خرید و فروخت میں دکیل بننے بنانے کے متعلق مسائل
مسئلہ ۱ : مؤکل نے یہ کہا کہ جو چیز مناسب سمجھو میرے لئے خرید لو یہ خریداری کی وکالت عامہ ہے جو کچھ بھی خریدے گا مؤکل انکار نہیں کر سکتا۔ یونہی اگر یہ کہہ دیا کہ میرے لئے جو کپڑا چاہو خرید لو یہ کپڑے کے متعلق وکالت عامہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی خاص چیز کی خریداری کے لئے وکیل کیا ہو مثلاً یہ گائے یہ بکری یہ گھوڑا خرید دو۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ وہی معین چیز جس کی خریداری کا وکیل ہے خرید سکتا ہے اس کے سوا دوسری چیز نہیں خرید سکتا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ نہ تعمیم ہے نہ تخصیص مثلاً یہ کہہ دیا کہ میرے لئے ایک گائے خرید دو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر جہالت تھوڑی سی ہو توکیل درست ہے اور جہالت فاحشہ ہو توکیل باطل۔ (درمختار ص۴۰۳ وغیرہ)
مسئلہ ۲ : جب خریدنے کا وکیل کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس چیز کی جنس و صفت یا جنس و ثمن بیان کر دیا جائے تاکہ جہالت میں کمی پیدا ہو جائے۔ اگر ایسا لفظ ذکر کیا جس کے نیچے کئی جنسیں شامل ہیں مثلاً یہ کہہ دیا چوپایہ خرید لائو یہ توکیل صحیح نہیں اگرچہ ثمن بیان کر دیا گیا ہو کیوں کہ اس ثمن میں مختلف جنسوں کی اشیاء خرید سکتے ہیں اور اگر وہ لفظ ایسا ہے جس کے نیچے کئی نوعیں ہیں تو نوع بیان کرے یا ثمن بیان کرے اور نوع یا ثمن بیان کرنے کے بعد وصف یعنی اعلی اوسط ادنی بیان کرنا ضرورنہیں ۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳ : یہ کہا کہ میرے لئے گھوڑا خرید لائو یا تزیب کا تھان خرید لائو یہ توکیل صحیح ہے اگر ثمن نہ ذکر کیا ہو کہ اس میں بہت کم جہالت ہے اور وکیل اس صورت میں ایسا گھوڑا یا ایسا کپڑا خریدے گا جو مؤکل کے حال سے مناسب ہو۔ غلام یا مکان خریدنے کو کہا تو ثمن ذکر کرنا ضروری ہے یعنی اس قیمت کا خریدنا یا نوع بیان کر دے مثلاً حبشی غلام ورنہ توکیل صحیح نہیں یہ کہا کہ کپڑا خرید لائو یہ توکیل صحیح نہیں اگرچہ ثمن بھی بتا دیا ہو کہ یہ لفظ بہت جنسوں کو شامل ہے۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴ : طعام خریدنے کے لئے بھیجا مقدار بیان کر دی یا ثمن دے دیا توعرف کا لحاظ کرتے ہوئے تیار کھانا لیا جائے کہ گوشت روٹی وغیرہ۔ (درمختار)
مسئلہ ۵ : یہ کہا کہ موتی کا ایک دانہ خرید لائو یا قوت سرخ کا نگینہ خرید لائو اور ثمن ذکر کیا توکیل صحیح ہے ورنہ نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶ : گیہوں وغیرہ غلہ خریدنے کو کہا نہ مقدار ذکر کی کہ اتنے سیر یا اتنے من اور نہ ثمن ذکر کیا کہ اتنے کا یہ توکیل صحیح نہیں اور اگر بیان کر دیا ہے تو صحیح ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۷: گائوں کے کسی آدمی نے یہ کہا میرے لئے فلاں کپڑا خرید لو اور ثمن نہیں بتایا وکیل وہ کپڑا خریدے جو گائوں والے استعمال کرتے ہیں اور ایسا کپڑا خریدنا جو گائوں والوں کے استعمال میں نہیں آتا ہو ناجائز ہے یعنی مؤکل اس کے لینے سے انکار کر سکتا ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۸ : دلال کو روپے دیئے کہ اس کی میرے لئے چیز خرید دو اور چیز کا نام نہیں لیا اگر وہ کسی خاص چیز کی دلالی کرتا ہو تو وہی چیز مراد ہے ورنہ توکیل فاسد۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۹ : توکیل میں مؤکل نے کوئی قید ذکر کی ہے اس کا لحاظ ضروری ہے اس کے خلاف کرے گا تو خریداری کا تعلق مؤکل سے نہیں ہوگا ہاں اگر مؤکل کے خلاف کیا اور اس سے بہتر کیا جس کو مؤکل نے بتایا تھا تو یہ خریداری مؤکل پر نافذ ہو گی وکیل سے کہا خدمت کے لئے یا روٹی پکانے کے لئے لونڈی خرید لائو یا فلاں کام کے لئے غلام خرید لائو کنیز یا غلام ایسا خریدا جس کی آنکھیں نہیں یا ہاتھ پائوں نہیں یہ خریداری مؤکل پر نافذ نہیں ہو گی۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۰ : مؤکل نے جو جنس متعین کی تھی وکیل نے دوسرے جنس سے بیع کی مؤکل پر نافذ نہیں اگرہ وہ چیز اس کی بہ نسبت زیادہ کام کی ہے جس کو مؤکل نے کہا ہے مثلاً وکیل سے کہا تھا میرا غلام ہزار روپے کو بیچنا اس نے ہزار اشرفی کو بیع کر دیا اور اگر وصف یا مقدار کے لحاظ سے مخالفت ہے تو دو صورتیں ہیں اس مخالفت میں مؤکل کا نفع ہے یا نقصان اگر نفع ہے مؤکل پر نافذ ہے مثلاً اس نے ایک ہزار روپے میں بیچنے کو کہا تھا اس نے ڈیڑھ ہزار میں بیع کی اور نقصان ہے تو نافذ نہیں مثلاً نو سو میں بیع کی۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۱ : وکیل نے کوئی چیز خریدی اور اس میں عیب ظاہر ہوا جب تک وہ چیز وکیل کے پاس ہو اس کے واپس کرنے کا حق وکیل کو ہے اور اگر وکیل مر گیا تو اس کے وصی یا وارث کا یہ حق ہے اور یہ نہ ہوں تو یہ حق مؤکل کے لئے ہے اور اگر وکیل نے وہ چیز مؤکل کو دیدی تو اب بغیر اجازت مؤکل وکیل کو پھیرنے کا حق نہیں ہے۔ یہی حکم وکیل بالبیع کا ہے کہ جب تک مبیع کی تسلیم نہیں کی واپسی کا حق اس کوہے۔ وکیل نے عیب پر مطلع ہو کر بیع سے رضا مندی ظاہر کر دی تو اب وہ بیع وکیل پر لازم ہو گئی واپسی کا حق جاتا رہا اورمؤکل کو اختیار ہے چاہے اس بیع کو قبول کر لے اور انکار کر دے گا تو وکیل کی وہ چیز ہو جائے گی مؤکل سے کوئی تعلق نہیں ۔ (بحر، درمختار)
مسئلہ ۱۲ : وکیل بالبیع نے چیز بیع کی مشتری کو مبیع کے عیب پر اطلاع ہوئی اگر مشتری نے ثمن وکیل کو دیا ہے تو وکیل سے واپس لے اور مؤکل کو دیا ہے تو مؤکل سے واپس لے اور مشتری نے وکیل کو دیا وکیل نے مؤکل کو دے دیا اس صورت میں بھی وکیل سے واپس لے گا۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۱۳ : مشتری نے مبیع میں عیب پایا مؤکل اس عیب کا اقرارکرتا ہے مگر وکیل منکر ہے مبیع واپس نہیں ہو سکتی کیونکہ عقد کے حقوق وکیل سے متعلق ہیں مؤکل اجنبی ہے اس کا اقرار کوئی چیز نہیں اورا گر وکیل اقرار کرتا ہے مؤکل انکار کرتا ہے وکیل پر واپسی ہو جائے گی پھر اگر وہ عیب اس قسم کاہے کہ اتنے دنوں میں کہ مؤکل کے یہاں سے چیز آئی پیدا نہیں ہو سکتا جب تو چیز مؤکل پر واپس ہو جائے گی اور اگروہ عیب ایسا ہے کہ اتنے دنوں میں پیدا ہو سکتا ہے تو وکیل کو گواہوں سے ثابت کرناہو گا کہ یہ عیب مؤکل کے یہاں تھا اور اگر وکیل کے پاس گواہ نہ ہوں تو مؤکل پر قسم دے گا اگر قسم سے انکار کرے چیز واپس ہو گی اور قسم کھالے تو وکیل پر لازم ہو گی۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۱۴ : وکیل نے بیع فاسد کے ساتھ چیز خریدی یا بیچی اگرچہ مؤکل ثمن دے چکا ہے یا مبیع کی تسلیم کر دی ہے اور ثمن وصول کر کے مؤکل کو دے چکاہے بہرحال وکیل کو بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے اور ثمن مؤکل سے لیکر بائع کو واپس کر دے کہ یہ فسخ بیع حق مؤکل کی وجہ سے نہیں ہے کہ اس سے اجازت لے بلکہ حق شرع کی وجہ سے ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۱۵ : وکیل کو یہ اختیار ہے کہ جب تک مؤکل سے ـثمن نہ وصول کر لے چیز اپنے قبضہ میں رکھے مؤکل کو نہ دے خواہ وکیل نے ثمن اپنے پاس سے بائع کو دے دیا ہو یا نہ دیاہو یہ اس صورت میں ہے کہ ثمن مؤجل نہ ہو اور اگر ثمن مؤجل ہو یعنی ادا کی کوئی میعاد مقرر ہو تو مؤکل کے حق میں بھی مؤجل ہو گیا یعنی جب تک میعاد پوری نہ ہو مؤکل سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اگر بیع میں ثمن مؤجل نہ تھا بیع کے بعد بائع نے ثمن کے لئے کوئی میعاد مقرر کر دی تومؤکل پر مؤجل نہ ہو گا یعنی وکیل اسی وقت اس سے مطالبہ کر سکتا ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۱۶ : وکیل نے ہزار روپے میں چیز خریدی بائع نے وہ ہزار وکیل کو ہبہ کر دیئے مؤکل سے پورے ہزار کا مطالبہ کرے گا اور اگر بائع نے پانچ سو ہبہ کر دیئے تو یہ پانچ سومؤکل سے ساقط ہو گئے بقیہ پانچ سو کا مطالبہ ہو گا اور اگر پہلے پانچ سو ہبہ کر دیئے پھر پانچ سو ہبہ کئے پہلے پانچ سو مؤکل سے ساقط ہو گئے بعد والے پانچ سو کا وکیل مطالبہ کر سکتا ہے۔ (بحر)
مسئلہ ۱۷ : وکیل نے ثمن وصول کرنے کے لئے مبیع کو روک لیا اس کے بعدمبیع ہلاک ہو گئی تو وکیل کا نقصان ہوا مؤکل سے کچھ نہیں لے سکتا اور رد کی نہیں تھی اور ہلاک ہو گئی تومؤکل کا نقصان ہوا مؤکل کوثمن دینا ہو گا۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۸ : بیع صرف و سلم میں مجلس عقد قبضہ ضروری ہے بدون قبضہ جدا ہوجانا عقد کو باطل کر دیتا ہے اس سے مراد وکیل کی جدائی ہے مؤکل کے جدا ہونے کا اعتبارنہیں فرض کرومؤکل بھی وہاں موجود تھا عقد کے بعد قبضہ سے پہلے مؤکل چلا گیا عقد باطل نہ ہوا اور وکیل چلا گیا باطل ہو گیا اگرچہ مؤکل موجود ہو۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۹ : وکیل بالشرا کومؤکل نے روپے دے دیئے تھے اس نے چیز خریدی اور دام نہیں دیئے وہ چیز مؤکل کو دے دی اور مؤکل کے روپے خرچ کر ڈالے اور بائع کو روپے اپنے پاس سے دے دیئے یہ خریداری مؤکل ہی کے حق میں ہو گی اور اگردوسرے روپے سے چیز خریدی مگر ادا کئے مؤکل کے روپے تو خریداری وکیل کے حق میں ہو گی مؤکل کے لئے ضمان دینا ہو گا۔ (بحر)
مسئلہ ۲۰ : وکیل بالشراء نے مؤکل سے ثمن نہیں لیا ہے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ مؤکل سے ملے گا تب دوں گا اسے اپنے پاس دینا ہو گا اور وکیل بالبیع نے چیز بیچ ڈالی اور ابھی دام نہیں ملے ہیں تو مؤکل سے کہہ سکتا ہے کہ مشتری دے گا تو دوں گا اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے پاس سے دیدے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۲۱ : وکیل بالبیع نے مؤکل سے کہا کہ میں نے تمہارا کپڑا فلاں کے ہاتھ بیچ ڈالا میں اس کی طرف سے تمہیں اپنے پاس سے دام دیئے دیتا ہوں تو متبرع ہے مشتری سے نہیں لے سکتا اور اگر یہ کہا کہ میں تمہیں اپنے پاس سے دام دیئے دیتا ہوں مشتری کے ذمہ جو دام ہیں وہ میں لے لوں گا اس طرح دینا جائز نہیں جو کچھ مؤکل کو دی اس سے واپس لے۔ (بحر)
مسئلہ ۲۲ : آڑھتی کے پاس لوگ اپنے مال رکھ دیتے ہیں اور بیچنے کو کہہ دیتے ہیں اس نے چیز بیع کی اور اپنے پاس سے دام دے دیئے کہ مشتری سے ملیں گے تو میں لے لوں گا مشتری مفلس ہو گیا اس سے ملنے کی امید نہیں تو جو کچھ آڑھتی نے مال والوں کو دیا ہے ان سے واپس لے سکتا ہے۔ (بحر)
مسئلہ ۲۳ : مؤکل نے وکیل کو ہزار روپے چیز خریدنے کے لئے دیئے اس نے چیز خریدی مگر ابھی بائع کو ثمن ادا نہیں کیا اور وہ روپے ضائع ہو گئے تو مؤکل کے ضائع ہوئے یعنی اس کو دوبارہ دینا ہو گا اور اگرمؤکل نے پہلے روپے نہیں دیئے ہیں وکیل کے خریدنے کے بعد دیئے اور بائع کو ابھی نہیں دیئے روپے ضائع ہو گئے تو وکیل کے ہلاک ہوئے اور اگر پہلے دے دیئے تھے اور وکیل نے بائع کو نہیں دیئے اور ہلاک ہو گئے تو وکیل مؤکل سے دوبارہ لے گا اور اس مرتبہ بھی ہلاک ہو گئے تو اب مؤکل سے نہیں لے سکتا اپنے پاس سے دینا ہو گا۔ (بحر)
مسئلہ ۲۴ : غلام خریدنے کیلئے ہزار روپے کسی نے دیئے تھے روپے گھر میں رکھ کر بازار گیا اور غلام خرید لایا بائع کو روپیہ دینا چاہتا ہے دیکھتا ہے کہ روپے چوری ہو گئے اور غلام بھی اسی کے گھر مر گیا ایک طرف بائع آیا کہ روپیہ دو دوسری طرف مؤکل آتا ہے کہتا ہے غلام لائو اس کا حکم یہ ہے کہ مؤکل سے ہزار روپے لے کر بائع کو دے اور پہلے کے روپے اورغلام یہ ہلاک ہوئے مؤکل ان کا کوئی معاوضہ نہیں لے سکتا کہ امانت تھے۔ (خانیہ)
مسئلہ ۲۵ : ایک شخص سے کہا کہ ایک روپیہ کا پانچ سیر گوشت لا دو وہ ایک روپیہ کا دس سیر گوشت لایا اور گوشت بھی وہ ہے جو بازار میں روپیہ کا پانچ سیر ملتا ہے مؤکل کو صرف پانچ سیر آٹھ آنے میں لینا ضروری ہے اور باقی گوشت وکیل کے ذمہ۔ اور اگر پائو آدھ سیر زائد لایا ہے مگر اتنے ہی میں جتنے ہیں مؤکل نے بتایا تھا تو یہ زیادتی مؤکل کے ذمہ لازم ہے اس کے لینے سے انکار نہیں کر سکتا اور اگر گوشت روپیہ کا پانچ سیر والا نہیں ہے بلکہ یہ گوشت روپیہ کا دس سیر بکتا ہے تو اس میں سے مؤکل کو کچھ لینا ضرورنہیں ۔ یہی حکم ہر وزنی چیز کاہے۔ اور اگر قیمتی چیز ہومثلاً یہ کہا کہ پانچ روپے کا ململ کا تھان لائو وکیل پانچ روپے میں دو تھان لایا مگر تھان وہی ہے جو بازار میں پانچ کا آتا ہے تو مؤکل کو لینا لازم نہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۶ : ایک چیز معین کرکے کہا کہ یہ چیز میرے لئے خرید لائو مثلاً یہ بکری یہ گائے یہ بھینس تو وکیل کو وہ چیز اپنے لئے یا مؤکل کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے خریدنا جائز نہیں اگر وکیل کی نیت اپنے لئے خریدنے کی ہے یا منہ سے کہہ دیا کہ اس کو اپنے لئے یا فلاں کے لئے خریدتا ہوں جب بھی وہ چیز مؤکل ہی کے لئے ہے۔ (ہدایہ ،بحر)
مسئلہ ۲۷ : وکیل مذکور نے مؤکل کی موجودگی میں چیز اپنے لئے خریدی یعنی صاف طور پر کہہ دیا کہ اپنے لئے خریدتا ہوں یا ثمن جو کچھ اس نے بتایا تھا اس کے خلاف دوسری جنس کو ثمن کیا اس نے روپیہ کہا تھا اس نے اشرفی یا نوٹ سے وہ چیز خریدی یا مؤکل نے ثمن کی جنس کومعین نہیں کیا تھا اس نے نقود کے علاوہ دوسری چیز کے عوض میں خریدی یا اس نے خود نہیں خریدی بلکہ دوسرے کو خریدنے کے لئے وکیل کیا اور اس نے اس کی عدم موجودگی میں خریدی ان سب صورتوں میں وکیل کی ملک ہو گی مؤکل کی نہیں ہو گی اور اگر وکیل کے وکیل نے وکیل کی موجودگی میں خریدی تو مؤکل کی ہو گی۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۸ : غیر معین چیز خریدنے کے لئے وکیل کیا تو جو کچھ خریدے گا وہ خود وکیل کے لئے ہے مگر دو صورتوں میں مؤکل کے لئے ہے ایک یہ کہ خریداری کے وقت اس نے مؤکل کے لئے خریدنے کی نیت کی دوسری یہ کہ مؤکل کے مال سے خریدی یعنی عقد کو وکیل نے مال مؤکل کی طرف نسبت کیا مثلاً یہ چیز فلاں کے روپے سے خریدتا ہوں ۔ (ہدایہ ، درمختار)
مسئلہ ۲۹ : عقد کو اپنے روپے کی طرف نسبت کیا تو اسی کے لئے ہے اور اگر عقد کو مطلق روپے سے کیا نہ یہ کہا کہ مؤکل کے روپے سے نہ یہ کہ اپنے روپے سے تو جو نیت ہو۔ اپنے لئے نیت کی تو اپنے لئے مؤکل کے لئے نیت کی تو مؤکل کے لئے۔ اور اگر نیتوں میں اختلاف ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ کس کے روپے اس نے دیئے اپنے دیئے تو اپنے لئے خریدی ہے مؤکل کے دیئے تو اس کے لئے خریدی ہے۔ (بحر)
مسئلہ ۳۰ : وکیل و مؤکل میں اختلاف ہے وکیل کہتا ہے میں نے تمہارے (مؤکل کے) لئے خریدی ہے مؤکل کہتا ہے تم نے اپنے لئے خریدی ہے اس صورت میں مؤکل کا قول معتبر ہے جب کہ مؤکل نے روپیہ نہ دیا ہو اور اگر مؤکل نے روپیہ دے دیا ہو تو وکیل کا قول معتبر ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۱ : معین غلام کی خریداری کا وکیل تھا پھر وکیل و مؤکل میں اختلاف ہوا اگر غلام زندہ ہے وکیل کا قول معتبر ہے مؤکل نے دام دیئے ہوں یا نہ دیئے ہوں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۲ : خریدار نے کہا یہ چیز میرے ہاتھ زید کے لئے بیچو اس نے بیچی اس کے بعد خریدار یہ کہتا ہے کہ زید نے مجھے خریدنے کا حکم نہیں کیا تھا مقصود یہ ہے کہ اس کو میں خود لوں زید کو نہ دوں اگر زید لینا چاہتا ہے تو چیز لے لیگا اور خریدار کا انکار لغو و بیکار ہے۔ ہاں اگر زید بھی یہی کہتا ہے کہ میں نے اسے حکم نہیں دیا تھا تو خریدارلے گا زید کو نہیں ملے گا مگر جب کہ باوجود اس کے کہ زید نے کہہ دیا ہے کہ میں نے اس سے لینے کو نہیں کہا ہے خریدار نے وہ چیز زید کو دے دی اور زید نے لے لی تو اب زید کی ہو گئی اور یہ تعاطی کے طور پر زید سے بیع ہوئی۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۳ : دو چیزیں خریدنے کے لئے حکم دیا خواہ دونوں معین ہوں یا غیر معین اورثمن معین نہیں کیا ہے کہ اتنے میں خریدی جائیں وکیل نے ایک خریدی اگر یہ واجبی قیمت میں خریدی ہیں یا خفیف سی زیادتی کے ساتھ خریدی کہ اتنی زیادتی کے ساتھ لوگ خرید لیتے ہوں تو یہ بیع مؤکل کے لئے ہو گی اور اگر بہت زیادہ داموں کے ساتھ خریدی تو مؤکل کے لئے لینا ضرور نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۴ : دو چیزیں خریدنے کے لئے وکیل کیا اورثمن معین کر دیا ہے مثلاً ہزار روپے میں دونوں خریدو اورفرض کرو کہ دونوں قیمت میں یکساں ہیں وکیل نے ایک کو پانچ سو کم میں خریدا تو مؤکل پر نافذ ہے اور پانچ سو سے زیادہ میں خریدی اگرچہ تھوڑی ہی زیادتی ہو تو مؤکل پر نافذ نہیں مگر جب کہ دوسری باقی روپے میں مؤکل کے مقدمہ دائر کرنے سے پہلے خریدلے مثلاً پہلی ساڑھے پانچ سو میں خریدی اور دوسری ساڑھے چار سو میں کہ دونوں ایک ہزار میں ہو گئیں اب دونوں مؤکل پر لازم ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۵ : زید کا عمرو پر دین ہے زید نے عمرو سے کہا کہ تمہارے ذمہ جو میرے روپے ہیں ان کے بدلے فلاں چیز معین میرے لئے خرید لو یا فلاں سے فلاں چیز خرید لو یعنی چیز معین کر دی ہو یا بائع کو معین کر دیا ہو یہ توکیل صحیح ہے عمرو خرید کر جب وہ روپیہ بائع کو دیدے گا زید کے دین سے بری الذمہ ہو جائے گا زید نہ تو چیز کے لینے سے انکار کر سکتا ہے نہ اب دین کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر نہ چیز کو معین کیا نہ بائع کو معین کیا اور مدیون نے چیز خریدلی اور روپیہ ادا کر دیا تو بری الذمہ نہیں ہوا زید اس سے دین کا مطالبہ کر سکتاہے اور وہ چیز جو خریدی ہے مدیون کی ہے زید اس کے لینے سے انکار کر سکتاہے اور فرض کرو ہلاک ہو گئی تومدیون کی ہلاک ہوئی زید سے تعلق نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۶ : دائن نے مدیون سے کہہ دیا کہ میرا روپیہ جو تمہارے ذمہ ہے اسے خیرات کر دو یہ کہنا صحیح ہے خیرات کر دے گا تو دائن کی طرف سے ہو گا اب دین کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ یونہی مالک مکان نے کرایہ دار سے یہ کہا کہ کرایہ جو تمہارے ذمہ ہے اس سے مکان کی مرمت کرو اس نے کرا دی درست ہے کرایہ کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۷ : ایک چیز ہزار روپے میں خریدنے کو کہا تھا اور روپے بھی دے دیئے اس نے خرید لی اورچیز بھی ایسی ہے جس کی واجبی قیمت ہزار روپے ہے وہ شخص کہتا ہے یہ پانچ سو میں تم نے خریدی ہے اور وکیل کہتا ہے نہیں میں نے ہزار میں خریدی ہے اس میں وکیل کا قول معتبر ہو گا اور اگر واجبی قیمت اس کی پانچ سو ہی ہے تو مؤکل کا قول معتبر ہے اور اگر روپے نہیں دیئے ہیں اور واجبی قیمت پانچ سو ہے جب بھی مؤکل کا قول معتبر ہے اور اگر واجبی قیمت ہزار ہے تو دونوں پر حلف دیا جائے گا اگر دونوں قسم کھا جائیں تو عقد فسخ ہو جائے گا او روہ چیز وکیل کے ذمہ لازم ہو جائے گی۔ (درمختار ، بحر)
مسئلہ ۳۸ : مؤکل نے چیز کو معین کر دیا ہے مگر ثمن نہیں معین کیا کہ کتنے میں خریدنا اوریہی اختلاف ہوا یعنی وکیل کہتا ہے میں نے ہزار میں خریدی ہے مؤکل کہتا ہے پانچ سو میں خریدی ہے یہاں بھی دونوں پر حلف ہے اگرچہ بائع وکیل کی تصدیق کرتا ہو کہ اس کی تصدیق کا کچھ لحاظ نہیں کیونکہ یہ اس معاملہ میں اجنبی ہے اور بعد حلف وہ چیز وکیل پر لازم ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۹ : مؤکل یہ کہتا ہے میں نے تم سے کہا تھا کہ پانچ سو میں خریدنا اور وکیل کہتا ہے تم نے ہزار روپے میں خریدنے کو کہا تھا یہاں مؤکل کا قول معتبر ہے اور اگر دونوں گواہ پیش کریں تو وکیل کے گواہ معتبر ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۰ : ایک شخص سے کہا تھا کہ میری یہ چیز اتنے میں بیع کر دو اور اس وقت اس چیز کی اتنی ہی قیمت تھی مگر بعد میں قیمت زیادہ ہو گئی تو وکیل کو اتنی میں بیچنا اب درست نہیں یعنی نہیں بیچ سکتا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۱ : خریدوفروخت و اجارہ و بیع سلم و بیع صرف کا وکیل ان لوگوں کے ساتھ عقد نہیں کر سکتا جن کے حق میں اس کی گواہی مقبول نہیں اگرچہ واجبی قیمت کے ساتھ عقد کیا ہو ہاں اگر مؤکل نے اس کی اجازت دے دی ہو کہہ دیا ہو کہ جس کے ساتھ چاہو عقد کرو تو ان لوگوں سے واجبی قیمت پر عقد کر سکتا ہے اور اگر مؤکل نے عام اجازت نہیں دی ہے اور واجبی قیمت سے زیادہ پر ان لوگوں کے ہاتھ چیز بیع کی تو جائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۲ : وکیل کو یہ جائز نہیں کہ اس چیز کو خود خرید لے جس کی بیع کے لئے اس کو وکیل کیا ہے یعنی یہ بیع ہی نہیں ہو سکتی کہ خود بائع ہو اور خود مشتری۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۳ : مؤکل نے ان لوگوں سے بیع کی صریح لفظوں میں اجازت دے دی ہو جب بھی اپنی ذات یا نابالغ لڑکے یا اپنے غلام کے ہاتھ جس پر دین نہ ہو بیع کرنا جائز نہیں ۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۴۴ : وکیل کم یا زیادہ جتنی قیمت پر چاہے خرید و فروخت کر سکتا ہے جب کہ تہمت کی جگہ نہ ہو اور مؤکل نے دام بتائے نہ ہوں مگر بیع صرف میں غبن فاحش کے ساتھ بیع کرنا درست نہیں اور وکیل یہ بھی کر سکتا ہے کہ چیز کو غیر نقود کے بدلے میں بیع کرے۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴۳ : بیع کو وکیل چیز ادھار بھی بیع کر سکتا ہے جب کہ مؤکل بطور تجارت چیز بیچنا چاہتا ہو اور اگر ضرورت و حاجت کے لئے بیع کرتا ہے مثلاً خانہ داری کی چیزیں ضرورت کے وقت بیچ ڈالتے ہیں اس صورت میں وکیل کو ادھار بیچنا جائز نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۴ : عورت نے سوت کا تکر کسی کو بیچنے کے لئے دیا ادھار بیچنا جائز نہیں غرض اگر قرینہ سے یہ ثابت ہو کہ مؤکل کی مراد نقد بیچنا ہے تو ادھار بیچنا درست نہیں اور جہاں ادھار بیچنا درست ہے اس سے مراد اتنے زمانہ کے لئے ادھار بیچنا ہے جس کا رواج ہو اگر زمانہ طویل کر دیا مثلاً عام طور پر لوگ ایک مہینے کی مدت دیتے تھے اس نے زیادہ کر دی یہ جائز نہیں ۔ (بحر ، درمختار)
مسئلہ ۴۵ : مؤکل نے کہا اس چیز کو سو روپے میں ادھار بیچ دینا اس نے سو روپے نقد میں بیچ دی یہ جائز ہے اور اگر مؤکل نے دام نہ بتائے ہوں یہ کہا کہ اس کو ادھار بیچنا وکیل نے نقد بیچ دی یہ جائز نہیں ۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۴۶ : وکالت کو زمانہ یا مکان کے ساتھ مقید کرنا درست ہے یعنی مؤکل نے کہہ دیا کہ اسکو کل بیچنا یا خریدنا یا فلاں جگہ خریدنا یا بیچنا وکیل آج عقد نہیں کر سکتانہ اس جگہ کے علاوہ دوسری جگہ کر سکتا ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۷ : وکیل سے کہا جائو بازار سے فلاں چیز فلاں شخص کی معرفت خرید لائو وکیل نے بغیر اس کی معرفت کے خریدی یہ درست ہے یعنی اگر وہ چیز ضائع ہو گئی تو وکیل ضامن نہیں اور اگر یہ کہا تھا کہ بغیر اس کی معرفت کے مت خریدنا وکیل نے بغیر معرفت خریدلی یہ جائز نہیں ہلاک ہو جائے تو وکیل کا نقصان ہے مؤکل سے تعلق نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۴۸ : ایسی چیز بیچنے کے لئے وکیل کیا ہے جس میں بار برداری صرف ہو گی اور وکیل و مؤکل دونوں ایک ہی شہر میں ہیں تو اس سے مرد اسی شہر میں بیچنا ہے دوسرے شہر میں لے جانا جائز نہیں فرض کرو دوسری جگہ بار کراکے لے گیا اور چوری ہو گئی یا ضائع ہو گئی وکیل کا تاوان دینا ہو گا۔ اور اگر بار برداری کا صرفہ نہ ہوتا ہو اور مؤکل نے جگہ کی تعیین نہیں کی ہے تو اس شہر کی خصوصیت نہیں وکیل کو اختیار ہے جہاں چاہے لے جائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۴۹ : مؤکل نے وکیل پر کوئی شرط کر دی ہے جو پوری طور پر مفید ہے وکیل کو اس شرط کی رعایت واجب ہے مثلاً کہا تھا اس کو خیار کے ساتھ بیع کرنا وکیل نے بلا خیار بیع کر دی یہ جائز نہیں ۔ مؤکل نے کہا تھا کہ میرے لئے اس میں خیار رکھنا اور خیار کی شرط نہیں کی جب تو بیع ہی جائز نہیں اور اگر مؤکل کیلئے خیار شرط کیا تو وکیل و مؤکل دونوں کے لئے ہو گا۔ مؤکل نے مطلق بیع کی اجازت دی وکیل نے مؤکل یا اجنبی کے لئے خیار شرط کیا یہ بیع صحیح ہے۔ مؤکل نے ایسی شرط لگائی جس کا کوئی فائدہ نہیں اس کا اعتبار نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۰ : وکیل نے ادھار بیچی تو ثمن کے لئے مشتری سے کفیل لے سکتا ہے یا ثمن کے مقابل میں کوئی چیز رہن رکھ سکتا ہے لہذا اس صورت میں وکیل کے پاس سے رہن کی چیز ہلاک ہو گئی یا کفیل سے وصولی کی کوئی صورت ہی نہ رہی تو وکیل ضامن نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۱ : مؤکل نے کہہ دیا ہے کہ جس کے ہاتھ بیع کرو اس سے کفیل لینا یا کوئی چیز رہن رکھ لینا وکیل نے بغیر رہن و کفالت بیع کر دی یہ جائز نہیں ۔ وکیل و مؤکل میں اختلاف ہوا مؤکل کہتا ہے میں نے رہن یا کفالت کیلئے کہا تھا وکیل کہتا ہے نہیں کہا تھا اس میں مؤکل کا قول معتبر ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۲ : وکیل نے بیع کی اور مشتری کی طرف سے ثمن کی خود ہی کفالت کی یہ کفالت جائز نہیں اور اگر وہ بیع کا وکیل نہیں ہے بلکہ مشتری سے ثمن وصول کرنے کے لئے وکیل ہے یہ مشتری کی طرف سے ثمن کی کفالت کرتا ہے جائز ہے اور مشتری سے ثمن معاف کر دے تومعاف نہ ہو گا۔ (خانیہ)
مسئلہ ۵۳ : وکیل نے مشتری سے ثمن وصول کرنے میں تاخیر کر دی یعنی بیع کے بعد اس کے لئے میعاد مقرر کر دی یا ثمن معاف کر دیا یا مشتری نے حوالہ کر دیا اس نے قبول کر لیایا اس نے کھوٹے روپے دے دیئے اس نے لے لئے یہ سب درست ہے یعنی جو کچھ کر چکا ہے مشتری سے اس کے خلاف نہیں کر سکتا مگرمؤکل کے لئے تاوان دینا ہو گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۴ : جو شخص خریدنے کا وکیل ہو اس کی خریداری کے لئے مؤکل نے ثمن کی تعیین نہ کی ہو تو اتنے ہی دام کے ساتھ خرید سکتا ہے جو چیز کی اصلی قیمت ہے یا کچھ زیادہ کے ساتھ خرید سکتا ہے کہ عام طور پر لوگوں کے خریدنے میں یہ دام ہوتے ہوں ۔ یہ ان چیزوں میں ہے جن کا ثمن معروف و مشہور نہ ہو اور اگر ثمن معروف ہے جیسے روٹی۔ گوشت۔ ڈبل روٹی۔ بسکٹ اور انکے علاوہ بہت سی چیزیں ان کو وکیل نے زیادہ ثمن سے خریدا اگرچہ بہت تھوڑی زیادتی ہے مثلاً چار پیسے میں چار روٹیاں آتی ہیں اس نے پانچ کی چار خریدیں یہ بیع مؤکل پر نافذ نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۵ : چیز بیچنے کے لئے وکیل کیا وکیل نے اس میں سے آدھی بیچ دی اورچیز ایسی ہے جس میں تقسیم نہ ہو سکے جیسے لونڈی غلام گائے بکری کہ ان میں تقسیم نہیں ہو سکتی اگر مؤکل کے دعوی کرنے سے پہلے وکیل نے دوسرا نصف بھی بیچ دیا جب تو جائزہے ورنہ نہیں اور اگر چیز ایسی ہے جس کے حصہ کرنے میں نقصان نہ ہو جیسے جو گیہوں تو نصف کی بیع صحیح ہے چاہے باقی کو بیع کرے یا نہ کرے اور اگر خریدنے کا وکیل ہے اور آدھی چیز خریدی تو جب تک باقی کو خرید نہ لے مؤکل پر نافذ نہ ہو گی اس چیز کے حصے ہو سکتے ہوں یا نہ ہوں سکیں دونوں کا ایک حکم ہے۔ (درمختا ر، بحر)
مسئلہ ۵۶ : مشتری نے مبیع میں عیب پایا اور وکیل پر اس کو رد کر دیا اس کی چند صورتیں ہیں مشتری نے گواہوں سے عیب ثابت کیا ہے یا وکیل پر حلف دیا گیا اس نے حلف سے انکار کیا یا خود وکیل نے عیب کا اقرار کیا بشرطیکہ اس تیسری صورت میں وہ عیب ایسا ہو کہ اس مدت میں پیدا نہیں ہو سکتا ان تینوں صورتوں میں وکیل پر رد مؤکل پر رد ہے اور اگر عیب ایسا ہے جس کا مثل اس مدت میں پیدا ہو سکتا ہے اور وکیل نے اس کا اقرار کر لیا تو وکیل پر رد مؤکل پر رد نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۷ : مبیع ایسے عیب کی وجہ سے جس کا مثل حادث ہو سکتا ہے وکیل پر بوجہ اقرار کے رد کی گئی اس صورت میں وکیل کو مؤکل پر دعوی کرنے کا حق ہے گواہوں سے اگر مؤکل کے یہاں عیب ہونا ثابت کر دے گا یا بصورت گواہ نہ ہونے کے مؤکل پر حلف دیا جائے گا اگر حلف سے انکار کر دے گا تو مؤکل پر رد کر دی جائے گی اور اگر وکیل پر رد کیا جانا قاضی کے حکم سے نہ ہو بلکہ خود وکیل نے اپنی رضا مندی سے چیز واپس لی تو اب مؤکل پر دعوی کرنے کا بھی حق نہیں ہے کہ اس طرح واپسی حق ثالث میں بیع جدید ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۵۸ : وکالت میں اصل خصوص ہے کیونکہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ وکیل کے لئے معین کر کے کام بتایا جاتا ہے عموم بہت کم ہوتا ہے اور مضاربت میں عموم اصل ہے یعنی عام طور پر مضارب کو امور تجارت میں وسیع اختیارات دیئے جاتے ہیں کیونکہ مضارب کے لئے پابندی اکثر موقع پر اصل مقصود کے منافی ہوتی ہے اس قاعدۂ کلیہ کی تفریع یہ ہے کہ وکیل نے ادھار بیچا مؤکل نے کہا میں نے تم سے نقد بیچنے کو کہا تھا وکیل کہتا ہے تم نے مطلق رکھا تھا نقد یا ادھار کسی کی تخصیص نہیں تھی مؤکل کی بات مانی جائے گی اور یہی صورت مضاربت میں ہو کہ رب المال کہتا ہے میں نے نقد بیچنے کو کہا تھا اور مضارب کہتا ہے نقد یا ادھار کسی کی تعیین نہ تھی تو مضارب کی بات مانی جائے گی۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۹ : وکیل مدعی ہے کہ میں نے چیز بیچ دی اور ثمن پر قبضہ بھی کر لیا مگر ثمن ہلاک ہو گیا اور مشتری بھی وکیل کی تصدیق کرتا ہے مؤکل کہتا ہے دونوں جھوٹے ہیں وکیل کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۶۰ : مؤکل کہتا ہے میں نے تجھ کو وکالت سے جدا کر دیا وکیل کہتا ہے وہ چیز تو میں نے کل ہی بیچ ڈالی وکیل کی بات مانی جائے گی۔ (بحر)
مسئلہ ۶۱ : ایک شخص نے دو شخصوں کو وکیل کیا تو ان میں سے ایک تنہا تصرف نہیں کر سکتا اگر کرے گا مؤکل پر نافذ نہیں ہو گا دوسرا مجنوں ہو گیا یا مر گیا جب اس ایک کو تصرف کرنا جائز نہیں ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اس کام میں دونوں کی رائے اور مشورہ کی ضرورت ہو مثلاً بیع اگرچہ ثمن بھی بتا دیا ہو اوریہ حکم وہاں ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ وکیل بنایا یعنی یہ کہا میں نے دونوں کو وکیل کیا یا زید وعمرو کو وکیل کیا اور اگر دونوں کو ایک کلام میں وکیل نہ بنایا ہو آگے پیچھے وکیل کیا ہو تو ہر ایک بغیر دوسرے کی رائے کے تصرف کر سکتا ہے۔ (بحر)
مسئلہ ۶۲ : دو شخصوں کو مقدمہ کی پیروی کے لئے وکیل کیا تو بوقت پیروی دونوں کا مجتمع ہونا ضروری نہیں تنہا ایک بھی پیروی کر سکتا ہے بشرطیکہ امور مقدمہ میں دونوں کی رائے مجتمع ہو۔ (درمختار)
مسئلہ ۶۳ : زوجہ کو بغیر مال کے طلاق دینے کے لئے یا غلام کو بغیر مال آزاد کرنے کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا ان میں تنہا ایک شخص طلاق دے سکتا ہے آزاد کر سکتا ہے یہاں تک کہ ایک نے طلاق دے دی اور دوسرا انکار کرتا ہے جب بھی طلاق ہو گئی۔ یونہی کسی کی امانت واپس کرنے کے لئے یا عاریت پھیرنے کے لئے یا غصب کی ہوئی چیز دینے کے لئے یا بیع فاسد میں رد کرنے کے لئے دو وکیل کئے تنہا ایک شخص بغیر مشارکت دوسرے کے یہ سب کام کر سکتا ہے۔ زوجہ کو طلاق دینے کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا اور یہ کہہ دیا کہ تنہا ایک شخص طلاق نہ دے بلکہ دونوں جمع ہو کر متفق ہو کر طلاق دیں اور ایک نے طلاق دے دی دوسرے نے نہیں دی یا ایک نے طلاق دی دوسرے نے اسے جائز کیا طلاق نہ ہوئی اورا گر یہ کہا کہ تم دونوں مجتمع ہو کر اسے تین طلاقیں دے دینا ایک نے ایک طلاق دی دوسرے نے دو طلاقیں دیں ایک بھی نہیں ہوئی جب تک مجتمع ہو کر دونوں تین طلاقیں نہ دیں ۔ یونہی دو شخصوں سے کہاکہ میری عورتوں میں سے ایک کو تم دونوں طلاق دے دو اور عورت کو معین نہ کیا تو تنہا ایک شخص طلاق نہیں دے سکتا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶۴ : دو شخصوں کو کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے وکیل کیا یا عورت نے دو شخصوں کو نکاح کا وکیل کیا تنہا ایک وکیل نکاح نہیں کر سکتا اگرچہ مؤکل نے مہر کا تعین بھی کر دیا ہو۔ خلع کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا تنہا ایک شخص خلع نہیں کر سکتا اگرچہ بدل خلع بھی ذکر کر دیا ہو۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶۵ : امانت یا عاریت یا مغصوب شے کو واپس لینے کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا تو تنہا ایک شخص واپس نہیں لے سکتا جب تک اس کا ساتھی بھی شریک نہ ہو فرض کرو اگر تنہا نے واپس لی اور ضائع ہوئی تو اسے پوری چیز کا تاوان دینا ہو گا۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۶۶: دین ادا کرنے کے لئے دو وکیل کئے تو ایک تنہا بھی ادا کر سکتا ہے دوسرے کی شرکت ضروری نہیں اور دین وصول کرنے کے لئے دو وکیل کئے تو تنہا ایک وصول نہیں کر سکتا۔ (بحر)
مسئلہ ۶۷ : دین وصول کرنے کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا اور مؤکل غائب ہو گیا اور ایک وکیل بھی غائب ہو گیا جو وکیل موجود تھا اس نے دین کا مطالبہ کیا مدیون دین کا اقرار کرتا ہے مگر وکالت سے انکار کرتا ہے وکیل نے گواہوں سے ثابت کیا کہ فلاں شخص نے دین وصول کرنے کا مجھے اور فلاں شخص کو وکیل کیا ہے اس صورت میں قاضی دونوں کی وکالت کا حکم دے گا دوسرا وکیل جو غائب ہے جب آجائے گا اسے گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہ ہو گی بلکہ دونوں مل کر دین وصول کر لیں گے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶۸ : واہب نے دو شخصوں کو وکیل کیا کہ یہ چیز فلاں موہوب لہ کو تسلیم کر دو ان میں کا ایک شخص تسلیم کر سکتا ہے اور اگر موہوب لہ نے قبضہ کے لئے دو شخصوں کو وکیل کیا تو تنہا ایک شخص قبضہ نہیں کر سکتا اور اگر دو شخصوں کو وکیل کیا کہ یہ چیز کسی کو ہبہ کر دو اور موہوب لہ کو معین نہیں کیا تو ایک شخص کسی کو ہبہ نہیں کر سکتا اور اگر موہوب لہ کو معین کر دیا ہے تو ایک شخص ہبہ کر سکتا ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۶۹ : رہن ایک شخص تنہا نہیں رکھ سکتا مکان یا زمین کرایہ پر لینے کے لئے دو وکیل کئے تنہا ایک نے کرایہ پرلیا تو وکیل کے اجارہ میں ہوا پھر اگر وکیل نے مؤکل کو دے دیا تو یہ وکیل و مؤکل کے مابین ایک جدید اجارہ بطور تعاطی منعقد ہوا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۷۰ : یہ کہا کہ میں نے تم دونوں میں سے ایک کو فلاں چیز کے خریدنے کا وکیل کیا دونوں نے خرید لی اگر آگے پیچھے خریدی ہے تو پہلے کی چیز مؤکل کی ہو گی اور دوسرے نے جو خریدی ہے وہ خود اس وکیل کی ہو گی اور اگر دونوں نے بیک وقت خریدی تو دونوں چیزیں مؤکل کی ہوں گی۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۷۱ : ایک شخص سے کہا میری یہ چیز بیچ دو پھر دوسرے سے بھی اسی چیز کے بیچنے کو کہا اور دونوں نے دو شخصوں کے ہاتھ بیع کر دی اگر معلوم ہے کہ کس نے پہلے بیع کی تو جس نے پہلے خریدی ہے چیز اسی کی ہے اور معلوم نہ ہو تو دونوں مشتری اس میں نصف نصف کے شریک ہیں اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ نصف ثمن کے ساتھ لے یا نہ لے اور اگر دونوں نے ایک ہی شخص کے ہاتھ بیع کی اور دوسرے نے زیادہ داموں میں بیچی دوسری بیع جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۷۲ : ایک شخص کو وکیل کیا ہے کہ وہ اپنے مال سے یا مؤکل کے مال سے دین ادا کر دے اس کو دین ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا مگر جب کہ وکیل کے ذمہ خود مؤکل کا دین ہے اور مؤکل نے اس سے دوسرے کا دین جو مؤکل پر ہے ادا کرنے کو کہا۔ اسی کو خصوصیت نہیں بلکہ کسی جگہ بھی وکیل اس کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کے لئے وکیل ہوا ہے مثلاً یہ کہا کہ میری یہ چیز بیچ کر فلاں کادین ادا کر دو وکیل اس کے بیچنے پرمجبور نہیں یا یہ کہہ دیا ہو کہ میری عورت کو طلاق دے دو وکیل طلاق دینے پر مجبور نہیں اگرچہ عورت طلاق مانگتی ہو یا غلام آزاد کر دو یا فلاں شخص کو یہ چیز ہبہ کر دو یا فلاں کے ہاتھ یہ چیز بیع کر دو۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۷۳ : بعض باتوں میں وکیل اس کام کے کرنے پر مجبور کیا جائے انکار نہیں کر سکتا۔ (۱) ایک چیز معین شخص کو دینے کے لئے وکیل کیا تھا کہ یہ چیز فلاں کو دے آئو اور مؤکل غائب ہو گیا وکیل کو اسے دینا لازم ہے۔ (۲) مدعی کی طلب پر مدعی علیہ نے وکیل کیا اور مدعی علیہ غائب ہو گیا وکیل کو پیروی کرنی لازم ہے (۳) ایک چیز رہن رکھی ہے اور عقد رہن کے اندر یا بعد میں راہن نے توکیل بالبیع شرط کر دی اس صورت میں وکیل کو بیع کر کے مرتہن کا دین ادا کرنا ضروری ہے (۴) جو وکیل اجرت پر کام کرتے ہوں جیسے دلال آڑھتی وہ کام پر مجبور ہیں انکار نہیں کر سکتے۔ (درمختار)
مسئلہ ۷۴ : وکیل جس چیز کے بارے میں وکیل ہے بغیر اجازت مؤکل اس میں دوسرے کو وکیل نہیں کر سکتا مثلاً زید نے عمرو سے ایک چیز خریدنے کو کہا عمرو بکر سے کہہ دے کہ تو خرید کر لا یہ نہیں ہو سکتا یعنی وکیل الوکیل جو کچھ کرے گا وہ مؤکل پر نافذ نہیں ہو گا۔ (درمختار)
مسئلہ ۷۵ : وکیل کو مؤکل نے اس کی اجازت دے دی ہے کہ وہ خود کر دے یا دوسرے سے کرادے تو وکیل بنانا جائز ہے یا اس کام کے لئے اس نے اختیار تام دے دیا ہے مثلاً کہہ دیا ہے کہ تم اپنی رائے سے کام کرو اس صورت میں بھی وکیل بنانا جائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۷۶ : ایک شخص کو زکوۃ کے روپے دے کر کہا کہ فقیروں کو دے دو اس نے دوسرے کو کہا اس نے تیسرے کو کہا غرض یہ کہ جو بھی فقیروں کو دے دے گا زکوۃ ادا ہو جائے گی مؤکل کو اجازت دینے کی بھی ضرورت نہیں اور اگر قربانی کا جانور خریدنے کے لئے ایک کو کہا اس نے دوسرے سے کہہ دیا دوسرے نے تیسرے سے کہا غرض آخر والے نے خریدا تو اول کی اجازت پر موقوف رہے گا اگر جائز کرے گا جائز ہو گا ورنہ نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۷۷ : اذن یا تفویض (کام اس کی رائے پر سپرد کرنے) کی وجہ سے وکیل نے دوسرے کو وکیل بنایا تو یہ وکیل ثانی وکیل کا وکیل نہیں ہے بلکہ مؤکل کا وکیل ہے اگر وکیل اول اسے معزول کرنا چاہے معزول نہیں کر سکتا نہ اس کے مرنے سے یہ معزول ہو سکتا ہے مؤکل کے مرنے سے دونوں معزول ہو جائیں گے۔ (بحر)
مسئلہ ۷۸ : وکیل نے وہ کام کیا جس کے لئے وکیل تھا اور حقوق میں اس نے دوسرے کو وکیل بنایا یہ جائز ہے اس کے لئے نہ اذن کی ضرورت ہے نہ تفویض کی مثلاً خریدنے کا وکیل کیا تھا اس نے خریدا اور مبیع پر قبضہ کے لئے یا عیب کی وجہ سے واپس کرنے کے لئے یا اس کے متعلق دعوی کرنا پڑے اس کے لئے بغیر اذن و تفویض بھی وکیل کر سکتا ہے کہ ان سب کاموں میں وکیل اصیل ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۷۹ : وکیل نے بغیر اذن و تفویض دوسرے کو وکیل کر دیا دوسرے نے پہلے کی موجودگی یا عدم موجودگی میں کام کیا اور اول نے اسے جائز کر دیا تو جائز ہو گیا بلکہ کسی اجنبی نے کر دیا اس نے جائز کر دیا جب بھی جائز ہو گیا اور اگر وکیل اول نے ثانی کے لئے ثمن مقرر کر دیا ہے کہ چیز اتنے میں بیچنا اور ثانی نے اول کی غیبت میں بیچ دی تو جائز ہے یعنی اول کی رائے سے کام ہوا اور یہ بیع مؤکل پر نافذ ہو گی کیونکہ اس کی رائے اس صورت میں یہی ہے کہ ثمن کی مقدار متعین کر دے اور یہ کام اس نے کر دیا۔ خریدنے کے لئے وکیل کیا تھا اور اجنبی نے خریدی اور وکیل نے جائز کر دی جب بھی اسی اجنبی کے لئے ہے۔ (درمختار ، بحر)
مسئلہ ۸۰ : ایسی چیزیں جو عقد نہیں ہیں جیسے طلاق عتاق ان میں کسی کو وکیل کیا وکیل نے دوسرے کو وکیل کر دیا ثانی نے اول کی موجودگی میں طلاق دی یا اجنبی نے طلاق دی وکیل نے جائز کر دی طلاق نہیں ہو گی۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۱ : وکالت کبھی خاص ہوتی ہے کہ ایک مخصوص کام مثلاً خریدنے یا بیچنے یا نکاح یا طلاق کے لئے وکیل کیا اور کبھی عام ہوتی ہے کہ ہر قسم کے کام وکیل کوسپرد کر دیتے ہیں جس کو مختار عام کہتے ہیں مثلاً کہہ دیا کہ میں نے تجھے ہر کام میں وکیل کیا اس صورت میں وکیل کو تمام معاوضات خریدنا بیچنا اجارہ دینا لینا سب کام کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے مگر بی بی کو طلاق دینا غلام کو آزاد کرنا یا دوسرے تبرعات مثلاً کسی کو اسکی چیز ہبہ کر دینا اس کی جائداد کو وقف کر دینا اس قسم کے کاموں کا وکیل اختیار نہیں رکھتا۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۲ : کسی سے کہا میں نے اپنی عورت کا معاملہ تمہیں سپرد کر دیا یہ طلاق کا وکیل ہے مگر مجلس تک اختیار رکھتا ہے بعد میں نہیں اور اگر یہ کہا کہ عورت کے معاملہ میں میں نے تم کو وکیل کیا تو مجلس تک مقتصر نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۳ : جس شخص کو دوسرے پر ولایت نہ ہو اس کے حق میں اگر تصرف کرے گا جائز نہیں ہو گا مثلاً غلام یا کافر نے اپنے نابالغ بچہ حر جو مسلمان کا مال بیچ دیا یا اس کے بدلے میں کوئی چیز خریدی یا اپنی نابالغہ لڑکی حرہ مسلمہ کا نکاح کیا یہ جائز نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۴ : نابالغ کے مال کی ولایت اس کے باپ کو ہے پھر اس کے وصی کو ہے یہ نہ ہو تو اس کے وصی کو ہے یعنی باپ کا وصی دوسرے کو وصی بنا سکتا ہے اس کے بعد دادا کو پھر دادا کے وصی کو پھر اس وصی کے وصی کو یہ بھی نہ ہو تو قاضی کو اس کے بعد وہ جس کو قاضی نے مقرر کیا ہو اس کو وصی قاضی کہتے ہیں پھر اس کو جس کو اس وصی نے وصی کیاہو۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۵ : ماں مر گئی یا بھائی مرا اور انھوں نے ترکہ چھوڑا اور اس مال کا کسی کو وصی کیا تو باپ یا اسکے وصی یا وصی وصی یا دادا یا اسکے وصی یا وصی وصی کے ہوتے ہوئے ماں یا بھائی کے وصی کو کچھ اختیار نہیں اور اگر ان مذکورین میں کوئی نہیں ہے تو ماں یا بھائی کے وصی کے متعلق اس ترکہ کی حفاظت ہے اور اس ترکہ میں سے صرف منقول چیزیں بیع کر سکتا ہے غیر منقول کی بیع نہیں کر سکتا اور کھانے اورلباس کی چیزیں خرید سکتا ہے وبس۔ (درمختار)
مسئلہ ۸۶ : وصی قاضی بھی وہ تمام اختیارات رکھتا ہے جو باپ کا وصی رکھتا ہے ہاں اگر قاضی نے اسے کسی خاص بات کا پابند کر دیا ہے تو پابند ہو گا۔ (درمختار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔