اسللامی کتبمضامین

حضور کی واحد کنواری بیوی حضرت عائشہ کی خصوصیت

حضور کی واحد کنواری بیوی ہونا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کی تفصیلی تشریح ح

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت ہے آپ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واحد کنواری بیوی تھیں۔ امام زرکشی رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

  • أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَتَزَوَّجْ بِكْرًاغَيْرَهَا.

 نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

 تشریح:

کنواری عورت سے نکاح:

شادی شدہ عورتوں سے نکاح کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن کنواری عورتوں سے نکاح کرنا شرعاً افضل و مستحب ہے۔ علما و محدثین نے اس کی کئی وجوہات بیان کیں ہیں۔

احادیث میں کنواری عورت سے شادی کی ترغیب :

کنواری عورتوں سے نکاح کے افضل ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سی احادیث میں  نبی اکرم ﷺ  نے کنواری عورتوں سے شادی کی ترغیب   دلائی۔ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جا رہی ہیں۔

  • صحیح بخاری میں ہے: ” عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا، تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا يُعْجِلُكَ» قُلْتُ: إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: «فَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟» قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: «فَهَلَّا جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ “ ترجمہ: مثلاً حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ  ایک غزوہ میں تھے، جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو میں  جلدی سے اپنے سست رفتار اونٹ پر بیٹھا  (اور گھر جانے لگا)، اچانک میرے پیچھے سے  ایک سوار  میرے ساتھ آ ملا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو  وہ رسول اللہ ﷺ تھے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تمھیں اتنی جلدی کیوں ہے؟

میں نے عرض کیا: یا رسول الله ﷺ ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔

آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے نکاح کر لیا ہے؟“

 میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے پوچھا:  ”کنواری عورت سے نکاح کیا ہے یا بیوہ سے؟ “

میں نے بتایا: بیوہ سے۔

 آپ ﷺ نے فرمایا: ”کنواری عورت سے نکاح کیوں نہ کیا؟ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے!“

مسلم شریف میں اسی  روایت کے آگے الفاظ ہیں: ” قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللهِ هَلَكَ، وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ – أَوْ سَبْعَ -، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ أَوْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَجِيءَ بِامْرَأَةٍ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، وَتُصْلِحُهُنَّ، قَالَ: «فَبَارَكَ اللهُ لَكَ“ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے آپﷺ سے عرض کی: (میرے والد) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور پیچھے نو یا سات بیٹیاں چھوڑیں، تو میں نے اچھا نہ سمجھا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی (کم عمر) لے آؤں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت لاؤں جو ان کی نگہداشت کرے اور ان کی تربیت کرے۔“

 آپ ﷺ نے یہ سن پر ارشاد فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت دے!“[1]

  • مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:” قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكُمْ بِالْجَوَارِي الشَّوَابِّ فَانْكِحُوهُنَّ، فَإِنَّهُنَّ أَطْيَبُ أَفْوَاهًا، وأَعَزُّ أَخْلَاقًا، وَأَصَحُّ أَرْحَامًا أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ “ ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جوان عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ ان کی باتیں زیادہ مہذب ہوتی ہیں،  اخلاق زیادہ پاکیزہ ہوتے ہیں اور رحم زیادہ صاف ہوتے ہیں۔ کیا تمھیں پتا نہیں کہ میں قیامت کو تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ [2]
  • امام ابو نعیم رحمہ اللہ کی الطب النبوی میں ہے: ” النبي صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم قال: عليكم بالأبكار فإنهن أعذب أفواها وأنتق أرحاما وأسخن إقبالا وأرضى باليسير من العمل. “ ترجمہ: نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کنواری عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ ان کی باتیں زیادہ میٹھی ہوتی ہیں، ان کے رحم میں صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، وہ زیادہ گرم جوشی سے استقبال کرتی ہیں اور وہ تھوڑے کاموں سے راضی ہو جاتی ہیں۔“[3]

کنواری عورت سے نکاح کرنے کی حکمتیں:

کسی بھی کام کے افضل ہونے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ  اس کے فوائد و ثمرات زیادہ ہوں اور شادی شدہ عورتوں کی نسبت کنواری عورتوں سے نکاح کرنے سے بہت سے اہم فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ روایات میں  کنواری عورتوں سے نکاح کرنے کی درج ذیل حکمتیں بیان فرمائی گئی ہیں ۔

  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ خوش طبیعت ہوتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ میٹھی اور پاکیزہ گفتگو کرنے والی ہوتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ اچھے اخلاق کی حامل ہوتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتوں کے رحم زیادہ صلاحیت والے ہوتے ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ شہوت کو پورا کرنے والی ہوتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ گرم جوشی سے استقبال کرتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتی ہیں۔
  • اکثر کنواری عورتیں بیوہ عورتوں سے زیادہ با حیا ہوتی ہیں ۔

جنتی عورتیں کنواری ہوں گی:

            اللہ تعالی نے جنت میں  ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کہ ہر لحاظ سے بہتر و افضل ہوں گی اور بندہ مومن کی لذت و سرور کو کامل طریقے سے پورا کرنے والی ہوں گی۔ پھر ان نعمتوں میں سے بھی خاص نعمتوں کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا اور ان میں سے بھی چند نعمتیں تو ایسی ہیں کہ ان کو ذکر فرما کر احسان جتلایا تاکہ اس نعمت کی عظمت  کا اندازہ ہو۔ انہی میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان فرمائی کہ جنت میں اللہ تعالی نے  ”کنواری“ حوریں پیدا فرمائی  ہیں۔

            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ” اِنَّـآ اَنْـشَاْنَاهُنَّ اِنْـشَآءً فَجَعَلْنَاهُنَّ اَبْكَارًا“ ترجمہ: بے شک ہم نے انہیں (حوروں کو) ایک عجیب انداز سے پیدا کیا ہے۔پس ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے۔[4]

            اللہ تعالی اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ” لَمْ يَطْمِثْـهُنَّ اِنْـسٌ قَبْلَـهُـمْ وَلَا جَآنٌّ  فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ “ ترجمہ:  نہ تو انہیں ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہو گا۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔[5]

            ان آیات سے بھی کنواری عورتوں کے افضل ہونے کا علم ہوتا ہے کیونکہ اگر شادی شدہ عورت افضل ہوتی تو اللہ تعالی حوروں کو ”کنواری“ نہ پیدا فرماتا۔

گزشتہ ساری گفتگو سے یہ باور کروانا مقصود تھا کہ کوئی بھی عام کنواری عورت نکاح کے معاملے میں شادی شدہ عورت سے بہتر ہے تو حضرت عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنھا کی شان کے تو کیا کہنے کہ آپ رضی اللہ عنھا تو ”کنواری“ حالت میں نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں آنے کے باعث ان ”شادی شدہ“ عورتوں سے افضل ہوئیں جو کہ خود امت میں افضل ترین  اور امہات المومنین ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا  اس فضیلت پر ناز فرماتیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو اپنی یہ فضیلت اس قدر محبوب تھی کہ آپ رضی اللہ عنھا اس پر ناز فرماتیں۔ آپ رضی اللہ عنھا نے مختلف انداز سے کئی مرتبہ اپنی اس خصوصیت کو بیان فرمایا۔ بخاری شریف میں  روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا: ” يا رسول الله أرأيت لو نزلت وادياً، وفيه شجرة قد أُكل منها، ووجدت شجرةً لم يُؤكل منها، في أيها كنت تُرتِع بعيرك ؟. قال: في الذي لم يُرتع منها[6]

ترجمہ: [7]یا رسول اللہ ﷺ! فرض کریں کہ آپ اپنی سواری کے ساتھ ایک وادی میں جائیں اور وہاں چند درخت ایسے ہوں جن کے کچھ پتے پہلے بھی جانور کھا چکے ہوں اور ایک درخت ایسا بھی نظر آئے جس کے پتے  پہلے کسی جانور نے نہ کھائے ہوں (یعنی وہ ہرا بھرا ہو اور اس کے پتے زیادہ ہوں) تو آپ ﷺ اپنے اونٹ کو کس درخت سے کھلائیں گے؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس درخت سے جس کے پتے پہلے کسی نے نہ کھائے ہوں۔

بخاری شریف میں آگے الفاظ ہیں: ” تعني أن رسول الله ﷺ لم يتزوج بكراً غيرها “ ترجمہ: اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی مراد یہ تھی  کہ آپ ﷺ نے ان کے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔[8]

   بلکہ علامہ ابو نعیم اصفہانی اور امام بیہقی رحمہما اللہ کے مطابق  اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد  خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ” فأنا هيہ[9]“ ترجمہ: وہ درخت میں ہوں۔[10]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اپنے بارے میں ارشاد فرماتی ہیں: ” لَقَدْ أُعْطِيْتُ تِسْعاً مَا أُعْطِيَتْهَا امْرَأَةٌ بَعْدَ مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ: لَقَدْ تَزَوَّجَنِي بِكْراً“[11]

ترجمہ: مجھے نو فضیلتیں عطا فرمائی گئیں جو حضرت مریم بنت عمران کے بعد دنیا کی کسی عورت کو عطا نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے میرے علاوہ کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی۔[12]

صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اعتراف :

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں بھی  حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی یہ خصوصیت بہت مشہور تھی۔ وہ آپ رضی اللہ عنھا کی اس فضیلت کے معترف بھی تھے اور اسے باعث شرف بھی گردانتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” لَمْ يَنْكحِ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بكْرا غَيْرَكِ “

ترجمہ:  اے عائشہ رضی اللہ عنھا! نبی اکرم ﷺ نے آپ کے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔

نبی اکرم ﷺ کی شادی شدہ عورتوں سے نکاح فرمانے کی وجہ:

یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب کنواری عورتوں سے نکاح کرنا افضل ہے اور آپ ﷺ نے احادیث میں اسی کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے تو پھر آپ ﷺ کی اکثر بیویاں پہلے سے شادی شدہ  کیوں تھیں؟ اگر ”کنواری“ ہونا باعث شرف و فضیلت ہے تو باقی ازواج یا کم از کم اکثر ازواج تو ”کنواری“ ہوتیں۔

جواب:

نبی اکرم ﷺ کی حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا کے علاوہ  کوئی بھی کنواری بیوی نہ ہونے کی بہت سی حکمتیں ہیں:

  • عشق و محبت کی آنکھ سے دیکھا جائے اور جذبہ شان عائشہ رضی اللہ عنھا دل میں موج زن ہو تو آپ ﷺ کے اس فعل میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت جھلکتی ہے۔ اللہ اکبر! اہل محبت نے کیا شاندار وجہ بیان فرمائی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے بے پناہ محبت اور آپ رضی اللہ عنھا کی تعظیم و فضیلت کی خاطر آپ ﷺ نے اور کسی کنواری عورت سے نکاح نہ فرمایا کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا کی یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نہ ہو جائے اور لوگوں کو ذہن نشین ہو جائے کہ ساری بیویاں ایک طرف لیکن حضرت عائشہ ایک طرف (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)۔[13]
  • کنواری عورت سے شادی کرنے کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ شہوت کی مکمل تسکین ہو اور نبی اکرم ﷺ کو اس کی حاجت نہیں تھی بلکہ نبی اکرم ﷺ نے تنی بھی شادیاں کیں وہ منشا الہی اور مصلحت اسلام کے لئے کیں۔ [14]

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” أن تزوج النبي صلى الله عليه وسلم ليس على حسب الشهوة والرغبة ، بل على حسب ابتغاء مرضات الله تعالى “ ترجمہ: نبی اکرم ﷺ کی شادیاں شہوت یا رغبت کے پیش نظر نہیں تھیں بلکہ اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے تھیں۔[15]

  • اگر کوئی مصلحت پیش نظر ہو تو شادی شدہ عورت کے نکاح کرنا بہتر ہوتا ہے جیسے کہ اوپر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا کہ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی مصلحت بیان فرمائی کہ میری بہنیں کم عمر ہیں اور ان کی تربیت کے لئے کسی بڑی عمر کی عورت کی ضرورت تھی تو آپ ﷺ نے ان کی تائید فرمائی اور انہیں دعا سے نوازا۔ اسی طرح ”دین اسلام کے احکام کی تبلیغ“ کی مصلحت آپ ﷺ کے پیش نظر تھی کہ پختہ عمر کی عورت بات کو اچھی طرح سمجھ کر آگے پہنچا سکتی ہے، اپنی بات کو زیادہ اچھے انداز سے سمجھا سکتی ہے اور اس کی بات پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس مصلحت کے پیش نظر آپ ﷺ نے اکثر شادی شدہ عورتوں سے نکاح فرمایا۔

ثیبات کو مقدم نے کی وجہ:

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں سورۃ تحریم میں پہلے شادی شدہ عورتوں کو کنواری عورتوں سے پہلے ذکر فرمایا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ” عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا“ ترجمہ: ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے اطاعت والیاں، ایمان والیاں ،ادب والیاں، توبہ والیاں، بندگی والیاں، روزہ داریں، بیاہیاں اور کنواریاں۔[16]

سوال:

  اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کے لئے ثیبات یعنی شادی شدہ عورتوں کو پہلے ذکر فرمایا پھر ”کنواری“ عورتوں کو ذکر فرمایا۔ کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ کے لئے [17]شادی شدہ عورتیں کنواری عورتوں سے افضل ہیں؟ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے کنواری ہونے میں کوئی فضیلت نہیں ہے؟

جواب:

             اولاً تو یہ مفہوم نبی اکرم ﷺ کی  کثیر احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مجموعی فہم کے خلاف ہے جو کہ لائق التفات نہیں ہے۔ پھر اس آیت مبارکہ سے شادی شدہ عورتوں کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کلام عرب میں ”واو“ مطلقا مع کے لئے آتی ہے کسی کی افضلیت و تقدم کے بیان کے لئے نہیں آتی۔ اگر آپ یہاں ثیبات کو پہلے ذکر کرنے کی وجوہات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ  آیت حضرت عائشہ کی فضیلت میں کمی تو کجا آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت کے اظہار پر دلالت کرتی ہے۔ چند وجوہات یہاں ذکر کی جا رہی ہیں:

  • یہاں حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما پر ناراضگی کا اظہار فرمایا جا رہا ہے اور انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔ مقام ناراضگی میں جس کی خطا زیادہ ہو یا جس کی زیادہ تہدید مقصود ہو اس کا ذکر پہلے کیا جاتا ہے۔ تو ”لفظ ثیبات[18] “ کو پہلے ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی نسبت حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ زیادہ ناراضگی ہے ۔ [19]
  • کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی اکثر زوجات شادی شدہ تھیں اس لئے ان کی کثرت کے پیش نظر پہلے ثیبات کا لفظ ذکر فرمایا گیا۔[20]
  • آیت کی فصاحت و بلاغت کی مناسبت سے لفظ ثیبات کو پہلے ذکر کیا گیا ۔ یعنی اسی آیت میں پہلے ” مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ “میں چھ لفظ ایسے تھے جن کے آخر میں”الف اور ت“ تھا تو اسی کی مناسبت سے ” ثیبات“ پہلے لایا گیا کیونکہ اس کے آخر میں بھی الف اور ت ہےلیکن ” ابکارا “ کے آخر میں نہیں ہے۔

حوالہ جات:

[1] : (1) طريق الشعبي:  أخرجه البخاري،في (67-كتاب النكاح، 121-باب طلب الولد، 1037ح5245)، وفي (56-كتاب الجهاد، 113-باب استئذان الرجل الإمام، 569ح2967)، ومسلم (17-كتاب الرضاع، 15-باب استحباب نكاح ذات الدين، 584ح715)، والدارمي (2/146)، وأبو يعلى (3/377ح1850)، بنحوه.

(2) طريق عمرو بن دينار: وأخرجه البخاري(69-كتاب النفقات، 12-باب عون المرأة زوجها في ولده، 1062ح5367)، وفي (80-كتاب الدعوات، 53-باب الدعاء للمتزوج، 1226ح6386)،  ومسلم (17-كتاب الرضاع، 15-باب استحباب نكاح ذات الدين، 584ح715)، والترمذي (9-كتاب النكاح، 13-باب ما جاء في تزويج الأبكار، 3/406ح1100، )     وقال الترمذي: ((حديث حسن صحيح))، والنسائي (26-كتاب النكاح، 6-باب نكاح الأبكار، 6/369ح3219)، وأحمد (3/308)، وأبو يعلى (3/466ح1974)، وابن حبان (16/86ح7138-كما في الإحسان-)، والبيهقي (7/80)، مطولاً، وعند النسائي مختصراً.

(3) طريق عطاء بن أبي رباح: وأخرجه البخاري(40-كتاب الوكالة، 8-باب إذا وكل رجل ۔۔، 433ح2309)، ومسلم (17-كتاب الرضاع، 15-باب استحباب نكاح ذات الدين، 584ح715)، والنسائي (26-كتاب النكاح، 6-باب نكاح الأبكار، 6/370ح3220)، وابن ماجه (9-كتاب النكاح، 7-باب تزويج الأبكار، 1/598ح1860)، وأحمد (3/302)، مطولاً، وعند النسائي وابن ماجه،  مختصراً.

(4) طريق وهب بن كيسان: وأخرجه البخاري (34-كتاب البيوع، 34-باب شراء الدواب والحمير، 395، ح2098)، ومسلم (17-كتاب الرضاع، 15-باب استحباب نكاح ذات الدين، 584ح715)، وابن حبان (14/449ح6518-كما في الإحسان-) ، مطولاً.  

(5) طريق مُحارب بن دِثار: وأخرجه البخاري (67-كتاب النكاح، 10-باب تزويج الثيبات، 1007ح5080)، مسلم (17-كتاب الرضاع، 15-باب استحباب نكاح ذات الدين، 584ح715)، والبغوي في "شرح السنة” (9/14ح2245) ، بنحوه.

(6) طريق سالم بن أبي الجعد:  وأخرجه أبو داود (6-كتاب النكاح، 3-باب في تزويج الأبكار، 2/540ح2048)، وأحمد (3/314)، , وأبو يعلى (3/413ح1898)، وابن حبان (14/447ح6517-كما في الإحسان-) ، مطولاً، وعند أبي داود مختصراً.

[2] : مصنف ابن ابی شیبہ، جلد4، صفحہ52، مکتبۃ الرشد، ریاض

[3] : طب النبوی لابی نعیم الاصفہانی، جلد2، صفحہ 471-472، دار ابن حزم ، بیروت

[4] : سورۃ الواقعہ، آیت35-36

[5] : سورۃ الرحمن، آیت  56-57

[6] : (1) طريق إسماعيل بن عبد الله: أخرجه البخاري، وابن حبان ( 10/174ح4331 -كما في الإحسان-)، والبيهقي (7/81)، به بلفظه ، وعند ابن حبان زيادة في أوله.

(2) طريق عبدالرحمن بن كعب: وأخرجه ابن حبان (16/8ح7096،-كما في الإحسان-)، والطبراني (23/39ح99)، وفي "الأوسط” (8/84ح8039)، والحاكم (4/13ح6742) ، بنحوه.

حکم ھذا الطریق: صححه الحاكم، ووافقه الذهبي.

[7] : غالباً دیگر ازواج مطہرات کا ذکر ہو رہا تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ مثال ذکر فرمائی جیسے کہ حدیث کے آخری الفاظ میں اشارہ ہے۔ شارحین حدیث کی گفتگو پڑھ کر بھی یہی تاثر ملتا ہے مثلاً امام ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد  فرماتے ہیں: ” وفيه: فخر النساء على ضرائرهن عند الأزواج. “ترجمہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے اپنی سوکنوں پر فخر کرتی ہیں۔

(شرح بخاری لابن بطال، جلد7، صفحۃ 171، مکتبۃ الرشد، ریاض)

[8] : اس واقعہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیان کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا کتنے مہذب اور با حیا انداز سے ایسی گفتگو فرماتی کہ  کوئی نازیبا اور فحش الفاظ بھی استعمال نہ ہوتے اور سننے والا اس کلام کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھ جاتا۔  امام قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:” وهذا فيه غاية بلاغة عائشة وحسن تأنيها في الأمور“  

(ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، جلد8، صفحہ 12، المطبعہ الکبری  الامیریہ، مصر)

[9] : بكسر الهاء وفتح التحتية وسكون الهاء وهي للسكت

(قسطلانی، ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، جلد8، صفحہ 12، المطبعہ الکبری  الامیریہ، مصر)

[10] : السنن الکبریللبیھقی،  لد 7، صفحہ 81، مجلس دائرۃ المعارف، حیدرآباد

فتح الباری شرح صحیح بخاری، جلد 25، صفحہ 216، دار المعرفۃ، بیروت

ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، جلد8، صفحہ 12، المطبعہ الکبری  الامیریہ، مصر

[11] :  حکم الحدیث:امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”سیر اعلام النبلاء“ میں  فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند ”جید“ ہے۔

(سیر اعلام النبلاء، جلد2، صفحۃ 141، موسسۃ الرسالۃ، بیروت)

اس حدیث شریف کی ایک اور سند بھی ہے جو کہ صحیح ہے۔ امام حاکم اس سند کے متعلق فرماتے ہیں: ” هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه “ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی تلخیص میں امام حاکم کی موافقت فرمائی ہے۔

(مستدرک علی الصحیحین للحاکم، جلد5، صفحۃ 437، حدیث نمبر 6730)

[12] : سیر اعلام النبلاء، جلد2، صفحۃ 141، موسسۃ الرسالۃ، بیروت

[13] : الاجابۃ میں امام بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”لِلْإِشَارَةِ إِلَى تَعَظِيْمِ عَائِشَةَ وَتَمْيِيْزِهَا بِهَذِهِ الْفَضِيْلَةِ وَحْدَهَا دُوْنَهُنَّ لِئَلَّا تُشَارِكَ فِيْهَا فَكَأَنَّهَا فِي كَفَّةٍ وَهُنَّ فِي كَفَّةٍ أُخْرَى. “مفہوم اوپر گزرا۔

(الْإِجَابَةُ لِإِيْرَادِ مَا اسْتَدْرَكَتْهُ عَائِشَةُ عَلَى الصَّحَابَةِ، صفحہ45، مکتب الاسلامی، بیروت)

[14] : الاجابۃ میں امام بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”تَقْلِيْلًا لِلِاسْتِلْذَاذِ لِأَنَّ الْأَبْكَارَ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا وَلِذَلِكَ قَالَ: فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ “ ترجمہ: شہوت میں کمی  کے باعث آپ ﷺ کی اکثر ازواج ثیبہ تھیں کیونکہ کنواری عورتیں لذت کو پورا کرنے والی اور منہ کی میٹھی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جابر سے فرمایا: ”آپ نے کنواری عورت سے نکاح کیوں نہ کیا؟ وہ آپ سے کھیلتی اور آپ اس سے کھیلتے۔“

(الْإِجَابَةُ لِإِيْرَادِ مَا اسْتَدْرَكَتْهُ عَائِشَةُ عَلَى الصَّحَابَةِ، صفحہ45، مکتب الاسلامی، بیروت)

[15] : مفاتیح الغیب، جلد15، صفحہ 385، التحریم، آیت 5

[16] التحریم، آیت 5

[17] : علی الاطلاق

[18] : یہ ذہن میں رہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا ”ثیبہ یعنی پہلے بھی  شادی شدہ“ تھیں  اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا ”باکرہ یعنی کنواری“ تھیں۔

[19] : التحریر و التنویر میں ہے: ” أن الملام الأشد موجه إلى حفصة قبل عائشة وكانت حفصة ممن تزوجهن ثيبات وعائشة هي التي تزوجها بكراً . وهذا التعريض أسلوب من أساليب التأديب “    (التحریر و التنویر، جلد30، صفحہ 108، التحریم، آیت 5)

[20] :التحریر و التنویر، جلد30، صفحہ 108، التحریم، آیت 5

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button