دیدار باری تعالی
مشہور

حضرت موسی کے لئے دنیا میں دیدار باری تعالی کا وقوع ماننے والے کا حکم

حضرت موسی علیہ السلام کے لئے دنیا میں دیدار باری تعالی کے متعلق نظریہ اور اس کا وقوع ماننے والے کا تفصیلی حکم

حضرت موسی علیہ السلام کے لئے دنیا میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق نظریہ

جمہور اہل سنت کا موقف یہ ہے دنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار فقط نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ساتھ خاص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ  کسی نبی   حتی کہ حضرت موسی  کلیم اللہ علیہ السلام کو بھی دنیا میں جاگتی آنکھوں سے   اللہ تعالی کا دیدار نہیں ہوا  البتہ  امام باقلانی  (وفات: 403ھ)،  محی الدین ابن العربی  (وفات: 638ھ)، (قاضی عیاض رحمہ اللہ  کے بقول)  امام جعفر صادق (وفات: 148ھ) رضی اللہ تعالی عنہ اور (ابو فواک اور امام ماتریدی رحمہما اللہ کے بقول) امام اشعری (وفات: 324ھ) رحمہم اللہ سے روایت ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ حضرت موسی علیہ السلام  کو بھی دنیا میں اللہ تعالی کا دیدار ہوا ہے؛ لیکن جمہور اہل سنت و صوفیا بشمول غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ (وفات: 561ھ) کا قول ہی درست و اصح ہے  بلکہ یہ قول اتنا قوی ہے کہ بعض متکلمین نے اس پر اجماع تک نقل فرمایا ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام کے لئے دنیا میں دیدار باری تعالی کا وقوع ماننے والے کا حکم:

شریعت مطہرہ کے  بعض عقائد  ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ”ثابتات محکمہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔   ان کے ثبوت  کے لئے  سواد اعظم کا اتفاق و اعتماد ہی کافی ہوتا ہے  اور  وضوح امر کے بعد سواد اعظم کے قول کا انکار کرنے والا   ”خطا کار و گناہ گار“ ہوتا ہے کہ حق سواد اعظم  کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور اس کے خلاف اقوال پر اعتماد و استناد جائز نہیں ہوتا، لیکن اس کا انکار کرنے سے کوئی شخص کافر یا گمراہ نہیں ہوتا۔   ” حضرت موسی علیہ السلام کے لئے دنیا میں   دیدار الہی نہ ہونا“ بھی ”ثابتات محکمہ“ کے قبل سے ہے کہ یہ کسی دلیل قطعی سے ثابت نہیں لیکن یہ   سواد اعظم اور جمہور اہل سنت کا موقف ہے، لہذا اب وضوح امر کے بعد  حضرت موسی علیہ السلام کے لئے  دیدار الہی کا اثبات کرنے والا سواد اعظم اہل سنت کے حق و ثابت شدہ موقف کے خلاف ایک غیر معتمد قول    کی پیروی کرنے والا اور خطا کار و گناہ گار  ٹھہرے گا۔

سر کی آنکھوں سے دیدار الہی ہونا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا  خاصہ ہے:

 دنیا میں سر کی آنکھوں سے دیدار الہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خاصہ ہونے کے متعلق علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ”الغنیہ فی مسئلۃ الرؤیۃ“ میں لکھتے ہیں: ”امر  رؤیۃ اللہ تعالی، وان کان جائزۃ فھی خاصۃ  بالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم“ ترجمہ: اللہ تعالی کی (دنیا میں ) رؤیت اگرچہ فی نفسہ ممکن ہے لیکن یہ فقط ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خاص ہے۔([1])

اتحاف المرید میں امام عبد السلام اللقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:  ” الاشارۃ الی وجہ الاخص من جواز الوقوع“ ترجمہ: اس میں  بطور خصوصیت( نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے رؤیت باری تعالی)  شرعاً ممکن الوقوع  ہونے کی طرف  اشارہ ہے۔([2])        

حضرت موسی علیہ السلام کے لئے دیدار باری تعالی نہ ہونے کی تصریح:

شرح جوھرۃ التوحید میں ہے:  ” فلم تقع لغیرہ و لا لموسی علیہ السلام فی الدنیا “ ترجمہ:  لہذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ دنیا میں کسی کو حتی کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی دیدار باری تعالی نصیب نہیں ہوا۔([3])

فتاوی رضویہ میں ہے: ” دنیا میں دیدارالٰہی سواحضرت سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے کسی نبی مقرب کو بھی نصیب نہ ہوا ۔“([4])

قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کی رائے کے متعلق جزئیات:

قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے کوہ طور پر تجلی ڈالی تو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی اللہ تعالی کا دیدار  کیا اور اسی وجہ سے آپ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ کنز الفوائد شرح بحر العقائد میں ابراہيم بن حسن ميرغنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ” قیل ثبت ایضا لکلیمہ موسی علیہ السلام بعد جوابہ وقائلہ القاضی ابوبکر “ ترجمہ:  ایک ضعیف قول یہ ہے کہ حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام کو بھی جواب (لن ترانی) کے بعد دیدار باری تعالی نصیب ہوا اور اس کے قائل قاضی ابوبکر رحمہ اللہ ہیں۔([5])

الشفاء بتعریف حقوق مصطفی  مع  شرح نسیم الریاض میں  ہے:  (ما بین القوسین من نسیم الریاض ) ” وقد ذكر القاضي أبو بكر في أثناء أجوبته عن الآيتين ما معناه أن موسى عليه السلام رأى الله فلذلك خر صعقا (لان وقوع مثل ھذا بمجرد رؤیۃ الجبل دکا بعید)وأن الجبل(ایضا) رأى ربه (ای خلق فیہ ادراکا و حیاۃ) فصار دكا بإدراك خلقه الله له  (کما نقلہ الماتریدی عن الاشعری رحمھما اللہ)واستنبط ذلك والله أعلم من قوله (ولكن انظر إلى الجبل فإن استقر مكانه فسوف تراني) ثم قال (فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا وخر موسى صعقا) وتجليه للجبل هو ظهوره له حتى رآه على هذا القول (ای قول ابی بکر الباقلانی السابق بان موسی و الجبل رایاہ معا ) “ ترجمہ: قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے ان دو آیات سے جواب دیتے ہوئے ذکر کیا  جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف ہوئے اسی لئے بے ہوش ہو کر گر پڑے، کیونکہ محض پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھنے سے  بے ہوش ہو کر گر پڑنا بعید ہے۔ اور پہاڑ نے بھی اللہ تعالی کا دیدار کیا یعنی اللہ تعالی نے اس میں ادراک اور حیات پیدا فرما دی تھی تو پہاڑ اللہ تعالی کے ادراک تخلیق فرمانے کے سبب ریزہ ریزہ ہو گیا جیسا کہ امام ماتریدی نے امام اشعری رحمہما اللہ سے نقل فرمایا اور قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے  اللہ تعالی کے فرمان” ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا “ اور اس کے بعد ” پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ گرا بے ہوش “ سے یہ استنباط فرمایا ہے، واللہ اعلم۔ اور ان  یعنی قاضی ابوبکر باقلانی  رحمہ اللہ کے قول(کہ حضرت موسی علیہ السلام اور پہاڑ دونوں نے اکٹھے اللہ عزوجل کا دیدار فرمایا ، اس قول) کے مطابق  اللہ تعالی کا پہاڑ پر تجلی فرمانا پہاڑ کے لئے اپنی ذات کا ظہور تھا ۔([6])

علامہ میرغنی اور قاضی عیاض رحمہما اللہ  کے قول ” القاضي أبو بكر “  سے مراد امام القاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ ہیں ۔علامہ احمد بن محمد الشمنی  رحمہ اللہ (وفات: 873ھ)  الشفاء کے حاشیہ میں” القاضي أبو بكر “ کے متعلق لکھتے ہیں: ” يعنى الباقلانى لأن القاضي أبا بكر ابن العربي معاصر للمصنف لأن مولده سنة ثمان وستين وأربعمائة ومماته سنة ثلاث وأربعين وخمسمائة ومولد المصنف سنة ست وسبعين وأربعمائة، ومماته سنة أربع وأربعين وخمسمائة “ ترجمہ: یعنی قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ کیونکہ قاضی ابن عربی رحمہ اللہ مصنف کے معاصر ہیں کہ ان کی تاریخ ولادت 468 ھ ہے اور تاریخ وفات 543 ھ ہے اور مصنف (قاضی عیاض رحمہ اللہ) کی تاریخ ولادت  476 ھ  اور تاریخ وفات 544 ھ ہے ۔([7])

شیخ اکبر ابن العربی رحمہ اللہ کی رائے کے متعلق جزئیات:

شیخ اکبر محی الدین ابن العربی رحمہ اللہ نے بھی فتوحات مکیہ میں ذکر کیا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے بھی   دنیا میں اللہ تعالی کا دیدار  کیا ۔ آپ علیہ السلام کا بے ہوش ہونا  پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے کے قائم مقام تھا اور اس معاملے میں قرآن پاک کی آیت محتمل ہے۔

الیواقیت الجواہر میں  علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ حضرت موسی علیہ السلام کی رؤیت باری تعالی کے متعلق   فتوحات مکیہ سے شیخ اکبر محی الدین ابن العربی رحمہ اللہ (وفات: 638ھ) کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” أن الجبل رأى ربه وأن الرؤية هي التي أوجبت له التدكدك . ومن هنا قال بعض المحققين : إذا جاز أن يكون الجبل رأى ربه فما المانع لموسى أن يرى ربه ، في حال تدكدك الجبل ويكون وقوع النفي على الاستقبال والآية محتملة فكان الصعق لموسى قائما مقام التدكدك للجبل  ۔۔۔ (فإن قيل ) : فلم رجع موسى إلى صورته بعد الصعق ولم يرجع الجبل بعد الدك إلى صورته؟ ( فالجواب ) : إنما لم يرجع الجبل إلى صورته لخلوه عن الروح المدبرة له بخلاف موسى عليه الصلاة والسلام ، رجع إلى صورته بعد الصعق فكونه كان ذا روح فروحه هي التي أمسكت صورته على ما هي عليه بخلاف الجبل لم يرجع بعد الدك إلى كونه جبلا لعدم وجود روح فيه تمسك عليه صورته انتهى . “ ترجمہ:پہاڑ نے اپنے رب عزوجل کا دیدار کیا اور وہ دیدار ہی تھا جس نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس مقام پر بعض محققین نے فرمایا: جب پہاڑ اپنے رب عزوجل کو دیکھ سکتا ہے تو حضرت موسی علیہ السلام کے لئے کیا  رکاوٹ ہے کہ انہوں نے پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے کی حالت میں اپنے رب عزوجل کا دیدار نہ کیا ہو۔ ”لن ترانی“ میں مستقبل  میں وقوع کی نفی ہے اور آیت اس بارے میں محتمل ہے تو حضرت موسی علیہ السلام کا بے ہوش ہونا پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے کے قائم مقام تھا۔

اعتراض: جب پہاڑ  (رؤیت کے بعد)ریزہ ریزہ ہونے کے بعد  اپنی اصل حالت میں واپس نہیں آیا ، تو حضرت موسی علیہ السلام (رؤیت کے بعد)بے ہوش ہونے کے بعد اپنی اصل حالت میں کیونکر واپس آ گئے؟

جواب: پہاڑ  روح مدبرہ نہ ہونے کے باعث اپنی اصل حالت میں واپس نہیں آیا ، جبکہ اس کے برخلاف حضرت موسی علیہ السلام ذی روح ہونے کے باعث بے ہوش ہونے کے بعد اپنی اصل حالت پر واپس آ گئے ۔ لہذا وہ روح ہی تھی جس نے حضرت موسی علیہ السلام کی پہلے والی صورت کو برقرار رکھا ، اس کے برعکس پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے کے بعد دوبارہ پہاڑ نہیں بنا کیونکہ اس میں ایسی روح موجود نہیں تھی جو اس کی صورت کو باقی رکھتی۔([8])

سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت کے متعلق جزئیات:

 الشفاء بتعریف حقوق مصطفی میں  قاضی عیاض رحمہ اللہ حضرت موسی علیہ السلام کو  رؤیت باری تعالی ہونے کے متعلق  امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:  ” قال جعفر بن محمد: ”شغله بالجبل حتى تجلى ولولا ذلك لمات صعقا بلا إفافة“  وقوله هذا يدل على أن موسى رآه “ ترجمہ: امام جعفر بن محمد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: حضرت موسی علیہ السلام نے  بوقت تجلی اپنے آپ کو پہاڑ کے ساتھ مشغول رکھا  اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ علیہ السلام بے ہوش ہونے کے بعد وفات  فرما جاتے۔ اور حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کو دیکھا۔([9])

اس کی شرح میں امام خفاجی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” (ای ظھر  ظھور تاما لموسی علیہ الصلوۃ و السلام فرآہ) ولولا ذلك (ای اشتغالہ بالجبل بان ظھر لہ نور التجلی ابتداء) لمات صعقا بلا إفافة وقوله هذا يدل على أن موسى رآه (کالجبل)“ ترجمہ: یعنی اللہ تعالی نے  حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے ظہور تام فرمایا   تو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کا دیدار  کیا  اور اگر ایسا نہ ہوتا  یعنی حضرت موسی علیہ السلام بوقت تجلی اپنے آپ کو پہاڑ کے ساتھ مشغول نہ رکھتے اور اللہ تعالی کی تجلی نور کو ابتداً دیکھتے   تو آپ علیہ السلام بے ہوش ہونے کے بعد وفات  فرما جاتے۔ اور حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہاڑ کی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے بھی اللہ تعالی کا دیدار کیا ۔([10])   

امام اشعری  رحمہ اللہ سے منسوب روایت کے متعلق جزئیات:

الحدیقہ الندیہ میں  علامہ عبد الغنی نابلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”حکاہ ابو فواک  عن الاشعری انہ راء ھو و الجبل بخلق حیاۃ و رویۃ فیہ“ترجمہ: ابو فواک رحمہ اللہ نے امام اشعری سے حکایت کیا کہ حضرت موسی علیہ السلام اور پہاڑ دونوں نے اللہ عزوجل کا دیدار کیا  (یوں کہ اللہ تعالی نے) اس میں حیات اور دیکھنے کی قدرت پیدا فرما دی تھی۔([11])          

حضرت موسی علیہ السلام کو دیدار باری تعالی ہونے کے متعلق اصح قول:

اصح (صحیح ترین) قول یہی ہے  کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی دنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کا   دیدار نصیب نہ ہوا۔ کنز الفوائد شرح بحر العقائد میں ہے:” والاصح الذی علیہ الجمہور انہ لم یرہ سبحانہ ھذا “  ترجمہ: اصح موقف جس پر جمہور ہیں وہ یہ  ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف نہ ہوئے۔([12])

المعتقد المنتقد میں ہے: ”اختلف موسی علیہ السلام و الاصح الذی علیہ الجمہور: انہ لم یرہ سبحانہ ھذا“ ترجمہ:  حضرت موسی علیہ السلام کی رؤیت کے متعلق اختلاف ہے، اور اصح موقف جس پر جمہور ہیں وہ یہ  ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے بھی اللہ تعالی سبحانہ و تعالی کا دیدار نہیں کیا۔([13])                                 

الیواقیت و الجواھر میں  امام شعرانی  (وفات: 973ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”فھل وقعت رویۃ اللہ تعالی یقظۃ فی الدنیا  لاحد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، بحکم الارث لہ فی ھذا المقام؟ فالجواب: کما قالہ الشیخ عبد القادر الجیلی رضی اللہ عنہ: لم یبلغنا وقوع ذلک فی الدنیا لاحد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم “ ترجمہ: سوال: کیا  دنیا میں جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کی رؤیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی کے لئے اس مقام میں  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وراثت اور توسط سے وقوع پذیر ہوئی ؟   اس کا جواب وہی ہے جو سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس دنیا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی اور کے لئے اس کا وقوع ہم تک نہیں پہنچا۔ ([14])

اجماع کی صراحت:

شداخۃ المعتزلۃ  میں امام قوام الدین الاتقانی  الماتریدی (وفات: 758ھ) رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ”و تحقیقہ ان موسی علیہ السلام لم یرہ فی الدنیا اجماعاً “ ترجمہ: تحقیق یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے بھی بالاجماع دنیا میں اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا۔([15])

منح الروض الازھر فی شرح الفقہ الاکبر میں علامہ ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ”ان الامۃ قد اتفقت علی انہ تعالیٰ لا یراہ احد فی الدنیا بعینہ،ولم یتنازعوا فی ذلک الا لنبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حال عروجہ علی ما صرح بہ فی شرح عقیدۃ الطحاوی“ ترجمہ: امت اس بات پر متفق ہے کہ اللہ تعالی کو کوئی بھی شخص دنیا میں اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ، اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا، مگر یہ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے (اللہ تعالیٰ کا دیدار)معراج میں (ثابت ہے)، جیسا کہ شرح عقیدہ میں اس کی تصریح کی۔([16])

ثابتات محکمہ کی تفصیل اور حکم:

فتاوی رضویہ شریف میں ہے :” مانی ہوئی باتیں چار قسم ہوتی ہیں:(1)ضروریات دین ۔۔۔(2)ضروریات مذہب اہلسنت ۔ ۔۔(3) ثابتات محکمہ :ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی، جب کہ اس کا مفاد اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضمحل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنا دے۔ اس کے ثبوت کے لیے حدیث احاد، صحیح یا حسن کافی ، اور قول سوادِ اعظم و جمہور علماء کا سندِ وافی ، فان ید اﷲ علی الجماعۃ ( اﷲ تعالی کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ت) ان کا منکر وضوحِ امر کے بعد خاطی و آثم خطاکارو گناہگار قرار پاتا ہے، نہ بددین و گمراہ نہ کافر و خارج از اسلام ([17])

اسی میں ایک اور مقام پر ہے : ” ایک دو دس بیس علماء کبا ر ہی سہی اگر جمہور و سواد اعظم کے خلاف لکھیں گے اس وقت ان کے اقوال پر نہ اعتماد جائز نہ استناد ۔۔۔ اجماع امت تو شے عظیم ہے سواد اعظم یعنی اہلسنت کا کسی مسئلہ عقائد پر اتفاق یہاں اقوی الادلہ ہے، کتاب و سنت سے اس کا خلاف سمجھ میں آئے تو فہم کی غلطی ہے، حق سوادِ اعظم کے ساتھ ہے۔([18])

حوالہ جات:

[1]…۔ الغنیۃ فی مسئلۃ الرؤیۃ، صفحہ 23، دار الصحابۃ للتراث، بطنطا

[2]…۔ اتحاف المرید شرح جوھرۃ التوحید ، صفحہ 209، دار الكتب العلميه، بيروت

[3]…۔ المصدر السابق

[4]…۔ فتاوی رضویہ، جلد26،صفحہ602، رضا فاونڈیشن، لاہور

[5]…۔ کنز الفوائد شرح بحر العقائد،  صفحہ 73، مخطوط

[6]…۔ نسیم الریاض  فی شرح شفاء القاضی العیاض، جلد 3، صفحۃ 142-144، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[7]…۔ الشفاء بتعریف حقوق مصطفی مع حاشیہ الشمنی ، جلد1، صفحہ 200، دار الفکر، بیروت

[8]…۔ الیواقیت الجواھر فی بیان عقائد الاکابر، جلد1، صفحۃ 226، النوریہ الرضویہ، لاہور

[9]…۔ الشفاء بتعریف حقوق مصطفی ، جلد1، صفحہ 200، دار الفکر، بیروت

[10]…۔ نسیم الریاض، جلد3، صفحہ 138-139، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[11]…۔ الحدیقہ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ، جلد1، صفحۃ 312، مکتبہ نوریہ رضویہ، لاہور

[12]…۔ کنز الفوائد شرح بحر العقائد،  صفحہ 73، مخطوط

[13]…۔ المعتقد المنتقد،صفحہ138،دار اھل السنۃ،کراچی

[14]…۔ الیواقیت و الجواھر، جلد1، صفحہ 229، نوریہ رضویہ، لاہور

[15]…۔ شداخۃ المعتزلۃ، صفحہ 4، مخطوط

[16]…۔ منح الروض الازھرشرح الفقہ الاکبر،صفحہ 354،دار البشائر الاسلامیہ، بیروت

[17]…۔ فتاوی رضویہ،جلد29،صفحہ385، رضا فاؤنڈیشن، لاہور

[18]…۔ فتاوی رضویہ، جلد29،صفحہ 214-215، رضا فاونڈیشن، لاہور

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button