بہار شریعت

حلف کے متعلق مسائل

حلف کے متعلق مسائل

مسئلہ۱: قسم اللہ عزوجل کی کھائی جائے غیر خدا کی قسم نہ کھلائی جائے اگر قسم تغلیظ (سختی کرنا) چاہیں تو صفات کا اضافہ کریں مثلاً واللہ العظیم ۔قسم ہے خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو عالم الغیب و الشہاد ہ رحمن رحیم ہے اس شخص کا میرے ذمہ نہ مال ہے جس کا دعوی کرتا ہے نہ اس کا کوئی جز ہے (ہدایہ)

مسئلہ ۲: تغلیظ میں اس سے کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے ۔ الفاظٍ مذکورہ پر الفاظ بڑھادے یا کم کردے قاضی کو اختیار ہے مگر یہ ضرور ہے کہ صفات کا ذکر بغیر حرف عطف ہو یہ نہ کہے واللہ والرحمن والرحیم کہ اس صورت میں عطف کے ساتھ جتنے اسما ذکر کیئے جائیں گے اتنی قسمیں ہوجائیں گی اور یہ خلاف شرع ہے کیونکہ شرعاًاس پر ایک یمین کا مطالبہ ہے ۔ بعض فقہا یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلاح و تقوی کے ساتھ معروف ہو اس پر تغلیظ نہ کی جائے دوسروں پر کی جائے بعض یہ بھی کہتے ہیں مال حقیر میں تغلیظ نہ کی جائے اور مال کثیر میں تغلیظ کی جائے (ہدایہ)

متعلقہ مضامین

مسئلہ ۳: طلاق وعتاق کی یمین نہ ہونی چاہیے یعنی مدعی علیہ سے مثلاًیہ نہ کہلوا یا جائے کہ اگر مدعی کا یہ حق میرے ذمہ ہو تو میری عورت کو طلاق یا میرا غلام آزاد بعض فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر مدعی علیہ بے باک ہے اللہ عزوجل کی قسم کھانے میں پرواہ نہیں کرتا اور طلاق وعتاق کی قسم میں گھبراتا اور ڈرتا ہے کہ بی بی یا غلام کہیں ہاتھ سے نہ چلے جائیں ایسے لوگوں کو طلاق وعتاق کا حلف دیاجائے مگر اس قول پر اگر بضر ورت قاضی نے عمل کیا اور نکول پر مدعی کو مال دلوادیا یہ قضا نافذنہیں ہوگی (ہدایہ، نتائج الافکار) ۔

مسئلہ ۴: حلف میں تغلیظ زمان یا مکان کے اعتبار سے نہ کی جائے ۔ مثلاً عصر کے بعد یا جمعہ کے دن کو مخصوص کرنا یا اس سے کہنا کہ مسجد میں چل کرقسم کھائو فلاں بزرگ کے مزار کے سامنے چل کر قسم کھائو (ہدایہ، درمختار،وغیرہما)

مسئلہ ۵: اس زمانہ میں تغلیظ یا حلف کی ایک صورت بہت زیادہ مشہور ہے کہ قرآن مجید ہاتھ میں دے کر کچھ الفاظ کہلواتے ہیں مثلاًاسی قرآن کی مارپڑے، ایمان پر خاتمہ نہ ہو، خدا کا دیدار نصیب نہ ہو، شفاعت نصیب نہ ہو، یہ سب باتیں خلافٍ شرع ہیں مصحف شریف ہاتھ میں ا ٹھانا حلفٍ شرعی نہیں ۔ غالباًحلف اٹھانے کا محاورہ لوگوں نے یہیں سے لیا ہے ۔ مدعی علیہ اگر اس قسم سے انکار کر دے تو دعوی اس پر لازم نہیں کیا جائے گا بلکہ انکار ہی کرنا چاہیے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میں مسجد میں رکھ دیتا ہوں یا فلاں بزرگ کے مزار پر رکھ دیتا ہوں تمھارا ہو تو چل کر اٹھا لو اگر حقیقت میں مدعی کا نہیں ہے اور اٹھالیا تو مدعی علیہ اس سے واپس لے سکتا ہے کہ استحقا ق کا یہ شرعی طریقہ نہیں ہے ۔

مسئلہ ۶ : یہودی کو یوں قسم دی جائے قسم ہے خدا کی جس نے موسے علیہ السلام پر توریت نازل فرمائی اور نصرانی کو یوں کہ قسم ہے خدا کی جس نے عیسے علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی اور دیگر کفار سے یہ کہلوایا جائے خدا کی قسم ۔ ان لوگوں سے حلف لینے میں ایسی چیزیں ذکر نہ کرے جنکی یہ لوگ تعظیم کرتے ہیں (ہدایہ )

مسئلہ ۷ : ان کفار سے حلف لینے میں ایسا ہرگز نہ کیا جائے کہ ان کے عبادت خانوں میں جاکر قسم دی جائے کہ مسلمان کو ایسی لعنت کی جگہ جانا منع ہے (ہدایہ)

مسئلہ ۸: معاذ اللہ ہنود کو ان کے معبودا ن باطل کی قسم دینا جیسا کہ بعض جاہلو ں میں دیکھا جاتا ہے اس کا حکم سخت ہے تو بہ کرنی چاہئیے ۔ اسی طرح ان سے کہنا کہ گنگا جل ہا تھ میں لیکر کہدو ان کے علاوہ اور ناجائز و باطل صورتیں ہیں جن سے احتراز لازم۔

مسئلہ ۹: جس چیز پر حلف دیا جائے وہ کیا ہے۔ بعض صورتوں میں سبب پر قسم کھلاتے ہیں بعض میں نہیں ۔ اگر سبب ایسا ہو جو مرتفع ہو جاتا ہے تو حاصل پر قسم کھلائی جائے اور اگر مرتفع نہ ہو تو سبب پر قسم کھائے۔ اسکی چند صورتیں ہیں مدعی نے دین کا دعوی کیا ہے یا عین میں ملک کا دعوی ہے یا عین میں کسی حق کا دعوی ہے پھر ہر ایک میں مطلق کا دعوی ہے یا کسی سبب کے متعلق مسائل ہے ۔اگر دین کا دعوی ہو اور سبب نہ ہو تو حاصل پر حلف دیں گے یعنی تمھارا میرے ذمہ میں کچھ نہیں ہے۔عین حاضر میں ملک مطلق یا حق مطلق کا دعوی ہو تو حاصل پر حلف دیں گے مثلاً کہتا ہے میرا اس پر دین ہے اس سبب سے کہ میں نے قرض دیا ہے یا اس نے مجھ سے کوئی چیز خریدی ہے اس کے دام باقی ہیں یا یہ چیز میری ملک ہے اس لیے کہ میں نے خریدی ہے یا مجھے فلاں نے ہبہ کی ہے یا اس شخص نے غصب کرلی ہے یا اس کے پاس امانت یا عاریت ہے ان سب صورتوں میں حاصل پر حلف دیں گے مثلاًبیع کا مدعی ہے اور وہ منکر ہے قسم یوں کھلائی جائے کہ میرے اور اس کے درمیان میں بیع قائم نہیں یوں قسم نہ کھلائی جائے کہ میں نے بیچی نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس نے بیچ کر اقالہ کر دیا ہوتو بیع نہ کرنے پر قسم دینا مدعی علیہ کے لیے مضر ہوگا۔غصب میں یوں قسم کھائے اس چیز کے رد کرنے کا مجھ پر حق نہیں یہ نہیں کہ میں نے غصب نہیں کی کیونکہ کبھی چیز غصب کرلیتے ہیں پھر ہبہ یا بیع کے ذریعہ سے مالک ہو جاتے ہیں ۔ طلاق کے دعوے میں یہ قسم کھلائی جائے وہ میرے نکاح سے اس وقت باہر نہیں ہے ۔ کیونکہ بائن طلاق دے کر پھر تجدیدٍ نکاح ہوجاتی ہے لہذا ان سب صورتوں میں حاصل پر قسم دی جائے کیونکہ سبب پر قسم دینے میں مدعی علیہ کا نقصان ہے۔ ہاں اگر حاصل پر قسم دینے میں مدعی کا ضرر ہو تو ایسی صورتوں میں سبب پر حلف دیاجائے مثلاً عورت کو تین طلاقیں دی ہیں وہ نفقہء عدت کا دعوی کرتی ہے اور شوہر شافعی ہے جس کا مذہب یہ ہے کہ ایسی عورت کا نفقہء واجب نہیں ہے اگر حاصل پر قسم دی جائے گی تو بے شک وہ قسم کھالے گا کہ مجھ پر نفقہء عدت واجب نہیں ہے ۔کیونکہ اس کا اعتقاد ومذہب یہی ہے یا جوار کی وجہ سے شفعہ کا دعوی کیا اور مشتری شافعی المذہب ہے اس کا مذہب یہ ہے کہ جوار کی وجہ سے شفعہ کا حق نہیں ہے حاصل پر اگر حلف دیں گے تو وہ قسم کھالے گا کہ اس کو حق شفعہ نہیں ہے اور اس میں مدعی کا نقصان ہے لہذا اس کو یہ قسم دیں گے کہ خدا کی قسم جائداد مشفوعہ کو اس نے خریدا نہیں (ہدایہ وغیرہ)

مسئلہ۱۰: مدعی علیہ خرید نے کا اقرار کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ وہ مکان مدعی کے پڑ وس میں ہے مگر جب اسے خریداری کی اطلاع ہوئی اس نے طلب شفعہ نہیں کیا لہذا حق شفعہ ساقط ہے ۔ شفیع کہتا ہے میں نے طلب کیا اس صورت میں شفیع کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہے (عالمگیری)

مسئلہ۱۱: عورت نے رجعی طلاق کا دعوی کیا اس بات پر قسم کھلائی جائے کہ وہ اس وقت ایک طلاق یا تین طلاق سے با ئن نہیں ہے۔ یو ہیں اگر عورت نے طلاق کا دعوی نہیں کیا مگر ایک شخص عادل یا چند اشخاص فساق نے قاضی کے پاس طلاق کی شہادت دی اور شوہر منکر ہے ۔ یہاں قاضی شوہر کو قسم دے گا احتیاط کا مقتضی یہی ہے کہ شوہر کو قسم دے ( عالمگیری )

مسئلہ۱۲: عورت نے دعوی کیا کہ میں نے شوہر سے طلاق دینے کی درخواست کی تھی شوہر نے کہا تمھارا امر تمھارے ہاتھ میں ہے یعنی اس نے تفویض طلاق کی میں نے بمقتضائے تفویض طلاق دے لی اور میں شوہر پر حرام ہوگئی ۔ شوہر کہتا ہے میں نے اختیار طلاق دیا ہی نہیں اس صورت میں حاصل پر قسم نہیں کھلائی جائے گی بلکہ سبب پر قسم کھائے یوں کہے واللہ میں نے سوال طلاق کے بعد اس کا امر اس کے ہاتھ میں نہیں دیا اور نہ میرے علم میں یہ بات ہے کہ اس نے مجلس تفویض میں اس تفویض کی رو سے اپنے نفس کو اختیارکیا۔ اور اگر شوہر تفویض طلاق کا اقرار کرتا ہے اور اس سے انکار کرتا ہے کہ عورت نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو شوہر یوں قسم کہائے کہ واللہ میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس نے مجلس تفویض میں اپنے نفس کو اختیار کیا اور اگر شوہر تفویض سے انکار کرتا ہے اور یہ اقرار کرتا ہے کہ عورت نے اپنی نفس کو اختیار کیایوں قسم کھائے واللہ عورت کے اختیار کرنے سے پہلے میں نے اس مجلس میں اسے تفویض طلاق نہیں کی (عالمگیری)

مسئلہ۱۳: دعوی کیا کہ فلاں چیز میں نے فلاں شخص کے پاس ودیعت رکھی ہے مدعی علیہ کہتا ہے تو نے تنہا نہیں رکھی ہے بلکہ تو اور فلاں شخص دونوں نے ودیعت رکھی ہے ۔تو یہ چاہتا ہے کہ کل چیز تجھے دے دوں یہ نہیں کروں گا مدعی علیہ پر قسم دی جائے کہ واللہ اس پوری چیز کا فلاں پر واپس کرنامجھ پر واجب نہیں قسم کھا لے گا دعوی خارج ہو جائے گا (عالمگیری)

مسئلہ۱۴: اجارہ یا مزارعت میں نزاع ہے تو منکر یوں قسم کھائے واللہ میرے اور فلاں کے ما بین اس مکان کے متعلق اجارہ قائم نہیں ہے یا اس کھیت کے متعلق مزارعت قائم نہیں ہے (عالمگیری)

مسئلہ۱۵: مدعی نے اجرت کا دعوی کیا اور مدعی علیہ منکر ہے یوں قسم کھائے واللہ اس شخص کی میرے ذمہ وہ اجرت نہیں ہے جس کا وہ مدعی ہے (عالمگیری)

مسئلہ۱۶: یہ دعوی کیا کہ فلاں شخص نے میرا کپڑا پھاڑ دیا اور کپڑا قاضی کے پاس پیش کرتا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ مدعی علیہ پر حلف دے دیا جائے۔ قاضی یہ قسم نہ دے کہ میں نے پھاڑا نہیں کیونکہ کبھی پھاڑنا ایسا ہوتا ہے جس کا حکم یہ ہے کہ پھٹنے سے جو اس کپڑے میں کمی ہو گئی ہے وہی لے سکتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ پھٹا ہوا کپڑا پھاڑنے والے کو دے کر اس سے کپڑے کی قیمت کا تاوان لے مثلاً تھوڑا سا پھاڑا ہو اس صورت میں اچھے کپڑے اور پھٹے ہوئی کی قیمت معلوم کریں جو فرق ہو وہ پھاڑنے والے سے وصول کیا جائے اور یوں قسم کھائے واللہ مجھ پر اتنے روپے واجب نہیں اور اگر زیادہ پھٹا ہے تو مدعی کو اختیار ہے کپڑا لے لے اور نقصان کا تاوان لے یا کپڑا دے دے اور اس کی قیمت کا تاوان لے اس صورت میں یہ قسم کھائے کہ میں نے اس طرح نہیں پھاڑا ہے جس کا مدعی نے دعوی کیا (عالمگیری)

مسئلہ ۱۷ : ایک شخص کے پاس ایک چیز ہے ۔ دو شخصوں نے اس پر دعوی کیا ہر ایک کہتا ہے چیز میری ہے اس نے غصب کرلی ہے یا میں نے اس کے پاس امانت رکھی ہے۔ اس مدعی علیہ نے ایک کے لیے اقرار کرلیا کہ اسکی ہے اور دوسرے کے لیے انکار کردیا ۔ حکم ہوگا کہ چیز مقرلہ کو دیدے اب دوسرا شخص مدعی علیہ سے حلف لینا چاہتا ہو نہیں لے سکتا کیونکہ اس کے قبضہ میں چیز نہیں رہی وہ مدعی علیہ نہیں رہا اس کو اگر خصومت کرنی ہو مقرلہ سے کرے کہ اب وہی قابض ہے اگر یہ شخص یہ کہے کہ اس نے دوسرے کے لیے اس غرض سے اقرار کیا کہ اپنے سے یمین کو دفع کرے لہذا قسم دی جائے قاضی اس کی بات قبول نہ کر ے۔ اور اگر دونوں کے لیے اس نے اقرار کیا دونوں کو تسلیم کردی جائے گی اب ان میں سے اگر کوئی یہ چاہے کہ نصف باقی کے متعلق مدعی علیہ پر حلف دیا جائے یہ بات نامقبول ہے اور اگر دونوں کے مقابل میں اس نے انکار کیا تو دونوں کے مقابل میں حلف دیا جائے (عالمگیری )

امسئلہ ۱۸ : ایک شخص نے باپ کے ترکے کی ایک زمین ہبہ کردی اور موہوب لہ کو قبضہ بھی دے دیا اس کے بعد اس میت کی زوجہ دعوی کرتی ہے کہ یہ زمین میری ہے کیونکہ اس زمین کے ہبہ کرنے کے بعد ترکہ تقسیم ہوا اور یہ زمین میرے حصہ میں آئی موہوب لہ یہ کہتا ہے کہ تقسیم کے بعد زمین کا ہبہ ہوا اور یہ زمین واہب کے حصہ میں پڑی تھی اور موہوب لہ اپنی بات کو گواہوں سے ثابت نہ کرسکا اور عورت نے اپنی بات پر قسم کھالی موہوب دیگر ورثہ پر حلف نہیں دے سکتا حکم یہ ہوگا کہ زمین واپس کرے (عالمگیری )

مسئلہ ۱۹ : اگر سبب ایسا ہے جومرتفع نہیں ہوتا تو سبب پر حلف دیں گے مثلاً غلام مسلم نے مولے پر عتق کا دعوی کیا اور مولے منکر ہے اسے یہ قسم دیں گے کہ خدا کی قسم اسے آزاد نہیں کیا ہے ( ہدایہ)

مسئلہ ۲۰: مدعی علیہ پر حلف دیا گیا وہ کہتا ہے اس معاملہ میں ایک مرتبہ مجھ سے قسم کھلوا چکا ہے اگر وہ پہلا حلف کسی حاکم یا پنچ کے سامنے ہوا ہے اور گواہوں سے مدعی علیہ نے یہ ثابت کردیا تو قبول کرلیا جائے گا ورنہ مدعی جو اس حلف سے منکر ہے اس کو قسم کھانی ہوگی ۔ اور اگرمدعی علیہ یہ کہتا ہے کہ مدعی نے مجھے اس دعوے سے بری کردیا ہے اور مدعی منکر ہے اور مدعی علیہ اپنی اس بات پر گواہ نہیں پیش کرتا بلکہ مدعی کو حلف دینا چاہتا ہے تو اس پر حلف نہیں دیا جائے گا کیونکہ دعوے کا جواب اقرار یا انکا رہے اور یہ جو اس نے کہا یہ جواب نہیں اور اگر مدعی علیہ یہ کہتا ہے کہ مدعی نے مجھے مال سے بری کردیا ہے یعنی معاف کردیا ہے اور گواہوں سے ثابت کردیا تو بری ہوگیا مدعی کادعوی ساقط ورنہ مدعی پر حلف دیا جائے گا وہ قسم کھائے کہ میں نے معاف نہیں کیا تو مطالبہ دلایا جائے گا کیونکہ معاف کرنا ثابت نہیں ہوا اور مال واجب ہونے کو خود مدعی علیہ نے معافی کا دعوی کرکے تسلیم کرلیا اور اگر قسم سے انکار کرے تو دعوی خارج ( درمختار، ردالمحتار )

مسئلہ ۲۱: مدعی علیہ پرحلف دیا گیا وہ کہتا ہے میں نے حلف کرلیا ہے کہ کبھی قسم نہیں کھائوں گا اگر قسم کھائوں تو میری بی بی پر طلاق اس حلف کی وجہ سے قسم کھانے سے مجبور ہوں ۔ اس بات کی طرف قاضی التفاف نہ کرے گا بلکہ تین مرتبہ اس پر حلف پیش کرے گا اگر قسم نہیں کھائے گا اس کے خلاف فیصلہ کردے گا (درمختار ردالمحتار)

تحالف کے متعلق مسائل

بعض ایسی صورتیں ہیں کہ مدعی ومدعی علیہ دونوں کو قسم کھانا پڑتا ہے ۔اس کو تحالف کہتے ہیں ۔

مسئلہ ۱: بائع ومشتری میں اختلاف ہوا اسکی چند صورتیں ہیں ۔(۱)مقدار ثمن میں اختلاف ہے ۔ ایک کہتا ہے پانچ روپیہ ثمن ہے دوسرا کہتا ہے دس روپے ہے(۲) وصف ثمن میں اختلاف ہے ایک کہتا ہے کہ اس قسم کا روپیہ ہے دوسرا کہتا ہے اس قسم کا ہے(۳) جنس ثمن میں اختلاف ہے ایک کہتا ہے روپے سے بیع ہوئی دوسرا کہتا ہے اشرفی سے(۴) مقدارمبیع اختلاف ہے ایک کہتا ہے من بھر گہیوں دوسرا کہتا ہے دومن گہیوں ان تمام صورتوں میں حکم یہ کہ جواپنے دعوے کو گواہوں سے ثابت کردے گا اس کے موافق فیصلہ ہوگا اور اگر دونوں نے اپنے اپنے دعوے کو گواہوں سے ثابت کیاتو اس کے موافق فیصلہ ہوگا جو زیادتی کا دعوی کرتا ہے۔ اور اگر فرض کیا جائے کہ بائع کہتا ہے دس روپے میں ایک من گہیوں بیچے اور مشتری کہتا ہے کہ پانچ روپے میں دومن خریدے اور دونوں نے گواہ پیش کئیے تو فیصلہ ہوگا کہ دس روپے مشتری دے اور دومن گہیوں لے یعنی بائع نے ثمن زیادہ بتایا اس میں اس کا بینہ معتبر اور مشتری نے مبیع زیادہ بتائی اس میں اس کے گواہ معتبر اور اگر صورت یہ ہے کہ دونوں گواہ پیش کرنے سے عاجز ہے تو مشتری سے کہا جائے گا کہ بائع نے جو ثمن بتایا ہے اس پر راضی ہو جا ورنہ بیع کو فسخ کردیا جائے گا ۔ اگر ان میں ایک دوسرے کی بات مان لینے پر راضی ہو جائے تو نزاع ختم اور اگر دونوں میں کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں تو دونوں پر حلف دیا جائے گا (ہدایہ، درمختار)

مسئلہ۲: اگر روپے اشرفی سے بیع ہوئی تو پہلے مشتری کو حلف دیں گے اس کے بعد بائع کو اور بیع مقایضہ ہے یعنی دونوں طرف متاع ہے تو قاضی کو اختیار ہے جس سے چاہے پہلے قسم لے اورر جس سے چاہے پیچھے اگر قسم سے انکار کردیا تو جو قسم سے انکار کریگا دوسرے کا دعوی اس کے ذمہ لازم کردیا جائیگا اور دونوں نے قسم کھالی تو بیع فسخ کردی جائیگی کہ قطع نزاع کی کوئی صورت اسکے سوا نہیں (ہدایہ)

مسئلہ۳: محض تحالف سے بیع فسخ نہیں ہوگی جب تک دونوں متفق ہو کر فسخ نہ کریں یا ان میں سے کسی کے کہنے سے قاضی فسخ نہ کردے (درمختار)

مسئلہ۴: تحالف اس وقت ہوگا جب بیع موجود ہو اگر ہلاک ہو گئی سے تو تحالف نہیں بلکہ اگر بائع کے پاس ہلاک ہوئی بیع ہی فسخ ہو چکی تحالف سے کیا فائدہ اور اگر مشتری کے یہاں ہلاک ہوئی تو مبیع میں کوئی اختلاف نہیں ثمن کاجھگڑا ہے گواہ نہیں ہیں تو قسم کے ساتھ مشتری کا تول معتبر ہے یوہیں اگرمبیع ملک مشتری سے خارج ہو چکی یا اس میں ایسا عیب پیدا ہوا کہ اب واپس نہ ہو سکے اس صورت میں بھی صرف مشتری پر حلف ہے یامبیع میں کوئی ایسی زیادتی ہو گئی کہ روکے لیے مانع ہو زیادت متصلہ ہو یا منفصلہ تو تحالف نہیں ہاں اگر مبیع کو بائع کے پاس غیر مشتری نے ہلاک کیا ہو تو اس کی قیمت مبیع کے قائم ہے اور اس صورت میں تحالف ہے (درمختا، ہدایہ)

مسئلہ ۵: بیع مقایضہ میں دونوں چیزیں مبیع ہیں دونوں میں سے ایک بھی باقی ہو تحالف ہوگا اور دونوں جاتی رہیں تحالف نہیں (ہدایہ )

مسئلہ ۶: مبیع کا ایک حصہ ہلاک ہوچکا یا ملک مشتری سے خارج ہوگیا مثلاً دو چیزیں ایک عقد میں خریدی تھیں ان میں سے ایک ہلاک ہوگئی اس صورت میں تحالف نہیں ہے ۔ ہاں اگر اس پر تیار ہوجائے کہ جو جز مبیع کا ہلاک ہوگیا اس کے مقابل میں ثمن کا جو حصہ مشتری بتاتاہے اسے ترک کردے تو تحالف ہے (ہدایہ ) ۔

مسئلہ ۷: اگرمبیع پر مشتری کا قبضہ نہیں ہوا ہے تو تحالف موافق قیاس ہے کہ بائع زیادت ثمن کا دعوی کرتا ہے اور مشتری منکر ہے ۔ اور منکر پر حلف ہے اور مشتری یہ کہتا ہے کہ اتنا ثمن لے کر تسلیم مبیع کرنا تم پر واجب ہے اور بائع اس کا منکر ہے یعنی دونوں منکر ہیں لہذا دونوں پر حلف ہے اورمبیع پر جب مشتری نے قبضہ کرلیا تو اب مشتری کا دعوی نہیں صرف بائع مدعی ہے اور مشتری منکر اس صورت میں تحالف خلاف قیاس ہے مگر حدیث سے تحالف اس صورت میں بھی ثابت ہے لہذا ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں ۔ اور قیاس کو چھوڑ تے ہیں (ہدایہ)

مسئلہ ۸ : تحالف کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً بائع یہ قسم کھائے واللہ میں نے اسے ایک ہزار میں نہیں بیچا ہے اور مشتری قسم کھائے کہ واللہ میں نے اسے دو ہزار میں نہیں خریدا ہے اور بعض علما نفی و اثبات دونوں کو بطورتاکید جمع کرتے ہیں مثلاً بائع کہے واللہ میں نے اسے ایک ہزار میں نہیں بیچا ہے بلکہ دو ہزار میں بیچا ہے اور مشتری کہے واللہ میں نے اسے دوہزار میں نہیں خریدا ہے بلکہ ایک ہزار میں میں خریدا ہے۔ مگر پہلی صورت ٹھیک ہے ۔ کیونکہ یمین اثبات کے لیے نہیں بلکہ نفی کے لیے ہے (ہدایہ )

مسئلہ ۹: تحالف اس وقت ہے کہ بدل میں اختلاف مقصود ہواوراگر ثمن میں اختلاف ضمنی طور پر ہوتو تحالف نہیں مثلاً ایک شخص نے روپیہ سیر کے حساب سے گھی بیچا اور برتن سمیت تول دیا کہ گھی خالی کرنے کے بعد پھر تول لیا جائے گا جو برتن کا وزن ہوگا منہا کردیا جائے گا۔اس وقت گھی برتن سمیت دس سیر ہوا مشتری برتن خا لی کرکے لاتا ہے بائع کہتا ہے یہ برتن میرا نہیں یہ تو دو سیر وزن کا ہے۔ اور میرا برتن سیر بھر کا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ بائع نو سیر گھی کے دام مانگتا ہے اور مشتری آٹھ سیر کے دام اپنے اوپر واجب بتاتاہے۔یہاں ثمن میں اختلاف ہوا مگربرتن کے ضمن میں ہے لہذا تحالف نہیں (درمختار)

مسئلہ۱۰: ثمن یا مبیع کے سوا کسی دوسری چیز میں اختلاف ہو تو تحالف نہیں مثلاً مشتری کہتا ہے کہ ثمن کے لیے میعاد تھی اور بائع کہتا ہے نہ تھی بائع منکر ہے اسی کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے یا ثمن کی میعاد ہے مگر بائع کہتا ہے یہ شرط تھی کہ کوئی چیز مشتری رہن رکھے گا مشتری انکار کرتا ہے یا ایک خیار شرط کا مدعی ہے دوسرا منکر ہے یا ثمن کے لیے ضامن کی شرط تھی یا نہ تھی یا ثمن یامبیع کے قبضہ میں اختلاف ہے یا ثمن کے معاف کرنے یا اس کا کوئی جز کم کرنے میں اختلاف ہے یا مسلم فیہ کی جائے تسلیم میں اختلاف ہے ان سب صورتو ں میں ،منکر پر حلف ہے اور حلف کے ساتھ اسی کا قول معتبر (درمختار،عالمگیری )

مسئلہ ۱۱: نفس عقد بیع میں اختلاف ہے ایک کہتا ہے بیع ہوئی ہے دوسرا کہتا ہے نہیں ہوئی اس میں تحالف نہیں بلکہ جو منکر بیع ہے اسی کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے (عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: جنس ثمن کا اختلاف اگر چہ مبیع کے ہلاک ہونے کے بعد ہو ایک کہتا ہے ثمن روپیہ ہے دوسرا اشرفی بتاتا ہے اس میں تحالف ہے اور دونوں قسم کھاجائیں تو مشتری پر مبیع کی واجبی قیمت لازم ہوگی (درمختار)

مسئلہ ۱۳: بائع کہتا ہے یہ چیز میں نے تمھارے ہاتھ سو روپے میں بیع کی ہے جس کی میعاد دس ماہ ہے یوں کہ ہر ماہ میں دس روپے دواور مشتری یہ کہتا ہے میں نے یہ چیز تم سے پچاس روپے میں خریدی ہے ڈھائی روپے ماہوار مجھے ادا کرنے ہیں یوں کل میعاد بیس ماہ ہے دونوں نے گواہ پیش کردئیے اس صورت میں دونوں شہادتیں مقبول ہیں چھ ماہ تک بائع مشتری سے دس روپے ماہوار وصول کر ے گا ۔اور ساتویں مہینے میں ساڑھے سات روپے اسکے بعد ہر ماہ میں ڈھائی روپے یہاں تک کہ سوروپے کی پوری رقم ادا ہوجائے (بحرالرائق)

مسئلہ ۱۴: بیع سلم میں اقالہ کرنے کے بعد راس المال کی مقدار میں اختلاف ہوا اس میں تحالف نہیں ہے ۔ کیونکہ یہاں صرف رب ا لسلم مدعی ہے اور مسلم الیہ منکر جو کچھ مسلم الیہ کہتا ہے اسی کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے (درمختار)

مسئلہ ۱۵: بیع میں اقالہ کے بعد ثمن کی مقدار میں اختلاف ہوا مثلاً مشتری ایک ہزار بتاتاہے اور بائع پانچ سو کہتا ہے اور دونوں کے پاس گواہ نہیں دونوں پر حلف دیا جائے اگر دونوں قسم کھا جائیں اقالہ کو فسخ کیا جائے ۔ اب پہلی مبیع لوٹ آئے گی ۔یہ حکم اس وقت ہے کہ بیع کا اقالہ ہوچکا ہے مگر ابھی تک مبیع پر مشتری کا قبضہ ہے اب تک اس نے واپس نہیں کی ہے اور اگر اقالہ کے بعد مشتری نے مبیع واپس کردی اس کے بعدثمن کی کمی وبیشی میں اختلاف ہوا تو تحالف نہیں بلکہ بائع پر حلف ہوگا کہ یہی ثمن کم بتاتا ہے اور زیادتی کامنکر ہے (بحرالرائق )

مسئلہ ۱۶: زوجین میں مہر کی کمی بیشی میں اختلاف ہوا یا اس میں ختلاف ہوا کہ وہ کس جنس کا تھا دونوں میں جو گواہ پیش کرے اس کے موافق فیصلہ ہوگا اور اگر دونوں نے گواہوں سے ثابت کیا تو دیکھا جائے گا کہ مہر مثل کسی کی تائید کرتا ہے مرد کی یا عورت کی مثلاً مرد یہ کہتا ہے کہ مہر ایک ہزار تھا۔اور عورت دو ہزار بتاتی ہے تو اگر مہر مثل شوہر کی تائید میں ہے یعنی ایک ہزار یا کم تو عورت کے گواہ معتبر اور مہر مثل عورت کی تائید کرتا ہو یعنی دو ہزار یا زیادہ تو شوہرکے گواہ معتبر اور اگر مہر مثل کسی کی تائید میں نہ ہوبلکہ دونوں کے مابین ہو مثلاً ڈیڑھ ہزار تو دونوں کے گواہ بیکار اور مہر مثل دلایا جائے۔ اور اگر دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تو تحالف ہے اور فرض کرو دونوں نے قسم کھالی تو اس کی وجہ سے نکاح فسخ نہیں ہوگا بلکہ یہ قرار پائے گا کہ نکاح میں کوئی مہر مقرر نہیں ہو اور اسکی وجہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا بخلاف بیع کہ وہاں ثمن کے نہ ہونے سے بیع نہیں رہ سکتی لہذا فسخ کرنا پڑتا ہے تحالف کی صورت میں پہلے کون قسم کھائے اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ قرعہ ڈالا جائے۔ جس کا نام نکلے وہی پہلے قسم کھائے اور بعض کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ پہلے شوہر پر حلف دیا جائے اور قسم سے جو نکول کرے گا اس پردوسرے کا دعوی لازم اور اگر دونوں نے قسم کھالی تو مہر کا مسمی ہونا ثابت نہیں ہوا اور مہر مثل کو جس کے قول کی تائید میں پائیں گے اسی کے موافق حکم دیں گے یعنی اگر مہر مثل اتنا ہے جتنا شوہر کہتا ہے یا اس سے بھی کم تو شوہر کے قول کے موافق فیصلہ ہوگا اور اگر مہر اتنا ہے جتنا عورت کہتی ہے یا اس سے بھی زیادہ تو عورت جو کہتی ہے اس کے موافق فیصلہ کیا جائے اور اگر مہر مثل دونوں کے درمیان میں ہوتو مہر مثل کا حکم دیا جائے (ہدایہ، بحر،درمختار)

مسئلہ۱۷: موجر اور مستاجر میں اجرت کی مقدار میں اختلاف ہے یا مدت اجارہ کے متعلق اختلاف ہے اگر یہ اختلاف منفعت حاصل کرنے سے پہلے ہے اور کسی کے پاس گواہ نہ ہوں تو تحالف ہے کیونکہ اس صورت میں ہر ایک مدعی اور ہر ایک منکر ہے اور دونوں قسم کھاجائیں تو اجارہ کوفسخ کردیاجائے ۔ اگر اجرت کی مقدار میں اختلاف ہے تو مستا جرسے پہلے قسم کھلائی جائے اور مدت میں اختلاف ہے تو موجر پہلے قسم کھائے۔ اور اگر دونوں کے پاس گواہ ہوں تو اجرت میں موجر کے گواہ معتبر ہیں اور مدت کے متعلق مستاجر کے گواہ معتبر اور اگر مدت و اجرت دونوں میں اختلاف ہو اور دونوں نے گواہ پیش کئیے تو مدت کے بارے میں مستاجر کے گواہ معتبر اور اجرت کے متعلق موجر کے معتبر۔ اور اگر یہ اختلاف منفعت حاصل کرنے کے بعد ہے تو تحالف نہیں بلکہ گواہ نہ ہونے کی صورت میں مستاجر پر حلف دیا جائے اور قسم کے ساتھ اسی کا قول معتبر اور اگر کچھ تھوڑی سی منفعت حاصل کرلی ہے کچھ باقی ہے ۔مثلاً ابھی پندرہ ہی دن مکان میں رہتے ہوئے گزرے ہیں اور اختلاف ہوا کہ کرایہ کیا ہے پانچ روپے ہے یا دس روپے یا میعاد کیا ہے ایک ماہ کا دو ماہ اس صورت میں تحالف ہے اگر دونوں قسم کھا جائیں تو جو مدت باقی ہے اس کا اجارہ فسخ کردیا جائے اور گزشتہ کے بارے میں مستاجر کے قول کے موافق فیصلہ ہو (ہدایہ)

مسئلہ ۱۸: اجارہ میں منفعت حاصل کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس مدت میں مستاجر تحصیل منفعت پر قادر ہو مثلاً مکان اجارہ پر دیا اور مستاجر کو سپرد کردیا قبضہ دے دیا تو جتنے دن گزریں گے کرایہ واجب ہوتا جائے گا اور منفعت حاصل کرنا قرار دیا جائے گا مستاجر اس میں رہے یا نہ رہے اور اگر قبضہ نہیں دیا تو منفعت حاصل نہیں ہوئی اس طرح کتنا ہی زمانہ گزر جائے کرایہ واجب نہیں (بحرالرائق )

مسئلہ ۱۹ : دو شخصوں نے ایک چیز کے متعلق دعوی کیا ایک کہتا ہے میں نے اجارہ لی ہے دوسرا کہتا ہے میں نے خریدی ہے اگر مدعی علیہ نے مستاجر کے موافق اقرار کیا تو خریدار اس کو حلف دے سکتا ہے اور اگر دونوں اجارہ ہی کا دعوی کرتے ہوں اور مدعی علیہ نے ایک کے لیے اقرار کردیا تو دوسرا حلف نہیں دے سکتا ۔(بحرالرائق )

مسئلہ ۲۰: میاں بی بی کے مابین سامان خانہ داری میں اختلاف ہوا اور گواہ نہیں ہیں کہ شوہر کی ملک ثابت ہو یا زوجہ کی تو جو چیز مرد کے لیے خاص ہے جیسے عمامہ چھڑی اس کے متعلق قسم کے ساتھ مرد کا قول معتبر ہے ۔ اورجو چیز یں عورت کے لیے مخصوص ہیں جیسے زنانے کپڑے اور وہ خا ص چیزیں جو عورتوں ہی کے استعمال میں آتی ہیں ان کے متعلق قسم کے ساتھ عورت کا قول معتبر ہے اور وہ چیزیں جو دونوں کے کام کی ہیں جیسے لوٹا کٹورااور استعمال کے دیگر ظروف ان میں بھی مرد کا ہی قول معتبر ہے اور اگر دونوں نے گواہ قائم کئیے تو ان چیزوں کے بارے میں عورت کے گواہ معتبر ہیں اور اگر گھر کے ہی متعلق اختلاف ہے مرد کہتا ہے میر ا ہے عورت کہتی ہے میرا ہے اس کے متعلق شوہر کا قول معتبر ہے ۔ ہاں اگر عورت کے پاس گواہ ہوں تو وہ عورت ہی کا ماناجائے گا ۔ یہ زن وشو کا اختلاف اور اس کا یہ حکم اس صورت میں ہے کہ دونوں زندہ ہوں ، اور اگر ایک زندہ ہے اور ایک مر چکا ہے اس کے وارث نے زندہ کے ساتھ اختلاف کیا توجو چیز دونوں کے کام کی ہے اس کے متعلق اس کا قول معتبر ہوگا جو زندہ ہے (ہدایہ درمختار )

مسئلہ ۲۱: مکان میں جو سامان ایسا ہے کہ عورت کے لیے خاص ہے مگر مرد اس کی تجارت کرتا ہے یا بناتا ہے تو سامان مرد کا ہے یا چیز مرد ہی کے کام کی ہے مگر عورت اس کی تجارت کرتی ہے یا وہ خود بناتی ہے وہ سامان عورت کا ہے (بحر)

مسئلہ ۲۲: زوجین کا ا ختلاف حالت بقاء نکاح میں ہو یا فرقت کے بعد دونوں کا ایک حکم ہے یوہیں جس مکان میں سامان ہے وہ زوج کی ملک ہو یا زوجہ کی یا دونوں کی سب کا ایک ہی حکم ہے اور اختلاف کا لحاظ اس وقت ہوگا جب عورت نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ چیز شوہر نے خریدی ہے اگر اس کے خریدنے کا اقرار کرلے گی تو شوہر کی ملک کا اس نے اقرار کرلیا اس کے بعد پھر عورت کی ملک ہو نے کے لیے ثبوت درکار ہے (بحر)

مسئلہ۲۳: ایک شخص کی چند بی بیوں میں یہی اختلاف ہوا اگر وہ سب ایک گھر میں رہتی ہوں تو سب برابر کی شریک ہیں اور اگر علیحدہ علیحدہ مکانات میں سکونت ہے تو ایک کے یہاں جو چیز ہے اس سے دوسری کو تعلق نہیں بلکہ وہ عورت گھروالی اور خاوند کے مابین وہی حکم رکھتی ہے جو اوپر مذکورہوا یو ہیں دوسری عورتوں کے مکانات کی چیزیں ان میں اور اس خاوند کے مابین مذکور طریقہ پردلائی جائیں گی (بحر)

مسئلہ۲۴: باپ اور بیٹے میں اختلاف ہوا خانہ داری کے سامان کے متعلق ہر ایک اپنی ملک کا دعوی کرتا ہے اگر بیٹا باپ کا یہاں رہتا اور کھاتا پیتا ہے تو سب کچھ باپ کا ہے اور اگر باپ بیٹے کے یہاں رہتا اور کھاتا پیتاہے تو سب چیزیں بیٹے کی ہیں دوپیشے والے ایک مکان میں رہتے ہیں اور ان آلات میں اختلاف ہوا جن پر قبضہ دونوں کا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ او زار اس کے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں لہذا اس کے ہیں بلکہ اگر ملک کا ثبوت دونوں میں سے کسی کے پاس نہ ہو تو نصف نصف دونوں کو دیدئیے جائیں (بحر)

مسئلہ ۲۵ : مالک مکان اور کرایہ دارمیں ساما ن کے متعلق اختلاف ہوا اس میں کرایہ دار کی بات معتبر ہے کہ مکان اسی کے قبضہ میں ہے جو چیز یں مکان میں ہیں ان پر بھی اسی کا حق ہے (بحر)

مسئلہ ۲۶: عورت جس رات کو رخصت ہوکر میکے سے آئی ہے مرگئی تو اس گھر کے تمام سامان شوہر کے لئیے قرار دینا مستحسن نہیں کیونکہ جب وہ آج ہی آئی ہے تو ضرور حسب حیثیت پلنگ پیڑھی میز کرسی صندوق اور ظروف وفروش وغیرہ ہا کچھ نہ کچھ جہیز میں لائی ہوگی جس کا تقریباًہر شہر ہر قوم اور ہر خاندان میں رواج ہے (بحر)

مسئلہ ۲۷: جاروب کش ایک شخص کے مکان میں جھاڑو دے رہا ہے ۔ ایک مخملی بیش قیمت چادر اس کے کندھے پر پڑی ہے مالک مکان کہتا ہے یہ چادر میری ہے مگر وہ جاروب کش کہتا ہے میری ہے ۔ صاحب خانہ کا قول معتبر ہے ۔دو شخص ایک کشتی میں جارہے ہیں اس کشتی میں آٹاہے دونوں میں سے ہر ایک یہ کہتا ہے کہ کشتی بھی میری ہے اور آٹا بھی میرا ہی ہے ۔ مگر ان میں ایک شخص کی نسبت مشہور ہے کہ یہ ملاح ہے تو آٹا اسے دیا جائے جو آٹے کی تجارت کرتا ہے ۔ اور کشتی ملاح کو (بحر)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button