ARTICLES

حلق یا تقصیر کے بغیر عمرہ کا احرام کھولنے والے کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میں کراچی سے ایااور عمرہ ادا کیا، پھر ایک دو روز بعد میں نے مسجد عائشہ سے عمرہ کا احرام باندھا اور ا کر طواف کیا اور سعی کی، حلق نہیں کروایا، اس لئے کہ میرے بال بالکل چھوٹے تھے ، میں نے سمجھا کہ یہ حلق کے قابل نہیں ہیں ، اس لئے مجھ پر لازم نہیں اور میں نے احرام کھول دیا اور اسے ایک دن گزر چکا ہے پھر کسی عالم نے مجھے بتایا کہ مجھ پر حلق لازم ہے ، اب میرے لئے شریعت کا کیا حکم ہے جب کہ دو دن بعد حج کے لئے منیٰ روانگی ہے ۔

(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں سائل پر لازم ہے کہ فورا حلق کروائے کیونکہ وہ احرام توڑنے کی نیت سے اب تک احرام سے باہر نہیں ہوا، اور اس پر ایک دم لازم ہو گیا جو اسے سرزمین حرم پر دینا لازم ہے اور ایک دم کے لزوم کی وجہ یہ ہے کہ سائل نے ممنوعات احرام کا ارتکاب جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، سر اور منہ ڈھکنا، خوشبو وغیرہا کا ارتکاب احرام سے نکلنے کے لئے اپنی جہالت کی بنا پر کیا ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفور حارثی ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

پس چنیں خارج نہ گردد بہ نیت رفض و احلال وواجب اید برایں شخص دم واحد برائے جمیع انچہ ارتکاب کرد ہر چند کہ ارتکاب کرد جمیع محظورات را، متعدد نشود بروئے جزاء بہ تعدد جنایات چون نیت کردہ است رفض احرام را زیرانکہ او ارتکاب نمودہ است محظورات را بتاویل اگرچہ فاسد است، معتبر باشد در رفع ضمانات دنیویہ، پس گویا کہ موجود شدند این ہمہ محظورات از جہتہ واحدہ بسببی واحد، پس متعدد نگردد جراء بروئے این مذہب ماست، و نزد امام شافعی پس لازم اید بروے برائے ہر محظورے علیحدہ جزاء (131)

یعنی، اس طرح احرام توڑنے اور حلال ہونے کی نیت سے بھی احرام سے خارج نہ ہو گا ہر چند کہ اس نے تمام ممنوعات کا مرتکب کیا ہو، اور جب اس نے احرام توڑنے کی نیت کر لی تو متعدد جنایات پر متعدد جزائیں اس لئے واجب نہ ہوں گی کہ ان ممنوعات کا ارتکاب اس نے تاویل سے کیا ہے ، اور تاویل گو کہ فاسد ہے مگر وہ دنیوی (132) ضمانتوں کے اٹھ جانے میں معتبر ہو گی، پس گویا کہ یہ تمام ممنوعات ایک ہی جہت سے ایک ہی سبب سے واقع ہوئے ، اس لئے جزائیں بھی اس پر متعدد واجب نہ ہوں گی، یہ ہمارا مذہب ہے ، مگر امام شافعی کے نزدیک ہر ممنوع (کے ارتکاب پر) جزاء علیحدہ ہو گی۔ ہمارا اور امام شافعی علیہ الرحمہ کے مابین اختلاف اس صورت میں ہے جب یہ شخص احرام توڑنے کے ارادے سے ایسا کرے اور جہالت کی بنا پر سمجھ لے کہ اب وہ احرام سے نکل گیا ورنہ ہر جرم پر الگ کفارہ لازم ہو گیا، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی لکھتے ہیں :

واین اختلاف وقتی ست کہ شخص مذکور کہ نیت رفض احرام کردہ است گمان می برد بسبب جہل خود کہ او خارج گشتہ است از احرام بسبب این قصد و اما کسی کہ می درند کہ خارج نشدہ ام من از احرام بسبب این قصد پس معتبر نباشد از وی قصد رفض و متعدد گردد جزا بروے بہ تعدد جنایات اتفاقا بیننا و بین الشافعی چنانکہ متعدد می گردد اتفاقا بر شخصے کہ قصد نہ کردہ است رفض را اصلا (133)

یعنی، یہ اختلاف بھی اس وقت ہے جب اس شخص نے (ان ممنوعات کے ارتکاب میں ) احرام توڑنے کی نیت کی ہو اور اپنی جہالت سے یہ سمجھ لیا ہو کہ اس نیت سے وہ احرام سے نکل گیا، لیکن اگر کوئی یہ جانتا ہے کہ میں اس نیت سے احرام سے نہیں نکلا ہوں تو ایسے شخص سے احرام توڑنے کی نیت معتبر نہیں ہو گی، اس پر ہمارے اور امام شافعی کے نزدیک بالاتفاق ہر جنایت پر علیحدہ جزا واجب ہو گی جیسا کہ باتفاق احناف و شوافع اس شخص پر جزائیں متعدد ہوں گی، جس نے احرام توڑنے کی سرے سے نیت ہی نہ کی ہو۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

یوم الخمیس، 5 ذوالحجۃ 1431ھ، 11 نوفمبر 2010 م 683-F

حوالہ جات

131۔ حیات القلوب فی زیارت المحبوب، باب اول در بیان احرام، فصل دہم : در بیان کیفیت خروج از احرام، ص103

132۔ علامہ کرمانی حنفی اور ملا علی قاری حنفی نے بھی لکھا ہے کہ وہ دنیاوی ضمانتوں کے اٹھ جانے میں مفید ہو گی جیسا کہ ہمارے فتوی ’’فاسد تاویل سے ممنوعات احرام کے مرتکب میں مذاہب‘‘ میں مذکور ہے ۔

133۔ حیات القلوب فی زیارت المحبوب، باب اول دربیان احرام، فصل دہم : در بیان کیفیت خروج از احرام، ص103، 104

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button