سوال :
میرا ایک پلاٹ تھا جس کی مالیت =/54,000 تھی ۔ والد صاحب نے اسے فروخت کر کے کارخانہ لگا لیا۔ بعد ازاں میرے بڑے بھائی کے مشورے پر والد صاحب نے اس کارخانے کو بھائی کے کارخانے میں ضم کر دیا۔ میں والد صاحب کی تعظیم میں کچھ نہ بولا بلکہ انہوں نے جو مناسب سمجھا وہ کرتے رہے ۔اب والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے ۔ کیا میں بڑے بھائی سے اپنے پلاٹ کی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں یا نہیں؟ اگر ہاں تو اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا یا اب جو قیمت بنتی ہے اس کا اعتبار ہو گا ؟
جواب:
سوال مذکور میں سائل نے جو وضاحت تحریر کی ہے اس میں مسئلے کی نوعیت واضح نہیں ہے کہ بیٹے نے یہ پلاٹ باپ کو بطور قرض دیا تھا یا بطور ہدیہ و ہبہ۔ اس طرح کے مسائل میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس نے بھی کسی کو کچھ دیا ہے اگر دیتے وقت وضاحت ہو کہ یہ دینا ہدیہ و ہبہ ہے یا بطور قرض ہے تو وجہ از خود متعین ہے اور اگر دیتے وقت وجہ تعین نہ ہو تو دینے والے کی بات قسم کے ساتھ مان لی جائے گی کہ اس کی نیت دیتے وقت کیا تھی ۔(فتاوی رضویہ) صورت مسئولہ میں دینے والے کی نیت کا معلوم ہونا ضروری ہے کہ آیا اس نے والد کو پلاٹ قرضاً د یا تھا یا ہدیہ ۔ بہر کیف مذکورہ دونوں صورتوں کی تقدیر پر صورت مسئولہ سے متعلق حکم شرعی کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) اگر سائل نے اپنا پلاٹ باپ کو اس لیے دیا تھا تا کہ فروختگی کے بعد اس کی قیمت بطور قرض والد کومل جائے تو اس صورت میں بیٹے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ پلاٹ کی رقم کا مطالبہ کرے۔ اس لیے کہ دائن بہرحال اپنی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔ اور چونکہ والد نے وہ پلاٹ فروخت کر کے اس کی مالیت سے کارخانہ لگایا تھا اور پھر اس کا خانہ کو بھائی کے کارخانہ میں ضم کر کے بھائی کو ہی مکمل تصرف دے دیا تھا اس لیے سائل بڑے بھائی سے اتنی رقم اور مالیت کا مطالبہ کرے گا جتنی مالیت کے عوض والد نے اس پلاٹ کو فروخت کیا تھا۔ اس لیے کہ وہ پلاٹ اب موجود نہیں ہے جو اس کی موجودہ مالیت کا اعتبار کیا جائے ۔
(۲) اور اگر بیٹے نے یہ پلاٹ باپ کو ہدیہ اور ہبہ دیا تھا تو چونکہ موہوب لہ یعنی والد اور” واہب“ یعنی بیٹے کے درمیان قرابت محترمہ ہے لہذا اس صورت میں سائل بڑے بھائی سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قرابت محترمہ کی وجہ سے رجوع کرنا ممنوع ہو جا تا ہے ۔
(انوار الفتاوی، صفحہ453،فرید بک سٹال لاہور)