ARTICLES

دم کرنا اور تعویز پہننا کیسا ہے؟

سوال: دم کرنا اوور تعویز پہننا کیسا ہے؟ 

جواب: اگر دم یا تعویز اللہ تعالی کے کلام، احادیث مبارکہ یا اچھے الفاظ سے کیا جائے اور اس کے لیے کوئی ناجائز و خلاف شرع کام نہ کرنا پڑے تو اور دم کرنا اور تعویز پہننا بالکل جائز ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے اور اس بارے میں متعدد احادیث ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی حضرت جبریل علیہ السلام نے دم فرمایا۔ اسی طرح دم کرنا اور تعویز پہننا عقلا بھی جائز ہے کیونکہ جب جادوگروں کے الٹے پلٹے الفاظ اور منتروں میں تاثیر ہو سکتی ہے (جیسا کہ قرآن پاک میں موجود ہے) تو اللہ تعالی کے مبارک کلام میں تاثیر کیوں نہیں ہو سکتی۔ 

متعلقہ مضامین

دلائل:

صحابہ نے دم کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا:

(1) دم کرنے کے بارے میں بخاری شریف میں ہے جس میں صحابہ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، پھر اس کی اجرت بھی لی، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تحسین فرمائی بلکہ فرمایا: اس میں سے میرا بھی حصہ رکھو۔ مکمل حدیث یہ ہے: ’’عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال انطلق نفر من أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفرۃ سافروہا حتی نزلوا علی حی من أحیاء العرب فاستضافوہم ، فأبوا أن یضیفوہم ، فلدغ سید ذلک الحی ، فسعوا لہ بکل شیء لا ینفعہ شیء ، فقال بعضہم لو أتیتم ہؤلاء الرہط الذین نزلوا لعلہ أن یکون عند بعضہم شیء ، فأتوہم ، فقالوا یا أیہا الرہط ، إن سیدنا لدغ ، وسعینا لہ بکل شیء لا ینفعہ ، فہل عند أحد منکم من شیء فقال بعضہم نعم واللہ إنی لأرقی ، ولکن واللہ لقد استضفناکم فلم تضیفونا ، فما أنا براق لکم حتی تجعلوا لنا جعلافصالحوہم علی قطیع من الغنم ، فانطلق یتفل علیہ ویقرأ ( الحمد للہ رب العالمین ) فکأنما نشط من عقال ، فانطلق یمشی وما بہ قلبۃ ، قال فأوفوہم جعلہم الذی صالحوہم علیہ، فقال بعضہم اقسموا . فقال الذی رقی لا تفعلوا ، حتی نأتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فنذکر لہ الذی کان ، فننظر ما یأمرنا . فقدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکروا لہ ، فقال  وما یدریک أنہا رقیۃ ثم قال قد أصبتم اقسموا واضربوا لی معکم سہما‘‘ترجمہ:حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر میں تھے،ان کا گذر قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پر ہوا،انہوں نے ضیافت کا مطالبہ کیا ،انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا ،اس قبیلہ کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیااس کے علاج میں انہوںنے ہر قسم کی کو شش کی مگر کوئی کارگر نہ ہوئی پھر انہی میں سے کسی نے کہا یہ جماعت جو یہاں آئی ہے (یعنی صحابہ)ان کے پاس چلو شاید ان میں سے کسی کے پاس اس کا کچھ علاج ہو ،وہ لوگ صحابہ کے پاس حاضر ہوکر کہنے لگے کہ ہمارے سردار کو سانپ یا بچھو نے ڈس لیااور ہم نے ہر قسم کی کوشش کی، مگر کچھ نفع نہ ہوا، کیا تمہارے پاس اس کا کچھ علاج ہے؟ ایک صحابی بولے: ہاں میں دم کرتا ہوں،مگر ہم نے تم سے مہمانی طلب کی اور تم نے ہماری مہمانی نہیں کی تو اب اس وقت میں دم کروں گا کہ تم اس کی اجرت دو گے، اجرت میں بکریوں کا ریوڑ دینا طے پایا،انہوں نے {الحمد للہ رب العلمین} یعنی سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا شروع کیا وہ شخص بالکل اچھا ہوگیا اور وہاں سے ایسا ہوکر گیا کہ اس پر زہر کا کچھ اثر نہ تھا ،اجرت جو مقرر ہوئی تھی انہوں نے پوری دے دی ،ان میں سے بعض صحابہ نے کہا کہ اس کو آپس میں تقسیم کرلیا جائے،مگر جنہوں نے دم کیا تھا، انہوں نے کہا: ایسا نہ کرو، بلکہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور حضور سے تمام واقعہ عرض کریں گے، پھر حضور اس کے متعلق جو کچھ حکم دیں گے وہ کریں گے،جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا ،تو آپ صؒی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں اس کا رقیہ (قابل شفا) ہونا کیسے معلوم ہوا؟ پھر فرمایا: تم نے ٹھیک کیا، آپس میں اسے تقسیم کرلو اور( اس لئے کہ اس کے جواز کے متعلق ان کے دل میں کوئی خدشہ نہ رہے یہ فرمایا کہ) میرا بھی ایک حصہ مقرر کرو۔ 

(صحیح البخاری،ج1،ص400،مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

کون سا دم کرنا جائز ہے؟ 

(2)ہر الفاظ سے دم کرنا جائز نہیں ہے، جادوگر بھی اپنے منتر پڑھ کر دم کرتے ہیں لیکن وہ جائز نہیں ہیں۔ ہر وہ دم جس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں وہ دم کرنا بالکل جائز ہے۔ مسلم شریف کی حدیث پاک ہے: ’’عن عوف بن مالک الأشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ فقلنا یا رسول اللہ کیف تری فی ذلک فقال  اعرضوا علی رقاکم لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘ترجمہ:حضرت عوف ابن مالک اشجعی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں دم کرتے تھے تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے عالی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے بتاو کیسے دم کرتے تھے؟ پھر فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو۔   

 (صحیح مسلم،کتاب السلام ،باب لابأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک،جلد7،صفحہ19،دار الجیل، بیروت)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دم کیا گیا:

(3) مسلم شریف میں اس کے متعلق ایک مستقل باب ہے{ باب الطب والمرض والرُّقی} ’’ یہ باب ہے طب ، بیماری اور دم کے بارے میں ہے‘‘ اس طرح کا باب بخاری شریف اور دیگر کتب احادیث میں بھی ہے۔ مسلم شریف میں اس باب کے تحت متعدد احادیث نقل فرمائیں چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ’’کان اذا اشتکی رسول اﷲصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  رقاہ جبریل قال بسم اﷲ یبریک و من کل داء یشفیک و من شر حاسد اذا حسد و شر کل ذی عین‘‘جب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دم کرتے۔‘‘  دم کے الفاظ حدیث میں مذکور ہیں ۔

(4) یونہی حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ان جبریل اتی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فقال یا محمد اشتکیت فقال نعم قال بسم اﷲ ارقیک من کل شی یوذیک من شرکل نفس او عین حاسد اﷲ یشفیک بسم اﷲ ارقیک ‘‘  جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بیمار ہیں فرمایا ہاں تو جبرئیل علیہ السلام نے حدیث میں مذکور الفاظ کے ساتھ سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو دم کیا۔‘‘

صحابہ کا اپنے بچوں کو تعویز پہنانا:

(5) جس طرح دم کرنا جائز ہے اسی طرح لکھ کر گلے میں تعویذ ڈالنا بھی جائز ہے بلکہ خود صحابہ اپنے بچوں کو تعویز پہنایا کرتے۔ ابو دائود،مشکوٰۃ، مسند امام احمد بن حنبل اورترمذی شریف میں ہے :” اذا فزع احدكم في النوم فليقل، اعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وان يحضرون فانها لن تضره ، فكان عبد الله بن عمرو، يلقنها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه“ ترجمہ :جب تم میں سے کوئی نیندمیں گھبراجائے تو یوں کہے کہ”میں اللہ عزوجل کے تمام کلمات کی پنا ہ لیتا ہوں اس کی ناراضی ،اس کے عذاب ، اس کے بندوں کے شر ، شیطانوں کے وسوسوں سے اور ان کی حاضری سے“ پس تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا ،عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی بالغ اولاد کو یہ سکھاتے تھے اور نابالغوں کے گلے میں کسی کاغذ پر لکھ کر لٹکادیتے تھے ۔ 

  (سنن ترمذی جلد5،صفحہ541 مکتبۃ المصطفی البابی مصر)

حرف ابجد کا استعمال جائز ہے:

حروف ابجد کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حروب ابجد کا استعمال ہوتا تھا اور آپ منع نہیں فرماتے تھے۔ لہذا جب ان کا استعمال جائز ہے تو تعویزات میں بھی اس کا استعمال کرنا درست ہے، شریعت مطہرہ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔   قاضی ابو الخیر عبد اللہ بن عمر بیضاوی شیرازی علیہ الرحمۃ اپنی تفسیر انورالتنزیل واسرار التأویل میں حروف مقطعات (الم )کی بحث میں ارشاد فرماتےہیں :” او الى مدد اقوام وآجال بحساب الجمل كما قال ابو العالية متمسكا بما روي ”انه عليه الصلاة والسلام لما اتاه اليهود تلا عليهم الم البقرة فحسبوه وقالوا كيف ندخل في دين مدته احدى وسبعون سنة، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: فهل غيره، فقال: المص والر والمر، فقالوا: خلطت علينا فلا ندري بايها نأخذ “ترجمہ:یا ان حروف مقطعات سے بحساب جمل قوموں کی بقا کی معیاد کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ ابوالعالیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے  تو آپ نے انہیں سورۃ البقرۃ سے ”الم“ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے حساب لگایا اور کہنے لگے کہ ہم اس دین میں کیسے  داخل ہوجائیں جس کی کل مدت 71سال ہے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے ،تو اس پر یہود نے پوچھاکیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا المص،الر،المر ،تو انہوں نے کہا آپ نے معاملہ ہم پر مشتبہ کردیا،اب ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم ان میں سے کسے بنیاد بنا کر حساب لگائیں۔

(انوار التنزیل واسرار التاویل، سورۃ البقرۃ،آیت1،ج1،ص34،دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

مزید ارشاد فرماتے ہیں :”فان تلاوته اياها بهذا الترتيب عليهم وتقريرهم على استنباطهم دليل على ذلك، وهذه الدلالة وان لم تكن عربية لكنها لاشتهارها فيما بين الناس حتى العرب تلحقها بالمعربات كالمشكاة والسجيل والقسطاس“ ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود پراعدادکی ترتیب سے آیات کی تلاوت کرنا اور ان کے استدلال کوبرقرار رکھنا اس علم پر دلیل ہے،اور حساب جمل  کی یہ دلالت اگرچہ عربی نہیں لیکن عام لوگوں میں حتی کہ عربوں میں بھی مشہور ہونے کی وجہ سے اسے معربات سے ملایاجائے گا، جیسے لفظ ِمشکوۃ،سجیل،قسطاس وغیرہ ۔ “

(انوار التنزیل واسرار التاویل، سورۃ البقرۃ،آیت1،ج1،ص34،دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

نبی اکر  م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کی کلائی پر تعویز باندھا:

(6) دم شدہ چیز کلائی وغیرہ پر باندھنے کے بارے میں معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الاصفہانی میں حدیث پاک ہے’’عن ابن ثعلبۃ أنہ أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال یا رسول اللہ ، ادع اللہ لی بالشہادۃ ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ائتنی بشعرات قال فأتاہ ، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اکشف عن عضدک قال فربطہ فی عضدہ ، ثم نفث فیہ ، فقال اللہم حرم دم ابن ثعلبۃ علی المشرکین المنافقین ‘‘ترجمہ:حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اللہ عزوجل سے میرے لئے شہادت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس چند بال لاؤ ۔وہ بال لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: اپنی کلائی کھولو۔ آپ نے ان کی کلائی پر یہ بال باندھ دیئے۔پھر اس میں پھونک ماری،پھرفرمایا اے اللہ عزوجل! ابن ثعلبہ کا خون مشرکین ،منافقین پر حرام فرمادے۔

   (معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الاصفہانی،جلد21،صفحہ190،المکتبۃ الشاملۃ)

دم کیا ہوا پانی پلانا:

(7) کسی متبرک چیز سے پانی لگا کرمریض کو پلانے کے بارے میں بخاری شریف میں حدیث ہے: ’’حدثنا اسرائیل عن عثمان بن عبد اللہ بن موہب قال أرسلنی أہلی إلی أم سلمۃ بقدح من ماء وقبض إسرائیل ثلاث أصابع من قصۃ فیہ شعر من شعر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان إذا أصاب الإنسان عین أو شیء بعث إلیہا مخضبہ ، فاطلعت فی الجلجل فرأیت شعرات حمرا‘‘ترجمہ:ہم سے اسرائیل نے بیان کیا : حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب فرماتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک چاندی کا پیالہ دے کر بھیجا ،اسرائیل(روای)نے (پیالے کے چھوٹے ہونے کو بیان کرنے کے لئے) تین انگلیاں سکوڑ لیں، اس پیالے میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بالوں میں سے ایک بال تھا ،جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کچھ ہوجاتا تو وہ ام المومنین کے یہاں ایک برتن بھیجتا ،میں نے پیالے میں جھانکا تو چند سرخ بال دکھائی دیئے۔

(صحیح بخاری،باب مایذکر فیہ الشیب،ج2،ص399،مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

 اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے’’ان ام سلمہ کان عندہما شعرات من شعر النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حمر فی شیٔ مثل الجلجل وکان الناس عند مرضھم یتبرکون بھا ویستشفون من برکتھا ویاخذون من شعرہ ویجعلون فی قدح من الماء فیشربون الماء الذی فیہ الشعر فیحصل لھم الشفائ‘‘ترجمہ:ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس نلکی کی مثل کسی چیز میںحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سرخ بال مبارک تھے،لوگ اپنے امراض میں ان سے برکتیں حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا ء حاصل کرتے تھے،بال مبارک لے کر کسی پانی کے برتن میں رکھتے اور بال مبارک والا پانی پی لیتے جس کی برکت سے انہیں شفاء حاصل ہوجاتی۔ 

  (عمدۃ القاری،ج22،ص76،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

امام احمد بن حنبل کا لوگوں کو تعویز دینا:

(8) انہی روایات کی روشنی میں سلف صالحین بھی تعویزات کو جائز سمجھتے تھے بلکہ خود تعویزات کیا کرتے تھے، آج کچھ لوگ تعویزات کو ناجائز کہتے ہیں حالانکہ  اگر دم یا تعویزات کرنا ناجائز ہوتا تو امت کی نیک اور بزرک ہستیاں، جن کی وجہ سے ہم تک احادیث پہنچی ہیں، وہ سب سے پہلے اس سے منع فرماتے۔ مواہب شریف میں امام ابوبکر احمد ابن علی بن سعید ثقہ حافظ الحدیث علیہ الرحمۃ سے ہے کہ مجھے بخار آیا امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خبر ہوئی انہوں نے یہ تعویذ مجھے لکھ کر بھیجا: ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم بسم اللہ وباللہ و محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا نار کونی برداو سلما الخ یعنی اللہ عزوجل کے نام سے اور اللہ عزوجل کی برکت سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکت سے اے آگ ٹھنڈی ہوجا الی آخرہ ۔‘‘                 

بعض احادیث میں ممانعت کی وجہ:

اب رہی وہ احادیث جن میں تعویذ لٹکانے کو شرک یا برا کہا گیا ہے، عام لوگ اسے ان اھادیث کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کا علم رکھنے والا مسلمان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے مسلمان یہ گوارا نہیں کرتا کہ کچھ احادیث کو مان لیا جائے اور جو احادیث اپنی مرضی کی نہ ہو ان کا انکار کر دیا جائے۔ بلکہ مسلمان تو حتی الامکان ان میں موافقت و مطابقت کی کوشش کرتا ہے تاکہ تمام احادیث پر عمل ہو جائے۔ چنانچہ علمائے دین نے ان دونوں میں درج ذیل مطابقت بیان فرمائی ییں۔

(1) نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ابتداً دم اور تعویذ سے منع کیا بعد میں اجازت دے دی جیسا کہ زیارت قبور اور دیگر بہت سارے مسائل میں ایسے ہوا۔

(2) یہ ممانعت ان تعویذوں کے بارے میں ہے جو شرکیہ و کفریہ یا باطل کلمات پر مشتمل ہوں۔اور ایسے الفاظ پر مشتمل تعویذات جو مجہول المعنی ہوں۔اور جو  تعویز  قرآن و حدیث یا اچھے کلمات پر مشتمل ہو وہ جائز ہے جیسا کہ اوپر (2) نمبر احادیث میں دم کے بارے میں گزرا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکیہ الفاظ والے دم سے منع فرمایا اور باقی الفاظ سے دم کرنے کی اجازت دی۔ 

(3) یہ ممانعت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو دموں اور تعویذوں کو بذاتِ خود موثر سمجھیں۔ اور جو موثر حقیقی اللہ تعالیٰ کو سمجھیں اور دموں اور تعویذوں کو محض شفاء کا ایک وسیلہ سمجھیں جس طرح سنی مسلمانوں کا اعتقاد ہوتا ہے۔ جس طرح مسلمان طبی دواؤں کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ ان کے حق میں تعویذ جائز ہیں۔ جیسا کہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق سوال کیاگیا جس پر جنون طاری ہوگیا کہ کیا ان پر کوئی دم پڑھا جائے؟ فرمایا:  کوئی حرج نہیں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button