سوال:
(1) ہمارا کاروبار آئرن اینڈ اسٹیل کا ہے ، ہم پاکستان اسٹیل مل کے ڈیلر ہیں اور بیرون ممالک سے آئرن امپورٹ کرتے ہیں۔ ملکی قانون کے مطابق ہم جو مال منگواتے ہیں یا پاکستان اسٹیل مل دیتی ہے ، اس کو ہم ایسا شخص جو سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہو، کو فروخت کر تے ہیں ۔مگر چونکہ پنجاب اور کراچی ریٹیلر مارکیٹ میں چھوٹے دکاندار ہونے کی وجہ سے تمام لوگ رجسٹر ڈ نہیں ہوتے ، جس کی وجہ سے تمام کاروباری لوگ جو آئرن اسٹیل بزنس سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ ان غیر رجسٹر ڈ لوگوں کو مال فروخت کر تے ہیں اور اپنی سیلز ٹیکس انوائس کسی دوسرے رجسٹرڈ شخص کو بیچتے ہیں ۔ کیونکہ انوائس کے ساتھ مال فروخت کرنے پر قیمت زیادہ ملتی ہے اور بغیر انوائس کے کم قیمت میں دینا پڑتا ہے ،جس کی وجہ سے ہم مال چھوٹے دکاندار کو دیتے ہیں اور سیلز ٹیکس انوائس کسی اور فرم کو دیتے ہیں اور کچھ مال ہم ڈائرکٹ مل والوں کو دیتے ہیں ، وہ انوائس کے ساتھ لیتے ہیں ، مارکیٹ میں تمام امپورٹر اور ڈیلرز اس طرح کرتے ہیں ۔ ہمارا یہ انوائس کسی دوسری فرم کو کاٹنا گناہ تو نہیں؟
(2) دوسری صورت یہ کہ بعض کمپنیاں ہم سے انوائس مانگتی ہیں ،اگر ہمارے پاس مال یااس کی انوائس نہیں ہے، تو ہم مارکیٹ سے کسی دوسرے امپورٹر یا ڈیلر سے خرید کر اس کمپنی کو فراہم کرتے ہیں۔ 200 روپے یا 300 روپے فی ٹن کی انوائس میں اپنا نفع رکھ کر انوائس آگے فروخت کر دیتے ہیں ،کیا یہ شرعاً جائز ہے؟
جواب:
Sales Invoice سے مراد ایسی دستاویز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ خریدار نے یہ سامان بائع سے خریدا ہے ، اس سامان کی مقدار کوالٹی اور قیمت بھی اس انوائس میں درج ہوتی ہے ممکن ہے کہ انوائس پر خریدار کا نام نہ ہو تو اس کا حامل (Bearer) اس کا مالک متصور ہو گا۔
آپ نے جو صورت سوال میں بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائع اور خریدار Sales Invoice کے لین دین میں اس مال کا سودا نہیں کرتے ۔ مال کا قبضہ بائع سے خریدار کو منتقل ہوتا ہے اور نہ ہی مال کی قیمت بائع مشتری کو دیتا ہے ، بلکہ محض اس دستاویز (Sales Invoice ) کی بیع و شراء ہے اور اس پر کچھ مالی منفعت حاصل ہوتی ہے ۔ کسی شخص کے پاس پہلے سے اس طرح کا مال موجود ہوتا ہے یاوہ مارکیٹ سے سستا خرید لیتا ہے اور پھر اس Sales Invoice کے ذریعے اس مال کو زیادہ قیمت پر فروخت کر تا ہے ۔ بہر صورت یہ غرر اور دھوکا ہے اور ایسی دستاویز کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے ، بائع و مشتری دونوں اس دھوکا دہی میں شریک ہوتے ہیں ۔ اس میں غرر یہ ہے کہ آخری مرحلے میں جو شخص ا پنا مال اس دستاویز کے ذریعے فروخت کرتا ہے ، وہ خریدار پارٹی کو یہ باور کرا تا ہے کہ یہ مال اس نے حقیقت میں اس قیمت پر دستاویز جاری کر نے والی پارٹی سے خریدا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک صورت آپ نے یہ بیان کی ہے کہ اس کی با قاعدہ تجارت ہوتی ہے کہ ایک شخص دوسرے سے یہ دستاویز خرید لیتا ہے اور پھر کچھ نفع رکھ کر تیرے شخص یا پارٹی کو بیچ دیتا ہے تو یہ تمام فریق اس دھوکا دہی میں شر یک متصور ہوں گے اور ناجائز ذریعہ سے نفع حاصل کریں گے ، یہ بیع شرعا ناجائز ہے ۔
(تفہیم المسائل، جلد7،صفحہ 309،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
Leave a Reply