دیدار باری تعالی

حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کا  نبی اکرم کو دیدار الہی ہونے کا انکار کرنا

سوال: حضرت عائشہ  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیدار الہی ہونے کا انکار کرنے سے  کیا رؤیت باری تعالی  کا محال عقلی ہونا ثابت ہوتا ہے؟

سوال: حضرت عائشہ  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیدار الہی ہونے کا انکار کرنے سے  کیا رؤیت باری تعالی  کا محال عقلی ہونا ثابت ہوتا ہے؟

جواب:  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا متفقہ مؤقف یہ ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار عقلاً ممکن ہے  اور حضرت عائشہ  اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  کا رؤیت باری تعالی کے ”وقوع“ کے   انکار کرنے سے  اس   کا محال عقلی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس سے تو  دیدار باری تعالی کا عقلی جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ:

اولاً:  وقوع میں اختلاف ہونا ہی امکان کی دلیل ہوتا ہے کیونکہ اگر رؤیت باری تعالی محال ہوتی تمام صحابہ اس کے عدم وقوع پر متفق ہوتے۔

ثانیاً:  صحابہ کرام کے درمیان اس بات پر اختلاف ضرور ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معراج کی رات اللہ تعالی کا دیدار کیا یا نہیں ؟(اور اس میں بھی کثیر صحابہ کرام کا مختار مؤقف یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  معراج کی رات اللہ تعالی کے دیدار سے  مشرف ہوئے   ) لیکن    ان میں سے کسی نے بھی اس  وجہ سے  دوسرے کی تکفیرو تضلیل نہیں کی۔ اگر معاذ اللہ دیدار باری تعالی محال عقلی ہوتا تو یہ عقیدہ رکھنے والوں کی تکفیر و تضلیل کی جاتی ۔

ثالثاً: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک بھی  رؤیت باری تعالی ممکن ہے۔ آپ  رضی اللہ عنہانے فقط دنیا میں رؤیت باری تعالی کے ”وقوع“ میں اختلاف فرمایا  جبکہ آپ رضی اللہ عنہا دیدار باری تعالی کے نہ صرف عقلاً ممکن ہونے بلکہ آخرت میں اس کے واقع ہونے کا عقیدہ رکھتی  تھیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:

  1. جن کثیر صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آخرت میں اللہ تعالی کے دیدار کے وقوع کے متعلق احادیث روایت کیں ان میں  حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بھی شامل ہیں۔
  2. کثیر کبار صحابہ کرام سے آخرت میں سر کی آنکھوں سے رؤیت باری تعالی کے متعلق احادیث مروی ہیں اور کسی صحابی سے اس کا انکار ثابت نہیں ہے لہذا    آخرت  میں سر کی آنکھوں سے   دیدار باری تعالی کے وقوع پر  تمام صحابہ کرام بشمول حضرت عائشہ صدیقہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین  کا اجماع ہے۔
  • علما و متکلمین نے  خاص حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے متعلق صراحت کی ہے کہ  آپ رضی اللہ عنھا  آخرت میں اللہ تعالی کی رؤیت کا اثبات کرتی تھیں  فقط  دنیا میں دیدار الہی ہونے کا انکار  کرتی تھیں۔

وقوع میں اختلاف امکان کی دلیل ہے:

شرح العقائد النسفیہ میں ہے: ”اختلف الصحابۃ فی ان النبی علیہ السلام ھل رای ربہ لیلۃ المعراج ام لا؟ و الاختلاف فی الوقوع دلیل الامکان“ ترجمہ: صحابہ کرام کا اس معاملے میں اختلاف ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معراج کی رات اپنے رب عزوجل کا دیدار کیا یا نہیں؟ اور وقوع میں اختلاف امکان کی دلیل ہے۔ ([1])

اس کی شرح میں علامہ عبد العزیز پرھاڑوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”فان الرویۃ لو کانت محالاً لاتفقت الصحابۃ علی عدم وقوعھا“ ترجمہ: کیونکہ اگر رؤیت محال ہوتی تو صحابہ اس کے عدم وقوع پر متفق ہوتے۔([2])

مفاتیح الغیب میں امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” أن الصحابة رضي الله عنهم اختلفوا في أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم هل رأى الله ليلة المعراج؟  ولم يكفر بعضهم بعضا بهذا السبب ۔ وما نسبه إلى البدعة والضلالة، وهذا يدل على أنهم كانوا مجمعين على أنه لا امتناع عقلا في رؤية الله تعالى “ ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے معراج کی رات اللہ تعالی کا دیدار کیا ہے یا نہیں ؟ اور   ان میں سے کسی نے بھی اس  وجہ سے  دوسرے کی نہ تو تکفیر کی اور نہ  ہی فسق و گمراہی کی نسبت کی۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ اللہ تعالی کا دیدار عقلاً ممکن ہے۔  ([3])

            عمدۃ المرید میں امام اللقانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:”و اختلاف الصحابۃ الآتی  فی وقوعھا لا فی امکانھا و جوازھا“  ترجمہ: صحابہ کرام میں رؤیت باری تعالی کے وقوع  میں اختلاف ہوا ، اس کے عقلاً ممکن ہو نے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔([4])

دیدار باری تعالی کے وقوع سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” الموت قبل لقاء الله تعالى“  ترجمہ: اللہ تعالی سے ملاقات سے قبل موت ہے۔ ([5])

المسامرۃ فی شرح المسایرہ کے حاشیہ میں علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ   اس حدیث ”ھل تضامون فی رؤیۃ القمرلیلۃ البدرلیس بینکم و بینہ سحاب کذلک ترون ربکم “ کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ   حدیث مشہور ہے ؛  امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث اکیس صحابہ کرام سے  مروی ہے۔  اس کے بعد  علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رؤیت باری تعالی کے وقوع کے متعلق  احادیث دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں اور ان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بھی شامل ہیں۔ مکمل عبارت یہ ہے: ” ذكر الشيخ أبو عبد الله محمد بن على الحكيم الترمذي رحمه الله في تصنيف له فقال على صحة حديث الرؤية عدة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم أئمة منهم ابن مسعود و ابن عمر و ابن عباس وصهيب وأنس وأبو موسى الاشعرى وأبو هريرة وأبو سعيد الخدري وعمار بن ياسر وجابر ابن عبد الله ومعاذ  ابن جبل وثوبان وعمارة بن رويبة الثقفي وحذيفة وأبو بكر الصديق وزيد این ثابت وجرير بن عبد الله البجلي وأبو أمامة الباهلى وبريدة الاسلامى وأبو برزة وعبد الله بن الحارث بن جزء الزبيدي رضوان الله عليهم أجمعين فهم أحد وعشرون من مشاهير الصحابة وكبرائهم وعلمائهم نقلوه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واتفقوا على ثبوته ولم يشهر عن غيرهم خلاف ذلك فكان اجماعا انتهی ۔۔۔ قلت: وقد زدت عليه حديث أبي رزين العقيلي عند أحمد وأبي داود وابن ماجة وحديث عمارة بن الصامت عند أحمد وحديث كعب بن عجرة وفضالة بن عبيد عند ابن جرير الطبري وحديث أبي بن كعب عند الدارقطني وحديث عبد الله بن عمر وعند ابن أبي حاتم في تفسيره وحديث عائشة رضى الله عنها عند الحاكم “   ([6])

آخرت میں مسلمانوں کے لئے  دیدار باری تعالی کے وقوع  پر صحابہ کرام کا اجماع  :

الابانۃ  عن اصول الدیانۃ میں  امام اشعری رحمہ اللہ (وفات: 324ھ)  فرماتے ہیں: ” وقد روي عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الله عز وجل تراه العيون في الآخرة، وما روى عن أحد منهم أن الله تعالى لا تراه العيون في الآخرة، فلما كانوا على هذا مجتمعين، وبه قائلين، وإن كانوا في رؤيته تعالى في الدنيا مختلفين، ثبتت في الآخرة إجماعا“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کثیر اصحاب سے مروی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کا جاگتی آنکھوں سے  دیدار ہو گا اور کسی ایک صحابی سے بھی یہ مروی نہیں  کہ آخرت میں آنکھیں اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف نہیں ہوں گی، اگرچہ صحابہ دنیا میں اللہ تعالی کی رؤیت  کے وقوع کے بارے میں مختلف تھے لیکن جب آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع  پر متفق تھے اور یہی موقف رکھتے تھے تو آخرت میں دیدار باری  تعالی کا وقوع بالاجماع ثابت ہو گیا۔([7])       

   اتحاف المرید شرح جوہرۃ التوحید میں امام عبد السلام اللقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:  ”ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانوا مجتمعین علی وقوع الرؤیۃ فی الاخرۃ و ان الایات و الاحادیث الواردۃ فیھا محمولۃ علی ظواھرھا“ ترجمہ: تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع پر متفق تھے اور اس کے متعلق وارد احادیث کو ظاہر پر ہی محمول کرتے تھے۔([8])

المواقف مع  الشرح لقاضی عضد الدین الایجی رحمہ اللہ (وفات: 756ھ)   میں ہے: ”بل وفی صحتہ ایضا  (اجماع الامۃ قبل حدوث المخالفین علی وقوع الرؤیۃ ) و مثل ھذا الاجماع مفید للیقین“ ترجمہ:  بلکہ آخرت میں دیدار باری تعالی کے وقوع کے درست ہونے پر بھی  مخالفین کے وجود سے پہلے تمام امت کا اتفاق و اجماع تھا اور ایسا اجماع علم یقینی کا فائدہ دیتا ہے۔([9])

آخرت میں دیدار باری تعالی کے  وقوع  کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا عقیدہ:

تفسیر ابن کثیر میں ہے: ” كانت أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها، تثبت الرؤية في الدار الآخرة، وتنفيها في الدنيا “ ترجمہ:  ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آخرت میں اللہ تعالی کی رؤیت کا اثبات کرتی تھیں  اور دنیا میں دیدار الہی ہونے کا انکار کرتی تھیں۔([10])

مزید تفصیل کے لئے یہ دو مضمون ملاحظہ فرمائیں:

اللہ تعالی کے دیدار کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ

اللہ تعالی کا دیدار کیسے ہو گا؟

حوالہ جات:

[1]…۔ النبراس مع شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 276، مکتبۃ البشری، کراچی

[2]…۔  المصدر السابق

[3]…۔ مفاتیح الغیب، جلد13، صفحہ 103، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[4]…۔ عمدۃ المرید لجوھرۃ التوحید، صفحہ 757، دار النور، عمان

[5]…۔ صحیح مسلم، جلد4، صفحہ 2066، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[6]…۔ کتاب المسامرہ مع حاشیہ قاسم بن قطلوبغا، جلد1،  صفحہ 39-43، مکتبۃ الازھریہ، الازھر

[7]…۔ الابانۃ  عن اصول الدیانۃ، صفحۃ 51، دار الانصار، قاھرہ

[8]…۔ اتحاف المرید شرح جوھرۃ التوحید، صفحہ 206،  دار الکتب العلمیہ، بیروت

[9]…۔ شرح المواقف، جلد 8، صفحۃ 150، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[10]…۔ تفسیر ابن کثیر، جلد3، صفحہ 279،  دار الکتب العلمیہ، بیروت

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button