بہار شریعت

حمل کا حصہ نکالنے کاقاعدہ

حمل کا حصہ نکالنے کاقاعدہ

مسئلہ ۷: ایک مرتبہ حمل کو مذکر مان کر مسئلہ نکالا جائے اور ایک مرتبہ حمل کو مؤنث مان کر مسئلہ نکالا جائے پھر دونوں مسئلوں کی تصحیح میں اگر توافق ہو تو ہر ایک کے وفق کو دوسرے کے کل میں ضرب دیاجائے اور اگر دونوں تصحیح میں تباین ہو تو ہر تصحیح میں ضرب دے دیا جائے اور دونوں صورتوں میں حاصل ضرب دونوں مسئلوں کی تصحیح قرار پائے گی اور دونوں مسئلوں میں سے ہر وارث کو جو سہام ملے ہیں ان میں بھی یہ عمل کیا جائے کہ دونوں مسئلوں کی تصحیح میں توافق ہونے کی صورت میں ایک مسئلہ کے وفق تصحیح کو دوسرے مسئلہ میں سے ہر وارث کے سہام کو ضرب دی جائے اور دونوں تصحیحوں میں تباین کی صورت میں ہر تصحیح کو دوسری تصحیح میں سے ہر وارث کے سہام کو ضرب دیجائے اب دونوں مسئلوں میں ہروارث کے حصوں کو دیکھاجائے جو کم ہو وہ ہر وارث کو اس وقت دے دیا جائے اورجتنا زیادہ ہے وہ محفوظ رکھا جائے گا بچہ پیدا ہونے کے بعد جو مال محفوظ رکھا گیا تھا اس میں سے جس وارث کے حصہ میں سے کاٹ کر اسے کم دیا گیا تھا اس کا حصہ پوار کر دیا جائے گا اور اگر وہ اپنا حصہ لے چکا تھا تو اس کے حصہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی اور حمل سے پیدا ہونے والا بچہ اپنا حصہ لے لے۔

توضیح : حمل کو مذکر ماننے کی صورت میں مسئلہ ۲۴ سے تھا اورمؤنث ماننے کی صورت میں مسئلہ ۲۷ سے تھا اور ۲۴ اور ۲۷ میں توافق بالثلث ہے یعنی ۳ دونوں کو تقسیم کر دیتا ہے اس لئے ۲۴ کے وفق کو ۲۷ میں ضرب دیا تو ۲۱۶ ہوا اور ۲۷ کے وفق ۹ کو ۲۴ میں ضرب دیا جب بھی ۲۱۶ ہوئے لہذا اب دونوں مسئلوں کی تصحیح ۲۱۶ ہے اور حمل کو مذکر ماننے کی صورت میں عدد تصحیح ۲۴ تھا اس کا وفق ۸ ہے لہذا ۸ کو دوسرے مسئلہ کی تصحیح ۲۷ میں سے ہر وارث کو جو سہام ملے تھے اس کو ضرب دیاگیا اور حمل کو مؤنث ماننے کی صورت میں تصحیح کا عدد ۲۷ تھا اس کا وفق ۹ ہے اس لئے ۹ کو دوسرے مسئلے میں سے ہر وارث کے سہام کو ضرب دیا گیا اب دونوں مسئلوں میں ہر وارث کے حصوں کو دیکھا باپ کو پہلے مسئلہ میں ۳۶ اور دوسرے مسئلے میں ۳۲ سہام ملے اس لئے اس کو ۳۲ دے دیئے جائیں گے اور چار سہام محفوظ رکھے جائیں گے۔ اسی طرح ماں کو بھی پہلے مسئلہ میں ۳۶ اور دوسرے میں ۳۲ سہام ملے اس لئے اس کو ۳۲ دیئے جائیں گے اور چار سہام محفوظ رکھے جائیں گے۔ بیوی کو پہلے مسئلہ میں ۲۷ اور دوسرے مسئلہ میں ۲۴ سہام ملے ۲۴ اس کودے دیئے جائیں گے اور ۳ محفوظ رکھے جائیں گے۔ لڑکی کو پہلے مسئلہ میں ۳۹ اور دوسرے مسئلہ میں ۶۴ سہام ملے اس لئے ۳۹ دیئے جائیں گے اور ۲۵ سہام محفوظ رکھے جائیں گے پھر اگر حمل سے لڑکا پیدا ہوا تو ۷۸ سہام جو پہلے مسئلہ میں اسے ملے تھے اس کو دے دیئے جائیں گے اور باپ کے جو ۴ سہام محفوظ تھے وہ اسکو اور ماں کے جو ۴ سہام محفوظ تھے وہ اس کو اور بیوی کے تین سہام محفوظ تھے وہ اس کو دے دیئے جائیں گے۔ اس طرح ۲۱۶ سہام پورے ہو جائیں گے اور اگر حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو ماں باپ اور بیوی اپنا پورا حصہ لے چکے ہیں ان کومحفوظ سہام سے کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن بیٹی کے جو ۲۵سہام محفوظ تھے وہ اس کو دے دیئے جائیں گے۔ اور ۶۴ سہام پیدا ہونے والی لڑکی کودے دیئے جائیں گے۔ اس طرح پھر مجموعہ ۲۱۶ سہا م پورا ہو جائے گا اور اگر حمل سے مردہ بچہ پیدا ہوا تو لڑکی نصف مال کی مستحق تھی اور اسے ۳۹ سہام دیئے گئے تھے لہذا اس کو ۶۹ سہام اور دے دیئے جائیں گے اس طرح اس کا کل حصہ ۲۱۶ کا نصف ۱۰۸ سہام ہو جائے گا اور ماں اور باپ کے ۴،۴ سہام جو کاٹے گئے تھے وہ ان کودیدیئے جائیں گے اور ۳ سہام بیوی کے کاٹے گئے تھے وہ اس کو دیدئیے جائیں گے اور ۹ سہام محفوظ مال میں سے بچیں گے وہ باپ کو عصبہ ہونے کی وجہ سے دے دیئے جائیں گے۔

توضیح : حمل کو مذکر ماننے کی صورت میں مسئلہ ۷ سے ہوا تھا۔ اور مؤنث ماننے کی صورت میں ۶ سے اور ۶ اور ۷ میں تباین ہے اس لئے ۷ سے دوسرے مسئلہ کی تصحیح ۶ میں ضرب دیا تو ۴۲ ہوئے اور دوسرے مسئلہ کی تصحیح ۶ کو ۷ میں ضرب دیا جب بھی ۴۲ہوئے اسی طرح پہلے مسئلہ کی تصحیح ۷ کو دوسرے مسئلہ میں سے وارثوں کے ہر حصہ کوضرب دیا اوردوسرے مسئلہ کی تصحیح ۶ سے پہلے کی تصحیح میں سے ہرو ارث کے حصہ کو ضرب دیا تو لڑکوں کو حمل مذکر ماننے کی صورت میں ۱۲ ، ۱۲ سہام اور لڑکی کو ۶ سہام ملے اور حمل کو مؤنث ماننے کی صورت میں لڑکوں کو ۱۴، ۱۴ سہام اور لڑکی کو ۷ سہام ملے لہذا کم والے حصے یعنی لڑکوں کو ۱۲ ، ۱۲ اور لڑکی کو ۶ سہام دے دیئے جائیں گے اور باقی ۱۲ سہام محفوظ رکھے جائیں گے اگر حمل سے لڑکا پیدا ہوا تو اس کو ۱۲ سہام دے دیئے جائیں گے وہی اس کا پورا حصہ تھا اور اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اس کے حصہ کے ۷ سہام اس کو دے دیئے جائیں گے اور ۲ ، ۲ سہام ہر لڑکے کو اور ایک سہام لڑکی کو دے کر ان کے حصے پورے کر دیئے جائیں گے۔ اس لئے کہ اب وہ زیادہ کے مستحق ہیں زوجہ خلع سے طلاق بائن حاصل کرنے کی وجہ سے محروم رہے گی۔

مسئلہ ۵: اگر میت کے علاوہ کسی دوسرے کا حمل ہو تو مورث کی موت کے چھ ماہ یا اس سے کم میں بچہ پیدا ہونے سے وارث ہو گا اور چھ ماہ کے بعد پیدا ہونے سے وارث نہیں ہو گا لیکن اگر چھ ماہ کے بعد پیدا ہوااور عورت نے عدت ختم ہونے کا اقرارنہ کیا ہو اور دوسرے ورثا یہ اقرار کریں کہ یہ حمل میت کی موت کے وقت موجود تھا تو چھ ماہ کے بعد پیدا ہونے سے بھی وارث ہو جائے گا۔ (شامی ج ۵ ص ۷۰۲، شریفیہ ص ۱۳۲، سراجی ص ۵۸، عالمگیریج ۶ ص ۴۵۵)

مسئلہ ۶: مذکورہ بالا صورت میں بھی وہی حکم ہے کہ حمل کو مذکر و مؤنث مان کر علیحدہ علیحدہ دو مسئلے بنائیں جائیں گے اور ورثا کو دونوں مسئلوں میں سے جو ملتا ہو گا وہ دے دیا جائے گا اور باقی محفوظ رکھ کر بچہ پیدا ہونے کے بعد جو صورت ہوگی اس پر عمل کیا جائے گا۔ (شامی ج ۵ ص ۷۰۲)

توضیح : حمل مذکر ماننے کی صورت میں شوہر کو ۱۲ سہام اور حمل کو مؤنث ماننے کی صورت میں ۹ سہام ملیں گے لہذا اسے ۹ سہام دے دیئے جائیں گے اور ۳ سہام محفوظ رکھے جائیں گے ماں کوحمل مذکر ماننے کی صورت میں ۸ سہام اور مؤنث ماننے کی صورت میں ۶ سہام ملیں گے لہذا اسے ۶ سہام دئیے جائیں گے ۔ اس طرح دونوں کو ۱۵ سہام دینے کے بعد ۹ سہام محفوظ رہیں گے۔ اگر حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو یہ ۹ سہام اس کا حصہ ہے اس کو دے دیئے جائیں گے اور شوہر اور ماں اپنا پورا حصہ لے چکے تھے اس لئے کوئی تبدیلی نہیں ہو گی اور حمل سے لڑکا پیدا ہوا تو یہ بچہ ۴ سہام کا مستحق ہے لہذا ۴ سہام اس کو دے دیئے جائیں گے اور تین سہام شوہر کو اور ۲ سہام ماں کودیدئیے جائیں گے کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں اور انہیں کے حصہ سے یہ سہام محفوظ کئے گئے تھے۔ اس مسئلہ میں حمل کو لڑکا فرض کرنے کی صور تمیں چونکہ وہ بھائی ہے اس لئے عصبہ ہو گا اور ماں اور شوہر ذوی الفروض میں سے ہیں ان دونوں کا فرض حصہ نکالنے کے بعدجو باقی بچا وہ اس کو دے دیا گیا اور حمل کو مؤنث ماننے کی صورت میں وہ حقیقی بہن ہو گی اور ذوی الفروض میں ہونے کیوجہ سے نصف مال کی مستحق ہو گئی۔ لہذا ماں اورشوہر کے ساتھ مل کر اس کے حصے کی وجہ سے سے عول کیا گیا اور اسے اس کا فرض حصہ دیا گیا وہ عصبیت کے حصہ سے زیادہ ہے۔

مسئلہ ۷: حمل کی ان تمام صورتوں میں حمل میں ایک بچہ مان کر تخریج مسائل کی گئی ہے اس لئے اسی قول پر فتوی ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ حمل سے ایک سے زیادہ بچے پیداہوئے ہوں اسلئے تمام وارثوں کی طرف ضامن لیا

جائے گا تاکہ اگر زیادہ بچے پیدا ہوں تو ان وارثوں سے مال واپس دلانے کاوہ ضامن ذمہ دار ہو۔ (شامی ج ۵ص ۷۰۱، شریفیہ ص ۱۳۲ ، سراجی ص۵۸)

مسئلہ ۸: ان تمام مسائل میں حصہ محفوظ رکھنے کا حکم ان وارثوں کے حق میں ہے جن کا حصہ زیادہ سے کمی کی طرف تبدیل ہو جاتا ہے اور جن کاحصہ تبدیل نہیں ہوتا ہے ان کے حق میں محفوظ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں مثلاً دادی ، نانی اور حاملہ زوجہ اور جن وارثوں کی یہ حالت ہو کہ حمل کے مذکر و مؤنث ہونے کی صورت میں سے ایک صوررت میں محروم ہوتے ہیں اور ایک صورت میں وارث ہوتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں دیا جائے گا اور ان کا حصہ محفوظ بھی نہیں رکھا جائے گامثلاً بھائی اور چچا جب حاملہ زوجہ کے ساتھ ہوں تو اگر حمل سے لڑکا پیدا ہوا تو یہ لوگ محروم رہیں گے اور اگرلڑکی پیدا ہوئی تو یہ عصبہ ہو کر وارث ہو جائیں گے لہذا ان کے لئے کوئی حصہ محفوظ نہیں رکھاجائے گا۔ (شامی ج ۵ ص ۷۰۲)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button