داخلی حرم محترم ومکہ مکرمہ و مسجد الحرام
اللہ عزوجل فرماتا ہے :۔
واذ قال ابراھیم رب اجعل ھذ ا بلد ًا ا منًا و ارزق اھلہ‘ من الثمرات من امن منھم باللہ والیوم الاخر قال ومن کفر فامتعہ‘ قلیلًا ثم اضطرہٗ الی عذاب النار ط وبئس المصیر o واذ یر فع ابراھیم القواعد من البیت و اسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم oربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃً مسلمۃً لک ط وارنا منا سکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیمo
(اور جب ابراہیم نے کہا اے پروردگار اس شہر کو امن والا کردے اور اس کے اہل میں سے جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے انھیں پھلوں سے روزی دے فرمایا اور جس نے کفر کیا اسے بھی کچھ برتنے کو دوں گا پھر اسے آگ کے عذاب کی طرف مضطر کروں گا اور برا ٹھکانہ ہے وہ اور جب ابراہیم اور اسمعیل خانۂ کعبہ کی بنیادیں بلند کرتے ہوئے کہتے تھے اے پروردگار تو ہم سے (اس کام کو )قبول فرما بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا اور ہمیں تو اپنا فرما نبردار بنا اور ہماری ذریت سے ایک گروہ کو تو فرمانبردار بنا اور ہمارے عبادت کے طریقے ہم کو دکھا اور ہم پر رجوع فرما بیشک تو ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا رحم کرنے والا ہے )
اور فرماتاہے:۔
اولم نمکن لھم حرمًا امنًا یجبی الیہ ثمرات کل شیئٍ رزقًا من لدنا ولکن اکثر ھم لا یعلمون
( کیا ہم نے ان کو امن والے حرم میں قدرت نہ دی کہ وہاں ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں جو ہماری جانب سے رزق ہیں مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے)۔ اور فرماتا ہے ۔
انما امرت ان اعبد رب ھذہ البلدۃ الذی حرمھا ولہٗ کل شیئٍ و امر ت ان اکون من المسلمینo
(مجھے تو یہی حکم ہوا کہ اس شہر کے پروردگار کی عبادت کروں جس نے اسے حرم کیا اوراسی کے لئے ہر شے ہے اور مجھے حکم ہوا کہ میں مسلمانوں میں رہوں )
حدیث ۱،۲: صحیح بخاری و صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن یہ ارشاد فرمایا اس شہر کو اللہ نے حرم (بزرگ) کردیا ہے جس دن آسمان و زمین کوپیدا کیا تو وہ روز قیامت تک کے لئے اللہ کے کئے سے حرم ہے‘ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس میں قتال حلال نہ ہوا اور میرے لیئے صرف تھوڑے سے وقت میں حلال ہوا ، اب پھر وہ قیامت تک کے لئے حرام ہے نہ یہاں کا کاٹنے والا درخت کاٹا جائے نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ یہاں کا پڑا ہو مال اٹھایا جائے مگر جو اعلان کرنا چاہتا ہو( اسے اٹھانا جائز ہے) اور نہ یہاں کی تر گھاس کاٹی جائے ۔حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مگر اذخر (ایک قسم کی گھاس ہے )اس کے کاٹنے کی اجازت دیجئے کہ یہ یہاں لوہاروں اور گھر کے بنانے کے کام میں آتی ہے۔ حضور ﷺ نے اس کی اجازت دیدی ۔ اسی کی مثل ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی(بخاری ص۲۱۶ج۱‘ مسلم ص ۴۳۷،۴۳۸ج۱‘ ابن ماجہ ص ۲۲۵)
حدیث ۳: ابن ماجہ عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اس ضائع کردیں گے ہلاک ہو جائیں گے (ابن ماجہص ۲۲۵)
حدیث ۴ : طبرانی اوسط میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کے لئے زبان اور ہونٹ ہیں ‘اس نے شکایت کی کہ اے رب میرے پاس آنے والے اور میری زیارت کرنے والے کم ہیں ۔ اللہ عزوجل نے وحی کی کہ میں خشوع کرنے والے سجدہ کرنے والے آدمیوں کو پیدا کروں گا جو تیری طرف ایسے مائل ہوں گے جیسے کبوتری اپنے انڈے کی طرف مائل ہوتی ہے۔
حدیث ۵ : صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تشریف لاتے تو ذی طوی میں رات گزارتے ، جب صبح ہو تی غسل کرتے اور نماز پڑھتے اوردن میں داخل مکہ ہو تے اور جب مکہ سے تشریف لے جاتے تو صبح تک ذی طوی میں قیام فرماتے(بخاری ص ۲۱۴،۲۳۸ج۱‘مسلم ص۴۱۰ج۱)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔