حمل کی وراثت کے متعلق مسائل
اگر تقسیم وراثت کے وقت بیوی کے پیٹ میں بچہ ہے تو اس کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
مسئلہ ۱: بچہ ماں کے پیٹ میں زیادہ سے زیادہ دو سال رہ سکتا ہے اور کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے ۔
مسئلہ ۲: اگر حمل میت کا ہے اور دو سال کے دوران بچہ پیدا ہوا اور عورت نے ابھی تک عدت ختم ہونے کا اقرار نہ کیا ہو تو یہ بچہ وارث بھی ہو گا اور اس کے مال کے اور لوگ بھی وارث ہوں گے اور اگر دو سال پورے ہونے کے بعد بچہ پیدا ہوا تو یہ بھی وارث نہیں ہو گا اور اس کا بھی کوئی وارث نہیں ہو گا۔ (شا می ج ۵ ص ۷۰۲ ، سراجی ص ۵۸)
مسئلہ ۳: حمل سے پیدا ہونے والا بچہ اس وقت وارث ہو گا جب کہ وہ زندہ پیدا ہوا ہو یا اس کا اکثر حصہ زندہ باہر ہوا ہواور زندگی کو اس طرح مانا جائے گا کہ وہ روئے یا چھینکے یا کوئی آواز نکالے یا اس کے اعضا حرکت کریں ۔ (تبیین ج ۶ ص ۲۴۱ ،سراجی ص ۵۸ ، شامی ج ۵ ص ۷۰۱،عالمگیری ج ۶ ص ۴۵۶)
مسئلہ ۴: اگر بچہ اس طرح پیدا ہوا کہ اس کا پہلے سر نکلا تو سینہ پر دارومدار ہے اگر سینہ زندہ رہ کر نکل آیا تو وارث ہو گا اور اگر سینہ نکلنے سے پہلے مر گیا تو وارث نہیں ہو گا اور اگر پیر پہلے نکلے ہیں تو ناف کا اعتبار ہو گا اگر ناف ظاہر ہونے تک زندہ تھا تو وارث ہو گا ورنہ نہیں ۔ (سراجی ص ۵۹، عالمگیری ج ۶ ص ۴۵۶)
مسئلہ ۵: بہتر تو یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کرنے میں بچہ کی پیدائش کا انتظار کر لیا جائے تاکہ حساب میں کوئی تبدیلی نہ کرنا پڑے اور اگر ورثا انتظار کرنے کو تیار نہ ہوں تو حمل کے احکام پر عمل کیا جائے۔
مسئلہ ۶: حمل کی دو صورتیں ہیں ۔
(۱) میت کا حمل ہے (۲) میت کے علاوہ کسی دوسرے رشتہ دار کا حمل ہو جو میت کاوارث بن سکتا ہو۔
اگر میت کا حمل ہے تو اس کو لڑکا فرض کرنے اور لڑکی فرض کرنے کی صورتوں میں سے جس صورت میں زیادہ حصہ ملتا ہے وہ حصہ محفوظ رکھا جائے گا۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔