کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دوران نماز سجدہ میں پاؤں کی انگلیاں کیسے ہونی چاہئیں؟ اگر سجدے میں چند انگلیاں نہیں لگیں تو نماز کا کیا حکم ہو گا؟
جواب: دوران نماز سجدہ کی حالت میں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہونی چاہییں[1] یوں کہ انگلی کا جو نیچے والاحصہ چلتے ہوئے زمین پر لگتا ہے وہ زمین پر لگ رہا ہو کیونکہ سجدے میں کم از کم ایک انگلی کا پیٹ (انگلی کا جو نیچے والاحصہ چلتے ہوئے زمین پر لگتا ہے، اس کا) زمین پرلگنا فرض ہے[2]، دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا واجب ہے[3] اوردونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے۔[4] لہذا:
- اگر بلاعذرِ شرعی دونوں پاؤں زمین سے اُٹھے رہے یا صرف اُنگلیوں کے سرے زمین سے لگے اور کسی اُنگلی کا پیٹ(انگلی کا جو نیچے والاحصہ چلتے ہوئے زمین پر لگتا ہے) نہیں لگا تو اس صورت میں نمازادا ہی نہ ہو گی ۔
- اگرجان بوجھ کردونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ نہ لگائے تو ایسا کر نا گناہ بھی ہے اور نماز بھی مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو گی ۔[5]
اگر بھولے سے دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین سے نہ لگےتو ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کر نا لازم ہو گا۔
حوالہ جات:
[1] : بخاری شریف میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ” أنه – عليه الصلاة والسلام – «كان إذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة “
ترجمہ: جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو آپ ﷺ اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے اورپاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔
(صحیح بخاری، صفۃ الصلوۃ، حدیث نمبر828)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” إذا سجد المؤمن سجد كل عضو منه، فليوجه من أعضائه القبلة ما استطاع “
ترجمہ: جب مومن سجدہ کرے تو پورے عضو پر سجدہ کرے اور اپنے اعضاء کو جتنا ممکن ہو قبلہ کی جانب رکھے۔
(الھدایہ، جلد1، صفحہ 52، دار احیا التراث العربی، بیروت )
[2] : در مختار میں ہے :’’ فیہ یفترض وضع اصابع القدم ولو واحدۃ نحو القبلۃ والالم تجز والناس عنہ غافلون“
ترجمہ: سجدہ میں پاؤں کی انگلیوں کا قبلہ رو رکھنا فرض ہے اگرچہ ایک انگلی ہی لگے اور اگر ایک بھی قبلہ رونہ رکھی تو نماز جائز نہ ہو گی اور لوگ اس سے غافل ہیں۔‘‘
(دُرمختار ج2 ص 204مطبوعہ ملتان)
[3] : امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوٰی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’ سجدے میں فرض ہے کہ کم از کم پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگا ہو اور ہر پاؤں کی اکثر انگلیوں کا پیٹ زمین پر جما ہونا واجب ہے ۔۔۔۔ پاؤں کو دیکھئے انگلیوں کے سرے زمین پرہوتے ہیں کسی انگلی کا پیٹ بچھا نہیں ہوتا سجدہ باطل نماز باطل۔‘‘ (فتاوی رضویہ جلد3صفحہ253 ، رضا فائونڈیشن لا ہور)
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں:’’ پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط۔ تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے نماز نہ ہوئی بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی جب بھی نہ ہوئی اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں۔‘‘ ( بہار شریعت ج 1ح3 ص513مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
[4] : مزید فر ماتے ہیں :’’سجدہ میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیاں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب اور دسوں کا قبلہ رُو ہونا سُنت ہے۔ ‘‘ ( بہار شریعت ج 1ح3 ص530مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
[5] : مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فتاوی امجدیہ میں ایک سوال کہ ’’بحالتِ نماز، سجدہ میں دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین سے لگانا واجب ہے جیساکہ بہار شریعت میں ہے لیکن اگر چھ سے کم انگلیاں لگیں تو اس ترک واجب پر سجدہ سہو کرنا چاہئے یا نہیں نیز ایک انگوٹھا یا دو تین انگلیوں کا سرا زمین سے لگے تو کیا حکم ہے‘‘کے جواب میں فر ماتے ہیں:’’واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدہ سہو واجب ، اور اگر سجدۂ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے،درمختار میں ہے ’’وتعاد وجوبا فی العمد والسھو ان لم یسجد لہ۔‘‘نیز اسی میں ہے’’یجب لہ سجدتان بترک واجب سھواً فلا سجود فی العمد‘‘اور ایک نگلی بھی اگر زمین پر نہ لگائی تو نماز ہی نہ ہوئی کہ ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط ہے درمختار میں ہے’’وضع أصبع واحد منھا شرط۔‘‘واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (فتاوی امجدیہ،جلد1، صفحہ 276مکتبہ رضویہ کراچی)
و اللہ ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم