناقص عقل کی بنیاد پر قرآن و حدیث   کے واضح ارشادات کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے!! (مزید تفصیل کے لئے پڑھئیے:دیدار الہی کے متعلق درست عقیدہ کیا ہے؟ کیا اللہ تعالی کا دیدار عقلاً ممکن ہے؟)

ایک مغالطہ یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیدار الہی ہونے کی نفی کو ناممکن ہونے کی دلیل بنایا گیا، حالانکہ وقوع کی نفی کو امکان کی ہی نفی سمجھ لینا کس قدر کم علمی ہے۔ بھلا وقوع کہاں اور امکان کہاں!!  (مزید تفصیل کے لئے پڑھئیے:حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کا  نبی اکرم کو دیدار الہی ہونے کا انکار کرنا)

 اور بعض افراد نے  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے خاصے(امتیازی شان) کو اپنے لئے ثابت کرنا شروع کر دیا اور اپنی فانی آنکھوں سے(دنیا میں ) ہی  اللہ تعالی کے دیدار کا دعوی کر دیا، حالانکہ انہوں نے بھی یہاں  ٹھوکر کھائی اور یہ خیال نہ کیا  کہ اکابر صوفیا اور بزرگان دین ، جو کہ ان سے بہت افضل اور منبع فیض الہی ہیں ، انہوں نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا ، بلکہ وہ تو  ایسا دعوی کرنے والے کو جھوٹا کہتے رہے۔ مزید  قابل غور بات یہ ہے کہ اولیاء تو کجا ، اس مسئلہ میں تو کلیم اللہ  علیہ السلام کے لئے ﴿ لَنْ تَرٰىنِیْ ﴾[5]  کا فرمان ہوا تو ان کی اپنی ذات کی کیا حیثیت ہے!! (مزید تفصیل کے لئے پڑھئیے:كيا کسی ولی عام آدمی كو دنیا میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار ہو سکتا ہے؟)

الغرض  اس معاملہ میں اللہ تعالی کی شان رحمت کے ساتھ ساتھ شان جلالت کا پاس رکھنا  اور اعتدال کا دامن تھامنا نہایت ضروری ہے۔  زیر نظر رسالے میں قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہل سنت کا عقیدہ  اس مسئلہ میں بھی افراط و تفریط سے پاک ہے   کہ اللہ تعالی کا دیدار سر کی آنکھوں سے ہونا ممکن ہے  لیکن اس دنیا میں یہ حضور اکر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا خاصہ (امتیازی شان) ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی کو بھی اس دنیا میں دیدار الہی نصیب نہیں ہو سکتا۔ (مزید تفصیل کے لئے پڑھئیے:معراج کی رات دیدار الہی کے وقوع کے متعلق نظریہ)  ہاں!  خواب میں (روحانی طور پر) اللہ تعالی کا دیدار اس دنیا میں بھی ممکن ہے بلکہ کئی بزرگان دین کو ہوا بھی ہے، جیسا کہ  حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو سو (100) بار یہ نعمت نصیب بھی ہوئی۔

حوالہ جات:

[1] : الصحیح المسلم، جلد1، صفحۃ 163، دار إحياء التراث العربي ، بیروت

[2] : سنن النسائی،  جلد3، صفحہ 54، مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب

[3] : مراۃ المناجیح، جلف7، صفحہ 384، قادری پبلیشرز، لاہور

[4] : الابریز، صفحہ 53، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[5] : ترجمہ:  تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button