استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص جو حج سے اٹھ روز قبل عزیزیہ ایا پھر وہاں سے منیٰ و عرفات روانہ ہوگیا وہ بدستور قصر نماز ہی ادا کررہا تھا اب اس نے بارہ کی رمی کرلی اور وہ عزیزیہ کو جانے لگا تو اس نے نیت کی کہ وہ چھ روز بعد جدہ جائے گا اب وہ مسافر ہوگا یا نہیں اور اگر وہ ایک رات بھی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہے ؟
(السائل : ریحان، لبیک حج اینڈ عمرہ سروسز، کھارادر)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں وہ مسافر ہی رہے گا کیونکہ اس نے عزیزیہ یا مکہ مکرمہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہیں کی ہے ۔ اس نے مکہ مکرمہ اور جدہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی ہے اور کوئی شخص دو مستقل جگہوں پر پندرہ دن ٹھہرنے کے ارادے سے مقیم نہیں ہوتا ہے ۔ قاضی محمد بن فراموز المعروف بملا خسرو حنفی متوفی 885 ھ لکھتے ہیں :
(ان نوی) الاقامۃ (فی اقل منہ) ای من نصف شھر (او فیہ) لکن (موضعین مستقلین) کمکۃ و منی فانہ یقصر اذ لا یصیر مقیما۔ (52)
یعنی، اگر مسافر نے پندرہ دن سے کم کی اقامت کی نیت کی یاد وجگہوں پرٹھہرنے کی نیت کی جیساکہ مکہ اور منی تو (وہ مسافر ہی رہے گا) اور قصرنماز پڑھے گا کیونکہ اس طرح مقیم نہیں ہوگا۔ اور صدر الشریعہ امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367 ھ لکھتے ہیں : دو جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں جیسے مکہ و منیٰ تو مقیم نہ ہوا۔ (53)
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
ذی الحجۃ 1436ھـ، سبتمبر 2015 م 975-F
حوالہ جات
52۔ الدرر الحکام فی شرح غرر الاحکام، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، 1/133
53۔ بہار شریعت، بقیہ مسائل نماز کا بیان ،نماز مسافر کا بیان، مسئلہ نمبر : 25، 1/4 745
Leave a Reply