استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے عمرہ میں اس طرح طواف کیا کہ اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، دوران طواف اسے شہوت پیدا ہو گئی یہاں تک کہ چند قطرے مذی کے بھی نکل ائے ، اس حال میں اس نے طواف مکمل کیا اور سعی کر کے حلق کروا دیا، اب اس پر کیا لازم ائے گا؟
(السائل : C/O صاحبزادہ نذیر جان، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس سے دو جرم سرزد ہوئے ، ایک حالت احرام میں جماع و دواعی جماع حرام ہیں جس سے وہ دواعی جماع کا مرتکب ہوا، دوسرا بے وضو طواف عمرہ مکمل کرنے کا جرم، دواعی جماع کے ارتکاب پر دم لازم ایا اور بے وضو طواف کی صورت میں اعادہ اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں اس پر اس کا بھی دم لازم ائے گا۔ پہلا جرم : (حالت احرام میں ) عورت سے ایسا اختلاط جس سے دونوں کو لذت حاصل ہو قربانی واجب کرتا ہے ، لیکن اگر بوس و کنار (اور چھونا) بغیر شہوت و لذت کے عمل میں ائے تو اس پر کچھ کفارہ نہیں مگر یہ ایک فعل عبث و لا یعنی ہے جس سے احتراز ضروری ہے (64) چنانچہ امام ابو الحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی 428ھ اور علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی 593ھ لکھتے ہیں :
ان قبل او لمس بشہوۃ فعلیہ دم (65)
یعنی، شہوت کے ساتھ بوسہ لینااور مساس(چھونا) قربانی (یعنی دم) کو واجب کرتا ہے ۔ (66) اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
و لو جامع فیما دون الفرج قبل الوقوف او بعدہ باشر او عانق او قبل او لمس بشہوۃ فانزل او لم ینزل فعلیہ دم (67)
یعنی، اور اگر جماع کیا شرمگاہ کے علاوہ میں وقوف سے پہلے یا بعد یا شہوت کے ساتھ مباشرت کی یا بوسہ لیا یا چھوا، انزال ہوا یا نہ ہوا اس پر دم لازم ہے ۔ اور ملا علی قاری حنفی اس کے تحت لکھتے ہیں :
کما فی ’’المبسوط‘‘ و ’’الہدایۃ‘‘ و ’’الکافی‘‘ و ’’البدائع‘‘ و ’’شرح المجمع‘‘ وغیرہا (68)
یعنی، جیسا کہ ’’مبسوط‘‘، ’’ہدایہ‘‘، ’’بدائع الصنائع‘‘ اور ’’شرح المجمع‘‘ وغیرہا میں ہے ۔ اور علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :
ان … لمس بشہوۃ انزل او لا (69)
یعنی، اگر شہوت کے ساتھ چھوا انزال ہو یانہ ہو (دم واجب ہے )۔ اور علامہ حسین بن اسکندر حنفی متوفی 1084ھ لکھتے ہیں :
او لمس بشہوۃ انزل او لا ای یجب علیہ الدم (70)
یعنی، یا شہوت کے ساتھ چھوا انزال ہوا یا نہ ہوا اس پر دم واجب ہے ۔ اور مفتی مکہ علامہ ابو الوجاہت عبد الرحمن بن عیسیٰ مرشدی عمری مکی حنفی متوفی 1037ھ لکھتے ہیں :
(و تجب) علیہ (شاۃ) فقط (ان قبل) بشہوۃ، (او لمس بشہوۃٍ)، او جامع فیمادون الفرج انزل او لم ینزل، و ہذا علی روایۃ ’’الاصل‘‘ (71)
یعنی، اس پر فقط بکری (بطوردم) واجب ہے اگر شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا شہوت کے ساتھ چھوا یا فرج (شرمگاہ) کے علاوہ میں جماع کیا، انزال ہوا یا نہ ہوا اور یہ (حکم) ’’کتاب الاصل‘‘ (یعنی مبسوط امام محمد) کی روایت کی بناء پر ہے ۔ اور علامہ تمرتاشی ’’تنویر الابصار‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :
ہذہ روایۃ ’’الاصل‘‘، قال الطرابلسی فی ’’مناسکہ‘‘ : و لو جامع فیما دون الفرج او لمس بشہوۃ او قبل بشہوۃ و انزل او لم ینزل لا یفسد الحج و علیہ دم ان انزل کذا فی ’’الجامع الصغیر‘‘ و لم یشترط الانزال فی الاصل (72)
یعنی، یہ ’’اصل‘‘ (یعنی مبسوط امام محمد) کی روایت ہے اور طرابلسی نے اپنے ’’مناسک‘‘ میں فرمایا، اگر فرج کے علاوہ میں جماع کیا یا شہوت کے ساتھ چھوایا شہوت کے ساتھ بوسہ دیا اور انزال ہوا یا نہ ہوا تو اس کا حج فاسد نہ ہو گا اور اس پر دم ہے ، اگر انزال کیا (تو دم ہے ) اس طرح ’’جامع الصغیر‘‘ میں ہے اور ’’الاصل‘‘ میں انزال کی شرط نہیں لگائی۔ اور انزال ہو یا نہ ہو شہوت کے ساتھ مندرجہ بالا امور کے پائے جانے پر دم کے لزوم والی روایت کو علامہ علاؤ الدین حصکفی نے ’’اصح‘‘ لکھا ہے جیسا کہ ’’در مختار‘‘ (73) میں ہے اور اس کے تحت علامہ محمد طاہر بن سعید سنبلی حنفی متوفی 1219ھ لکھتے ہیں :
’’و فی الاصح‘‘ ہو موافق لما فی ’’الہدایۃ‘‘ و غیرہا تبعا للاصل (74)
یعنی، صاحب در کا قول کہ ’’اصح قول کے مطابق‘‘ (قطعا دم واجب ہے ) یہ اس کے موافق ہے جو ’’ہدایہ‘‘ وغیرہا میں ہے اور (امام محمد کی کتاب) ’’الاصل‘‘ (یعنی مبسوط) کے تابع ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
قولہ : (فی الاصح) لم ار من صرح بتصحیحہ، و کانہ اخذہ من التصریح بالاطلاق فی ’’المبسوط‘‘، و ’’الہدایۃ‘‘، و ’’البدائع‘‘، و ’’شرح المجمع‘‘ وغیرہا کما فی ’’اللباب‘‘ و رجحہ فی ’’البحر‘‘ بان الدواعی محرمہ لاجل الاحرام مطلقا فیجب الدم مطلقا، و اشترط فی ’’الجامع الصغیر‘‘ الانزال، و صححہ قاضیخان فی ’’شرحہ‘‘ (75)
یعنی، صاحب در مختار کا قول کہ ’’اصح قول کے مطابق‘‘ (علامہ شامی کہتے ہیں کہ) میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ ا س نے اس قول کی تصحیح کی صراحت کی ہو، گویا کہ انہوں نے مبسوط (الاصل)، ہدایہ، بدائع الصنائع، اور شرح المجمع وغیرہا اطلاق کی تصریح کو لیا ہے جیسا کہ ’’لباب المناسک‘‘ میں ہے اور اس (انزال و عدم انزال کی صورت میں لزوم دم والی) روایت کو صاحب بحر نے ’’بحر الرائق‘‘ میں ترجیح دی اس طور پر کہ دواعی جماع احرام کی وجہ سے مطلقا حرام ہیں تو واجب ہے کہ دم بھی (انزال و عدم انزال کی صورت میں ) مطلقا ہو اور ’’الجامع الصغیر‘‘ میں (لزوم دم کے لئے ) انزال کو شرط کیا اور قاضیخان نے اس کی ’’شرح‘‘ میں اس (روایت) کی تصحیح کی ہے ۔ اب اس میں دو روایات ہیں ،ایک جس میں لزوم کے لئے دواعی میں انزال کو شرط نہیں کیا گیا اور دوسری جس میں انزال کو شرط کیا گیا ، ایک روایت ’’کتاب الاصل‘‘ کی ہے جب کہ دوسری ’’الجامع الصغیر‘‘ کی ہے پھر دونوں کی تصحیح بھی مذکور ہے ، ایک کو اکثر نے ترجیح دی ہے جب کہ دوسری کی ’’قاضیخان‘‘ نے تصحیح کی ہے ، ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو احتیاط اسی میں نظر اتی ہے کہ دواعی جماع بلا انزال میں لزوم دم کے قول پر ہی عمل کیا جائے ، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :
و حاصلہ : ان دواعی الجماع کالمعانقۃ، و المباشرۃ الفاحشۃ و الجماع فیما دون الفرج، و التقبیل، و اللمس بشہوۃ موجبۃ للدم انزل او لا قبل الوقوف او بعدہ، و لا یفسد حجہ شیء منہا کما فی ’’اللباب‘‘ (76)
یعنی، حاصل کلام یہ ہے کہ بے شک دواعی جماع جیسے معانقہ، مباشرت فاحشہ، شرمگاہ کے علاوہ میں جماع، شہوت کے ساتھ بوسہ اور چھونا دم کو واجب کرنے والے ہیں چاہے انزال ہوا یانہ ہوا، وقوف سے قبل ہو یا وقوف کے بعد، اور ان میں سے کوئی شی اس کے حج کو فاسد نہیں کرے گی، جیسا کہ ’’لباب المناسک‘‘ میں ہے ۔ لہٰذا شہوت کے ساتھ چھونے پر دم لازم ہو گیا جیسا کہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں :
مباشرت فاحشہ، شہوت کے ساتھ بوس و کنار اوربدن کو مس کرنے میں دم ہے اگرچہ انزال نہ ہو۔ (77) جیسا کہ ’’الجوہرۃ النیرۃ‘‘ (78) میں ہے ۔
اور اس نے دوسرا جرم یہ کیا کہ بلا وضو طواف عمرہ کیا، طواف عمرہ کے جتنے بھی چکر بلا وضو کئے ان کا اعادہ واجب ہو گا اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہو گا، لہٰذا اگر مکہ میں ہے تو اعادہ کر لے اور چلا گیا ہے تو دم دے کیونکہ مذی کے قطرے نکلنے سے اس کا وضو جاتا رہا ، اس طرح اس کا بقیہ طواف بے وضو ہوا۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
و لو طاف للعمرۃ کلہ او اکثرہ او اقلہ، و لو شوطا جنبا ا و حائضا او نفساء او محدثا فعلیہ شاۃ، و لا فرق فیہ بین : القلیل و الکثیر، و الجنب و المحدث، لانہ لا مدخل لہ فی طواف العمرۃ للبدنۃ و لا الصدقۃ بخلاف طواف الزیارۃ (79)
یعنی، اگر عمرہ کا کل یا اس کا اکثر، یا اقل طواف اگرچہ ایک چکر حالت جنابت میں یا حالت حیض یا نفاس میں یا بے وضو کیا تو اس پر بکری (ذبح کرنا بطور دم) لازم ہے ، اس میں قلیل و کثیر، جنبی علیہ الصلوۃ و السلام اور بے وضو میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ طواف عمرہ کو بدنہ کو کوئی دخل نہیں اور نہ ہی صدقہ کو برخلاف طواف زیارت کے ۔ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں :
و لو طاف للعمرۃ محدثا و سعی بعدہ فعلیہ دم ان لم یعد الطواف و رجع الی اہلہ، و لیس علیہ شیء لترک اعادۃ السعی، و لو اعاد الطواف و لم یعد السعی لا شیء علیہ (80)
یعنی، اگر بے وضو عمرہ کا طواف کیا اور اس کے بعد سعی کر لی، اگر اس نے طواف کا اعادہ نہ کیا اور اپنے اہل کو لوٹ گیا تو اس پر دم ہے اور سعی کا اعادہ ترک کرنے میں اس پر کچھ نہیں ہے ، اور اگر طواف کا اعادہ کر لیا اور سعی کا اعادہ نہ کیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ اور طواف میں طہارت واجب ہے ، چنانچہ علامہ شمس الدین سرخسی حنفی متوفی 483ھ لکھتے ہیں :
ان الطہارۃ واجبۃ و ان طواف المحدث معتد بہ عندنا لکن الافضل ان یعیدہ و ان لم یعدہ فعلیہ دم (81)
اگر کسی نے بلا وضو طواف کیا تو یہ طواف تو شمار ہو گا لیکن اس کااعادہ بہتر ہے ۔ اگر اس نے اعادہ نہ کیا تو دم اس پر واجب ہوا۔ (82) اور عمرہ کے طواف میں قلیل و کثیر میں کوئی فرق نہیں ہے اور عمرہ کے طواف میں نہ تو بدنہ ہے اور نہ ہی صدقہ جیسا کہ اوپر گزرا، لہٰذا اعادہ نہ کرنے کی صورت میں دم متعین ہو گا۔ لہٰذا مذکورہ شخص پر دواعی جماع کی وجہ سے ایک دم تو لازم ہو ا اور بے وضو طواف مکمل کرنے کی وجہ سے اس کا باوضو اعادہ لازم ہوا اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں دوسرا دم لازم ائے گا۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم السبت، 14 ذو الحجۃ 1434ھـ، 19 اکتوبر 2013 م 883-F
حوالہ جات
64۔ الحج، عورت سے صحبت و بوس و کنار، ص53
65۔ مختصر القدوری، کتاب الحج، باب الجنایات المحرم، ص72
الہدایۃ، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل : فان نظر الی الخ، 1۔2/197
66۔ الحج، عورت سے صحبت و بوس و کنار، ص53
67۔ لباب المناسک و عباب المسالک، باب الجنایات، النوع الرابع : فی حکم الجماع و دواعیۃ، فصل : فی حکم دواعی الجماع، ص212
68۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، النوع الرابع فی حکم الجماع و دواعیہ، فصل : فی حکم دواعی الجماع، تحت قولہ : فعلیہ دم، ص486
69۔ تنویر الابصار، کتاب الحج، باب الجنایات، ص167
70۔ منسک الحج علی مذہب الامام الاعظم ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ، ص163ب
71۔ فتح مسالک الرمز فی شرح مناسک الکنز، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل : فی بیان احکام الجماع المحرم و ما یتعلق بہ، ق 78/ب
72۔ منح الغفار، کتاب الحج، باب الجنایات، ق 167/ب
73۔ الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، ص167
74۔ ضیاء الابصار علی منسک الدر المختار، باب الجنایات، ق 47/ب، ص224
75۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر، او لمس بشہوۃالخ، 3/667
76۔ رد المحتار علی الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر : او قبل، 3/667
77۔ بہار شریعت، حج کابیان، جرم اوران کے کفارے ، 1/1172
78۔ الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : ان قبل او لمس، 1/405
79۔ لباب المناسک و عباب المسالک، باب الجنایات، فصل : فی الجنایۃ فی طواف العمرۃ، ص217
80۔ لباب المناسک و عباب المسالک، باب الجنایات، فصل : فی الجنایۃ فی طواف العمرۃ، ص217
81۔ المبسوط، کتاب المناسک، باب الطواف، 2/670
82۔ الحج، واجبات و محرمات طواف، ص97