استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حج یا عمرے میں اگر دم وغیرہ لازم ا جائے تو اس کی ادائیگی علی التراخی لازم اتی ہے یا علی الفور اور اگر فورا لازم ہو تو تاخیر سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں ؟
(السائل : حافظ بلال قادری)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : جنایتوں کی جزائیں اور کفارے علی التراخی واجب ہوتے ہیں اس لئے تاخیر کے سبب گناہ لازم نہیں اتا جب بھی ادا کرے گا ادا کرنے والا قرار پائے گا نہ کہ قضاء کرنے والا، اگرچہ کفارے کو ساقط کرنے میں جلدی کرنا افضل ہے اور اگر ادا نہ کیا اور مر گیا تو گنہگار ہو گا اور اس صورت میں مرنے سے قبل وصیت کرنا لازم ہے اور اگر وصیت نہ کر کے گیا تو ورثاء پر ان کی ادائیگی لازم نہیں ، ہاں اگر وہ اپنی مرضی سے ادا کر دیں تو نجات کی امید ہے ۔ دم (یہاں دم سے مراد دم جبر ہے نہ کہ دم شکر) اور کفارے علی التراخی واجب ہوتے ہیں ان کے بارے میں علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
اعلم ان الکفارات کلھا واجبۃ علی التراخی (118)
یعنی، جان لے کہ تمام کفارے علی التراخی واجب ہیں ۔
فلا یاثم بالتاخیر عن اول وقت الامکان و یکون مودیا لا قاضیا فی ای وقت ادی (119)
یعنی، پس اول وقت امکان (120) سے تاخیر کے سبب گنہگار نہ ہو گا جس وقت ادا کرے گا ادا کرنے والا کہلائے گا (121) نہ کہ قضاء کرنے والا۔
انما یتضیق علیہ الوجوب فی اخر عمرہ فی وقتٍ یغلب علی ظنہ انہ لو لم یودہ لفات، فان لم یود فیہ فمات اثم و یجب علیہ الوصیۃ بالادائ (122)
یعنی، وجوب اس پر اس کی عمر کے اخر میں اس وقت تنگ ہوتا ہے جب اس کو غالب گمان یہ ہو جائے کہ اگر وہ (اس وقت ) ادا نہیں کرے گا تو (وقت ادا) فوت ہو جائے گا، پس اگر اس وقت ادا نہ کیا او رمر گیا تو گنہگار ہوا اور اس پر ادائیگی کی وصیت لازم ہے ۔
و لولم یوص لم یجب فی الترکۃ ، و لا علی الورثۃ، و لو تبرع عنہ الورثۃ جاز (123)
یعنی، اور اگر وصیت نہ کی تو ترکہ میں سے ادائیگی واجب نہ ہوئی اور نہ ورثہ پر (ادائیگی واجب ہے ) اور اگر ورثہ نے اس کی طرف سے ادا کر دیا تو جائز ہوا۔
اس کے تحت ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ ’’اس کی نجات کی امید ہے ‘‘ (124)
اور ادائیگی میں جلدی کرنے کے بارے میں ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ :
و انما الفور بالمسارعۃ الی الطاعۃ و المسابقۃ الی اسقاط الکفارۃ افضل، لان فی تاخیر العبادات افات، لذا قیل : عجلوا بادائ الصلاۃ قبل الفوت، و اسرعوا بقضائھا قبل الموت (125)
یعنی، طاعت میں جلدی کرنااور اسقاط کفارہ میں سبقت کرنا افضل ہے کیونکہ عبادات کی تاخیر میں افتیں ہیں اسی لئے کہا گیا کہ نماز کو اس کے فوت ہو جانے سے قبل ادا کرنے میں جلدی کرو اور اس کی قضاء میں جلدی کرو موت سے قبل۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاثنین، 20ذوالحجۃ 1433ھ، 5 نوفمبر 2012 م 817-F
حوالہ جات
118۔ لباب المناسک، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا وکیفیۃ اداتھا…الخ،، ص238
119۔ لباب المناسک، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا… الخ، ص238
120۔ ’’اول وقت امکان‘‘ سے مراد ہے ادائیگی پر قدرت کے زمانے کی ابتداء (المسلک المتقسط، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا، ص542)
121۔ اس لئے کہ جزاؤں اور کفارات کا امر جلدی پر محمول نہیں ہے (المسلک المتقسط، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا، ص542)
122۔ لباب المناسک، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا…الخ،ص238
123۔ لباب المناسک، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا….الخ، ص238
124۔ المسلک المتقسط، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا، ص542
125۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب : فی جزاء الجنایات و کفاراتھا، تحت قولہ : اعلم ان الکفارات الخ، ص542