بہار شریعت

دودھ کے رشتوں کے متعلق مسائل

دودھ کے رشتوں کے متعلق مسائل

مسئلہ ۱: بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لئے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں ۔

مسئلہ ۲: مدت پوری ہونے کے بعد بطور علاج بھی دودھ پینا یا پلانا جائز نہیں ۔ (درمختار)

متعلقہ مضامین

مسئلہ ۳: رضاع (یعنی دودھ کا رشتہ) عورت کا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے مرد یا جانور کا دودھ پینے سے ثابت نہیں ہوتا اور دودھ پینے سے مراد یہی معروف طریقہ نہیں بلکہ اگر حلق یا ناک میں ٹپکایا گیا جب بھی یہی حکم ہے۔ اور تھوڑا پیا یا زیادہ بہرحال حرمت ثابت ہو گی۔ جبکہ اندر پہنچ جانا معلوم ہوا اور اگر چھاتی منہ میں لی مگر یہ نہیں معلوم کہ دودھ پیا تو حرمت ثابت نہیں ۔ (ہدایہ جوہرہ وغیرہما)

مسئلہ ۴: عورت کا دودھ اگر حقنہ سے اندر پہنچایا گیا یا کان میں ٹپکایا گیا یا پیشاب کے مقام سے پہنچایا گیا یا پیٹ یا دماغ میں زخم تھا اس میں ڈالا کہ اندر پہنچ گیا تو ان صورتوں میں رضاع نہیں ۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۵: کنواری یا بڑھیا کا دودھ پیا بلکہ مردہ عورت کا دودھ پیا جب بھی رضاع ثابت ہے۔ (درمختار) مگر نو برس سے چھوٹی لڑکی کا دودھ پیا تو رضاع نہیں ۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۶: عورت نے بچہ کے منہ میں چھاتی دی اور یہ بات لوگوں کو معلوم ہے مگر اب کہتی ہے کہ اس وقت میرے دودھ نہ تھا اور کسی اور ذریعہ سے بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ دودھ تھا یا نہیں تو اس کا کہنا مان لیا جائے گا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۷: بچہ کو دودھ پینا چھڑا دیا گیا ہے مگر اس کو کسی عورت نے دودھ پلا دیا اگر ڈھائی برس کے اندر ہے تو رضاع ثابت ورنہ نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۸: عورت کو طلاق دے دی اس نے اپنے بچہ کو دو برس کے بعد تک دودھ پلایا تو دو برس کے بعد کی اجرت کا مطالبہ نہیں کر سکتی یعنی لڑکے کا باپ اجرت دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور دو برس تک کی اجرت اس سے جبراً لی جا سکتی ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۹: دو برس کے اندر بچہ کاباپ اس کی ماں کو دودھ چھڑانے پر مجبور نہیں کر سکتا اور اس کے بعد کر سکتا ہے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: عورتوں کو چاہیئے کہ بلاضرورت ہر بچہ کو دودھ نہ پلا دیا کریں اور پلائیں تو خود بھی یاد رکھیں اور لوگوں سے یہ بات کہہ بھی دیں عورت کو بغیر اجازت شوہر کسی بچہ کو دودھ پلانا مکروہ ہے ۔ البتہ اگر اس کے ہلاک کا اندیشہ ہے تو کراہت نہیں ۔ (ردالمحتار) مگر میعاد کے اندر رضاعت بہر صورت ثابت۔

مسئلہ ۱۱: بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا وہ اس بچہ کی ماں ہو جائے گی اور اس کا شوہر (جس کا یہ دودھ ہے یعنی اس کی وطی سے بچہ پیدا ہوا جس سے عورت کو دودھ اترا) اس دودھ پینے والے بچہ کا باپ ہو جائے گا۔ اور اس عورت کی تمام اولادیں اس کے بھائی بہن خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے اس کے دودھ پینے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی یا ساتھ کی اور عورت کے بھائی، ماموں اور اس کی بہن خالہ یونہی اس شوہرکی اولادیں اس کے بھائی بہن اور اس کے بھائی اس کے چچا اور اس کی بہنیں اس کی پھوپھیاں خواہ شوہر کی یہ اولادیں اسی عورت سے ہو یا دوسری سے یونہی ہر ایک کے باپ ماں اس کے دادا دادی نانا نانی۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: مرد نے عورت سے جماع کیا اوراس سے اولاد نہیں ہوئی مگر دودھ اتر آیا تو جو بچہ یہ دودھ پئے گا عورت اس کی ماں ہو جائے گی مگر شوہر اس کا باپ نہیں لہذا شوہر کی اولاد جو دوسری بی بی سے ہے اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۱۳: پہلے شوہر سے عورت کی اولاد ہوئی اور دودھ موجود تھا کہ دوسرے سے نکاح ہوا اور کسی بچہ نے دودھ پیا تو پہلا شوہر اس کا باپ ہو گیا۔ دوسرا نہیں اور جب دوسرے شوہر سے اولاد ہو گئی تو اب پہلے شوہر کا دودھ نہیں بلکہ دوسرے کا ہے اور جب تک دوسرے سے اولاد نہ ہوئی اگرچہ حمل ہو، پہلے ہی شوہر کا دودھ ہے دوسرے کا نہیں ۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۱۴: مولی نے کنیز سے وطی کی اور اولاد پیدا ہوئی تو جو بچہ اس کنیز کا دودھ پیئے گا یہ اس کی ماں ہو گی اور مولی اس کا باپ۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۵: جو نسب میں حرام ہے، رضاع میں بھی حرام مگر بھائی یا بہن کی ماں کہ یہ نسب میں حرام ہے کہ وہ اس کی ماں ہو گی یا باپ کی موطؤہ اور دونوں حرام اور رضاع میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں لہذا حرام نہیں اور اس کی تین صورتیں ہیں ۔ رضاعی بھائی کی رضاعی ماں یا رضاعی بھائی کی حقیقی ماں یا حقیقی بھائی کی رضاعی ماں ۔ یونہی بیٹے یا بیٹی کی بہن یا دادی کہ نسب میں پہلی صورت میں بیٹی ہو گی یا ربیبہ۔ اور دوسری صورت میں ماں ہو گی یا باپ کی موطؤہ یونہی چچا یا پھوپھی کی ماں یا ماموں یا خالہ کی ماں کہ نسب میں دادی نانی ہو گی۔ اور رضاع میں حرام نہیں ۔ اور ان میں بھی وہی تین صورتیں ہیں ۔ (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۱۶: حقیقی بھائی کی رضاعی بہن یا رضاعی بھائی کی حقیقی بہن یا رضاعی بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح جائز ہے اور بھائی کی بہن سے نسب میں بھی ایک صورت جواز کی ہے یعنی سوتیلے بھائی کی بہن جو دوسرے باپ سے ہو۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۷: ایک عورت کا دو بچوں نے دودھ پیا۔ اور ان میں ایک لڑکا ایک لڑکی ہے تو یہ بھائی بہن ہیں ۔ اور نکاح حرام اگرچہ دونوں نے ایک وقت میں نہ پیا ہو بلکہ دونوں میں برسوں کا فاصلہ ہوا اگرچہ ایک کے وقت میں ایک شوہر کا دودھ تھا اور دوسرے کے وقت میں دوسرے کا۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۸: دودھ پینے والی لڑکی کا نکاح پلانے والی کے بیٹوں پوتوں سے نہیں ہو سکتا کہ یہ ان کی بہن یا پھوپھی ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۹: جس عورت سے زنا کیا اور بچہ پیدا ہوا اس عورت کا دودھ جس لڑکی نے پیا وہ زانی پر حرا م ہے۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۲۰: پانی یا دوا میں عورت کا دودھ ملا کر پلایا تو اگر دودھ غالب ہے یا برابر تو رضاع ہے مغلوب ہے تو نہیں ۔ یونہی اگر بکری وغیرہ کسی جانور کے دودھ میں ملا کر دیا تو اگر یہ دودھ غالب ہے تو رضاع نہیں ورنہ ہے۔ اور دو عورتوں کا دودھ ملا کر پلایا تو جس کا زیادہ ہے اس سے رضاع ثابت ہے اور دونوں برابر ہوں تو دونوں سے اور ایک روایت میں ہے کہ بہرحال دونوں سے رضاع ثابت ہے۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۲۱: کھانے میں عورت کا دودھ ملا کر دیا اگر وہ پتلی چیز پینے کے قابل ہے اور دودھ غالب یا برابر ہے تو رضاع ثابت ورنہ نہیں اور اگر پتلی چیز نہیں ہے تو مطلقاً ثابت نہیں ۔ (ردالحتار)

مسئلہ ۲۲: دودھ کا پنیر یا کھویا بنا کر بچہ کو کھلایا تو رضاع نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۳: خنثی مشکل کو دودھ اترا اس نے بچے کو پلایا تو اگر اس کا عورت ہونا معلوم ہواتو رضاع ہے اور مرد ہونا معلوم ہوا تو نہیں اور کچھ معلوم نہ ہواتو اگر عورتیں کہیں اس کا دودھ مثل عورت کے ہے تو رضاع ہے ورنہ نہیں ۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۲۴: کسی کی دو عورتیں ہیں بڑی نے چھوٹی کو جو شیر خوار ہے دودھ پلا دیا تودونوں اس پر ہمیشہ کو حرام ہو گئیں ۔ بشرطیکہ بڑی کے ساتھ وطی کر چکا ہو۔ اور وطی نہ کی تو دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ بڑی کو طلاق دے دی ہے اور طلاق کے بعد اس نے دودھ پلایا تو بڑی ہمیشہ کو حرام ہو گئی اور چھوٹی بدستور نکاح میں ہے دوم یہ کہ طلاق نہیں دی ہے اور دودھ پلا دیا تو دونوں کا نکاح فسخ ہو گیا۔ مگر چھوٹی سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے اور بڑی سے وطی کی ہو تو پورا مہر پائے گی اور وطی نہ کی ہو تو کچھ نہ ملے گا مگر جب کہ دودھ پلانے پر مجبور کی گئی یا سوتی تھی سوتے میں چھوٹی نے دودھ پی لیا یا مجنونہ تھی حالت جنون میں دودھ پلا دیا یا اس کا دودھ کسی اور نے چھوٹی کے حلق میں ٹپکا دیا تو ان صورتوں میں نصف مہر بڑی بھی پائے گی اور چھوٹی کو نصف مہر ملے گا۔ پھر اگر بڑی نے نکاح فسخ کرنے کے ارادہ سے پلایا تو شوہر یہ نصف مہر کہ چھوٹی کو دے گا بڑی سے وصول کر سکتا ہے ۔ یونہی اس سے وصول کر سکتا ہے جس نے چھوٹی کے حلق میں ٹپکا دیا۔ بلکہ اس سے تو چھوٹی اور بڑی دونوں کا نصف نصف مہر وصول کر سکتا ہے جب کہ اس کا مقصد نکاح فاسد کر دینا ہو۔ اور اگر نکاح فاسد کرنا مقصود نہ ہو تو کسی صورت میں کسی سے نہیں لے سکتا۔ اور اگر یہ خیال کر کے دودھ پلایا ہے کہ بھوکی ہے ہلاک ہو جائے گی تو اس صورت میں بھی رجوع نہیں ۔ عورت کہتی ہے کہ فاسدکرنے کے ارادہ سے نہیں پلایا تھا تو حلف کے ساتھ اس کا قول مان لیا جائے۔ (جوہرہ، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۵: بڑی نے چھوٹی کو بھوکی جان کر دودھ پلا دیا بعد کو معلوم ہوا کہ بھوکی نہ تھی تو یہ نہ کہا جائے گا کہ فاسد کرنے کے ارادہ سے پلایا۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۲۶: رضاع کے ثبوت کیلئے دو مرد یا ایک مرد اوردو عورتیں عادل گواہ ہوں اگرچہ وہ عورت خود دودھ پلانے والی ہو فقط عورتوں کی شہادت سے ثبوت نہ ہو گا۔ مگر بہتر یہ ہے کہ عورتوں کے کہنے سے بھی جدائی کرے۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۲۷: رضاع کے ثبوت کے لئے عورت کے دعوی کرنے کی کچھ ضرورت نہیں مگر تفریق قاضی کے حکم سے ہو گی یا متارکہ سے مدخولہ میں کہنے کی ضرورت ہے مثلاً یہ کہے کہ میں نے تجھے جدا کیا یا چھوڑا اور غیر مدخولہ میں محض اس سے علیحدہ ہو جانا کافی ہے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸: کسی عورت سے نکاح کیا اور ایک عورت نے آکر کہا میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے اگر شوہر یا دونوں اس کے کہنے کو سچ سمجھتے ہوں تو نکاح فاسد ہے اور وطی نہ کی ہوتو کچھ مہر نہیں اور اگر دونوں اس کی بات جھوٹی سمجھتے ہوں تو بہتر جدائی ہے اگر وہ عورت عادلہ ہے۔ پھر اگر وطی نہ ہوئی ہو تو مرد کو افضل یہ ہے کہ نصف مہر دے اور عورت کو افضل یہ ہے کہ نہ لے اور وطی ہوئی ہو تو افضل یہ ہے کہ پورا مہر دے اور نان نفقہ بھی اور عورت کو افضل یہ ہے کہ مہر مثل اور مہر مقرر شدہ میں جو کم ہے وہ لے۔ اور اگر عورت کو جدا نہ کرے جب بھی حرج نہیں ۔ یونہی اگر غیر عادل یا دو عورتوں یا ایک مرد اور ایک عورت نے شہادت دی تو اس میں بھی یہی صورتیں ہیں ۔ اور اگر زوجہ نے اس خبر کی تصدیق کی اور شوہر نے تکذیب تو نکاح فاسد نہیں مگرزوجہ شوہر سے حلف لے سکتی ہے اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو تفریق کر دی جائے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۹: عورت کے پاس دو عادل نے شہادت دی اورشوہر منکر ہے مگر قاضی کے پاس شہادت نہیں گزری۔ پھر یہ گواہ مر گئے یا غائب ہو گئے تو عورت کے کو اس کے پاس رہنا جائز نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۰: صرف دو عورتوں نے قاضی کے پاس رضاع کی شہادت دی اور قاضی نے تفریق کا حکم دے دیا تو یہ حکم نافذ نہ ہو گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۱: کسی عورت کی نسبت کہا کہ یہ میری دودھ شریک بہن ہے پھر اس اقرار سے پھر گیا تو اس کا کہنا مان لیا جائے گا۔ اور اگر اقرار کے ساتھ یہ بھی کہا کہ بات ٹھیک ہے، سچی ہے، صحیح ہے ، حق وہی ہے جو میں نے کہہ دیا تو اب اقرار سے پھر نہیں سکتا۔ اور اگر اس عورت سے نکاح کر چکا تھا۔ اب اس قسم کا اقرار کرتا ہے تو جدائی کر دی جائے۔ اور اگر عورت اقرار کر کے پھر گئی اگرچہ اقرار پر اصرار کیا اور ثابت رہی ہو تو اس کا قول بھی مان لیا جائے۔ دونوں اقرار کر کے پھر گئے پھر بھی یہی احکام ہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۲: مرد نے اپنی عورت کی چھاتی چوسی تو نکاح میں کوئی نقصان نہ آیا اگرچہ دودھ منہ میں آگیا بلکہ حلق سے اتر گیا۔ (درمختار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button