دعوے دین میں صلح کے متعلق مسائل
مسئلہ۱: مدعی علیہ پر جو دین ہے یااس نے کوئی چیز غصب کی اگر صلح اسی جنس کی چیز پر ہوئی تو بعض حق کو لے لینا اور باقی کو چھوڑ دینا ہے اس کو معاوضہ قرار دینا درست نہیں ورنہ سود ہو جائے گا لہذا صلح کے جائز ہونے میں بدل صلح پر قبضہ کرنا ضروری نہیں مثلاً ہزا روپے حال یعنی غیر میعادی تھے سو روپے پر جو فوراً لئے جائیں گے صلح ہوئی یہ درست ہے اگرچہ مجلس صلح میں ان پر قبضہ نہ کیا ہو یا ہزار غیر میعادی تھے صلح ہوئی ہزار روپے پر جن کی کوئی میعاد مقرر ہوئی یا ہزار روپے کھرے تھے اور سو روپے کھوٹے پر صلح ہوئی پہلی صورت میں مقدار کم کر دی دوسری میں میعاد بڑھا دی یعنی فوراً لینے کا حق ساقط کر دیا تیسری صورت میں مقدار اور وصف دو چیزیں ساقط کردیں ۔ مدعی علیہ کے ذمہ روپے تھے اور اشرفی پر صلح ہوئی اور اس کے ادا کرنے کی میعاد مقرر ہوئی یہ صلح ناجائز ہے کہ غیر جنس پر صلح عقد معاوضہ ہے اور چاندی کی سونے سے بیع ہو تو مجلس میں قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ ہزار روپے میعادی تھے اور صلح ہوئی کہ پانچ سو فوراً ادا کر دے یہ صلح بھی ناجائز ہے کہ پانچ سو کے بدلے میں میعاد کوبیع کرنا ہے اور یہ ناجائز ہے یا ہزار روپے کھوٹے تھے پانچ سو کھرے پر صلح ہوئی یہ صلح بھی ناجائز ہے کہ وصف کو پانچ سو کے بدلے میں بیع کرنا ہے اور یہ جائز نہیں ۔ قاعدہ ٔ کلیہ یہ ہے کہ دائن کی طرف اگر احسان ہو تو اسقاط ہے اور صلح جائز ہے اور دونوں کی طرف سے ہو تو معاوضہ ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۲: ایک ہزار کا دعوی تھا اور مدعی علیہ انکاری ہے پھر سو روپے پر صلح ہوئی اگر مدعی نے کہا کہ سو روپے پر میں نے صلح کی اور باقی معاف کر دیئے تو قضائً و دیانۃً ہر طرح مدعی علیہ بقیہ سے بری ہو گیا اور اگر یہ کہا کہ سو روپے پر صلح کی اور یہ نہیں کہا کہ بقیہ میں نے معاف کئے تو مدعی علیہ قضائً بری ہو گیا دیانۃً بری نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳: مدیون سے کہا تمہارے ذمہ ہزار روپے ہیں کل پانچ سو ادا کر دو اس شرط پر کہ باقی پانچ سو سے تم بری اگر ادا کر دیئے تو بری ہو گیا ورنہ پورے ہزار اس کے ذمہ ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وقت کا ذکر نہ کرے اس صورت میں پانچ سو بالکل معاف ہو گئے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آدھے دین پر مصالحت ہوئی کہ کل ادا کر دے گا اور باقی سے بری ہو جائے گا اور شرط یہ ہے کہ کل اگر ادا نہ کئے تو پورا دین بدستور اس کے ذمہ ہو گا اس صورت میں جیسا کہا ہے وہی ہے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ پانچ سو میں نے تجھے بری کر دیا اس بات پر کہ پانچ
سو کل ادا کر دے تو پانچ سو معاف ہو گئے کل کے روز ادا کر دے یا نہ کرے۔ پانچویں صورت یہ ہے کہ یوں کہا کہ اگر تو پانچ سو کل کے دن ادا کر دے گا تو باقی سے بری ہو جائے گا اس صورت میں حکم یہ کہ ادا کرنے یا نہ کرے بری نہ ہوگا۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ۴: مدیون پر ایک سو روپے اور دس اشرفیاں باقی ہیں ایک سو دس روپے پر صلح ہوئی اگر ادا کے لئے میعاد ہے صلح جائز ہے اور اگر اسی وقت دے دیئے صلح جائز ہے اور اگر دس روپے فوراً دیئے اور سو باقی رہے جب بھی جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵: ایک شخص پر ہزار روپے باقی ہیں اور یوں صلح ہوئی کہ مہینے کے اندر دو گے تو سو روپے اور ایک ماہ کے اندر نہ دیئے تو دو سو روپے دینے ہوں گے یہ صلح صحیح نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۶: ایک نے دوسرے پر کچھ روپیہ کا دعوی کیا مدعی علیہ نے انکار کر دیا پھر دونوں میں مصالحت ہو گئی کہ اتنے روپے اس وقت دیئے جائیں گے اور اتنے آئندہ فلاں تاریخ پر یہ صلح جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۷: سو روپے باقی اور دس من گیہوں پر صلح ہوئی ان کے دینے کی میعاد مقرر ہو یا نہ ہو اگر اس مجلس میں قبضہ نہ کیا صلح باطل ہے اور اگر گیہوں معین ہو گئے یعنی یوں صلح ہوئی کہ یہ گیہوں دوں گا قبضہ کرے یا نہ کرے صلح جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۸: پانچ من گیہوں مدیون کے ذمہ باقی ہیں اور دس روپے پر صلح ہوئی اگر روپے پر اس وقت قبضہ ہو گیا صلح جائز ہے اور بغیر قبضہ دونوں جدا ہو گئے صلح ناجائز اور اگر پانچ روپے پر قبضہ کر لیا اور پانچ پر نہیں تو آدھے گیہوں کے مقابل صلح صحیح ہے اور نصف کے مقابل باطل۔ (عالمگیری)
مسئلہ۹: دس من گیہوں اس کے ذمہ ہیں پانچ من گیہوں اور پانچ من جو پر صلح ہوئی اور جو کے لئے میعاد مقرر کی یہ صلح ناجائز ہے اور جو کو معین کر دیا ہو صلح جائز ہے اگرچہ گیہوں معین نہ ہوں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۱۰: روپے کا دعوی تھا اور صلح یوں ہوئی کہ مدیون اس مکان میں ایک سال رہ کر دائن کو دیدے یا یہ غلام ایک سال تک مدیون کی خدمت کرے پھر مدیون اسے دائن کو دیدے یہ صلح ناجائز ہے کہ یہ صلح بیع کے حکم میں ہے اور بیع میں ایسی شرط بیع کو فاسد کر دیتی ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۱۱: مدیون نے روپے ادا کر دیئے مگر دائن انکار کرتا ہے پھر سو روپے پر صلح ہوئی اگر دائن کے علم میں وصول ہونا ہے تو لینا جائز نہیں ۔ (خانیہ)
مسئلہ۱۲: دین کا کوئی گواہ نہیں ہے دائن یہ چاہتا ہے کہ مدیون سے دین کا اقرار کرا لے تاکہ وقت پر کام آئے مدیون نے کہا میں اقرار نہیں کروں گا جب تک تو دین کی میعاد نہ کر دے یا اس میں سے اتنا کم نہ کر دے دائن نے ایسا ہی کر دیا یہ میعاد کا مقرر کرنا یا معاف کر دینا صحیح ہے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ اکراہ کے ساتھ ایسا ہوا ہے یہ اکراہ نہیں
ہے اور اگر مدیون نے وہ بات علانیہ کہہ دی کہ جب تک ایسا نہ کرو گے میں اقرار نہ کروں گا تو اس سے کل مطالبہ فوراً وصول کیا جائے گا کیونکہ دین کا اقرار ہو چکا۔ (درر)
مسئلہ۱۳: دین مشترک کا حکم یہ ہے کہ ایک شریک نے مدیون سے جو کچھ وصول کیا دوسرا بھی اس میں شریک ہے مثلاً سو میں سے پچاس روپے ایک شریک نے وصول کئے تو دوسرے شریک سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ اپنے حصہ کے میں نے پچاس وصول کرلئے اپنے حصہ کے تم وصول کر لو بلکہ دوسرا ان پچاس میں سے پچیس لے سکتا ہے اس کو انکار کا حق نہیں ہے ہاں اگر دوسرا خود مدیون ہی سے وصول کرنا چاہتا ہے اس وجہ سے شریک سے مطالبہ نہیں کرتا تو اس کی خوشی مگر چاہے تو شریک سے مطالبہ کر سکتا ہے یعنی اگر فرض کرو مدیون دیوالیہ ہو گیا یا کوئی اور صورت ہو گئی تو یہ اپنے شریک سے وصول شدہ میں سے آدھا لے سکتا ہے۔ (ہدایہ وغیرہا)
مسئلہ۱۴: دین مشترک کی یہ صورت ہے کہ ایک ہی سبب سے دونوں کا دین ثابت ہو مثلاً دونوں نے ایک عقد میں بیع کی اس کا ثمن دین مشترک ہے اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ ایک چیز دونوں کی شرکت میں تھی اور ایک ہی عقد میں اس کو بیع کیا یہ ثمن دین مشترک ہے دوسری یہ کہ دونوں کی دو چیزیں تھیں مگر ایک ہی عقد میں دونوں کو بغیر تفصیل ثمن بیع کیا یہ کہہ دیا کہ ان دونوں کو اتنے میں بیچا یہ نہیں کہ اتنے میں اس کو اتنے میں اس کو۔ اور اگر دو عقد میں چیز بیع کی گئی تو ثمن کو دین مشترک نہیں کہہ سکتے مثلاً دونوں نے اپنی اپنی چیزیں اس مشتری کے ہاتھ بیع کیں یا چیز دونوں میں مشترک ہے مگر اس نے کہا میں نے اپنا حصہ تمہارے ہاتھ پانچ سو میں بیچا دوسرے نے کہا میں نے اپنا حصہ پانچ سو میں بیچا تو یہ دین مشترک نہیں اگرچہ شے مشترک کا ثمن ہے۔ یونہی تفصیل ثمن کر دینے میں بھی ثمن دین مشترک نہیں مثلاً دو چیزیں ایک عقد میں دس روپے میں بیچیں اور یہ کہا کہ اس کا ثمن چار روپے ہے اور اس کا چھ روپے یہ دین مشترک نہیں دوسری صورت دین مشترک کی یہ ہے کہ مورث کا کسی پر دین تھا اس کے مرنے کے بعد یہ دونوں وارث ہوئے وہ دین ان میں مشترک ہے تیسری صورت یہ کہ ایک مشترک چیز کو کسی نے ہلاک کر دیا جس کی قیمت کا ضمان اس پر واجب ہوا یہ ضمان دین مشترک ہے۔ (بحر ، درمختار)
مسئلہ۱۵: دین مشترک میں ایک شریک نے مدیون سے اپنے حصہ میں خلاف جنس پر مصالحت کر لی مثلاً اپنے حصہ کے بدلے میں اس نے ایک کپڑا مدیون سے لے لیا تو دوسرے شریک کو اختیار ہے کہ اپنا حصہ مدیون سے وصول کرے یا اسی کپڑے میں سے آدھا لے اگر کپڑے میں سے نصف لینا چاہتا ہے تو وصول کنندہ دینے سے انکار نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ اصل دین کی چہارم کا ضامن ہو جائے تو کپڑے میں نصف کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ (ہدایہ)
مسئلہ۱۶: مدیون سے مصالحت نہیں کی ہے بلکہ اپنے نصف دین کے بدلے میں اس سے کوئی چیز خریدی تو یہ شریک دوسرے کے لئے چہارم دین کا ضامن ہو گیا کیونکہ بیع کے ذریعہ سے ثمن و دین میں مقاصہ ہو گیا شریک اس
میں سے نصف یعنی چہارم دین وصول کر سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدیون سے اپنے حصہ کو وصول کرے۔ (درمختار)
مسئلہ۱۷: ایک شریک نے مدیون کو اپنا حصہ معاف کر دیا دوسرا شریک اس معاف کرنے والے سے مطالبہ نہیں کر سکتا کیونکہ وصول نہیں کیا ہے بلکہ چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح ایک کے ذمہ مدیون کا پہلے سے دین تھا پھر مدیون پر دین مشترک ہوا ان دونوں نے مقاصہ (ادلا بدلا) کر لیا دوسرا شریک اس سے کچھ مطالبہ نہیں کر سکتا اور اگر ایک شریک نے اپنے حصہ میں سے کچھ معاف کر دیا یا دین سابق سے مقاصہ کیا تو باقی دین سہام پر تقسیم کیا جائے گا مثلاً بیس روپے تھے ایک نے پانچ روپے معاف کر دیئے تو جو کچھ وصول ہو گا اس میں ایک تہائی ایک کی اور دو تہائیاں اس کی جس نے معاف نہیں کیا ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۱۸: ان دونوں شریکوں میں سے ایک پر مدیون کا اب جدید دین ہوا اس دین سے مقاصہ دین وصول کرنے کے حکم میں ہے دوسرا اس کا نصف اس سے وصول کرے گا مثلاً مدیون نے کوئی چیز دائن کے ہاتھ بیع کی اس ثمن اور دین میں مقاصہ ہوا اور اگر عورت مدیون تھی ایک شریک نے اس سے نکاح کیا اور مطلق روپے کو دین مہر کیا یہ نہیں کہ دین کے حصہ کو مہر قرار دیا ہو پھر دین مہر اور اس دین میں مقاصہ ہوا اس کا نصف دوسرا شریک اس نکاح کرنے والے سے لے سکتا ہے اور اگر نکاح اس حصہ ٔ دین پر ہوا تو شریک کو اس سے لینے کا اختیار نہیں ۔ (بحر ، درمختار)
مسئلہ۱۹: شریک نے مدیون کی کوئی چیز غصب کر لی یا اس کی کوئی چیز کرایہ پر لی اور اجرت میں دین کا حصہ قرار پایا یہ دین پر قبضہ ہے۔ مدیون کی کوئی چیز تلف کر دی یا قصداً جنایت کر کے اپنے حصہ دین پر مصالحت کی یہ قبضہ نہیں ہے یعنی اس صورت میں دوسرا شریک اس سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔ (بحر)
مسئلہ۲۰: ایک نے میعاد مقرر کی اگر یہ دین ان کے عقد کے ذریعہ سے نہ ہو مثلاً دین مؤ جل کے یہ دونوں وارث ہوئے تو اس کا میعاد مقرر کرنا باطل ہے مثلاً مورث کے ہزار روپے باقی تھے ایک وارث نے یوں صلح کی کہ ایک سو اس وقت دے دو باقی چار سو کے لئے سال بھر کی میعاد ہے یہ میعاد مقرر کرنا باطل ہے یعنی ان سو روپے میں سے دوسرا وارث پچاس لے سکتا ہے اور اگر دوسرے وارث نے سال کے اندر مدیون سے کچھ وصول کیا تو اس میں سے نصف پہلا وارث لے سکتا ہے یہ دوسرا اس سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم نے ایک سال کی میعاد دی ہے تمہارا حق نہیں اور اگر ان میں سے ایک نے مدیون سے عقد مداینہ کیا اس وجہ سے مدت واجب ہوئی تو اگر یہ شرکت شرکت عنان ہے اور جس نے عقد کیا ہے اسی نے اجل مقرر کی تو جمیع دین میں اجل صحیح ہے اور اگر اس نے اجل مقرر کی جس نے عقد نہیں کیا ہے تو خاص اس کے حصہ میں بھی اجل صحیح نہیں اور اگر ان دونوں میں شرکت مفاوضہ ہے تو جو کوئی اجل مقرر کر دے صحیح ہے۔ (بحر ، خانیہ)
مسئلہ۲۱: دو شخصوں نے بطور شرکت عقد سلم کیا ہے ان میں سے ایک نے اپنے حصہ میں مسلم الیہ سے صلح کر لی کہ راس المال جو دیا گیا ہے اس میں سے جومیرا حصہ ہے اس پر صلح کرتا ہوں یہ صلح دوسرے شریک کی اجازت پر موقوف ہے اس نے جائز کر دی جائز ہو گئی جومال مل چکا ہے یعنی حصہ ٔ مصالح وہ دونوں میں منقسم ہو جائے گا اور جو سلم باقی ہے وہ دونوں میں مشترک ہے یعنی جو کچھ مسلم فیہ باقی ہے مثلاً وہ غلہ جو نصف سلم کا باقی ہے یہ دونوں میں مشترک ہے اور اگر اس کے شریک نے رد کر دیا تو صلح باطل ہو جائے گی ہاں اگر ان دونوں میں شرکت مفاوضہ ہو تو یہ صلح مطلقاً جائز ہے۔ (درر ، بحر)
مسئلہ۲۲: دو شخصوں کے دو قسم کے مال ایک شخص پرباقی ہیں مثلاً ایک کے روپے ہیں دوسرے کی اشرفیاں ہیں دونوں نے ایک ساتھ سو روپے کی صلح کی یہ جائز ہے ان سو روپوں کو اشرفیوں کی قیمت اور روپوں پر تقسیم کیا جائے یعنی سو میں سے جتنا روپوں کے مقابل ہو وہ روپے والا لے اور جتنا اشرفیوں کی قیمت کے مقابل ہو وہ اشرفیوں والا لے مگر اشرفیوں والے کو حصہ میں جتنے روپے آئیں ان میں بیع صرف قرار پائے گی یعنی ان پر اسی مجلس میں قبضہ شرط ہے اور روپے والے کے حصہ میں جتنے روپے آئیں اتنے کی وصولی ہے باقی جو رہ گئے ان کو ساقط کر دیا۔ (عالمگیری)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔