سوال:
ضرورت پر سودی قرض لینا کیسا ہے؟
جواب:
جو شخص واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرعی رکھتا ہو کہ اس کے بغیر کوئی طریقہ بسر اوقات نہ ہو نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنے کا امکان ہو نہ کوئی پیشہ جانتا ہو نہ نوکری ملتی ہو جس کے ذریعے دال روٹی اور موٹا کپڑا محتاج آدمی کی گزر بسر کے لائق مل سکے یا مقروض ہے اور جانتا ہے کہ اگر ادا نہ ہوا تو قرضخواہ قید کرا دے گا جس کے باعث بال بچوں کو نفقہ نہ پہنچ سکے گا اور ذلت و خواری الگ اٹھانی پڑے گی تو ایسی صورت میں ضرورت بھر سودی قرض لینے کی اجازت ہے ۔ اور اگر شرعی مجبوری نہیں تو ہرگز جائز نہ ہوگا جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہی ہزار روپئے پاس ہیں پانچ ہزار روپئے لگانے کو جی چاہا چار ہزار سودی نکلوا لئے یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا سودی قرض لے کر بنایا یا ہزار دو ہزار کی تجارت کرتے ہیں بقدر کفایت اہل و عیال کو روزی ملتی ہے نفس نے بڑا سودا گر بننا چاہا پانچ چھ ہزار سودی نکلوا کر لگا دیے یا گھر میں زیور موجود ہے جسے بیچ کر روپیہ حاصل کر سکتے ہیں نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیا۔ اسی طرح سینکڑوں صورتیں ہیں جو شرعی مجبوری سے خارج ہیں۔ لہذا اس طرح کے کاموں کے لئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے کہ جس طرح سود دینا حرام ہے اسی طرح سود لینا بھی حرام ہے۔
(فتاوی فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 205، شبیر برادرز لاہور)