الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کہ اگرکسی نے مرغی کوحرم میں تیرمارکرذبح کیاتو کیایہ شکار میں شمارنہیں ہوگااورکیااس پردم لازم ہوگا؟(سائلہ : ماریہ عطاریہ،طالبہ : جامعۃ المدینہ،ناظم اباد،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں مذکورعمل شکارشمار نہیں ہوگااوراس پرکوئی کفارہ لازم نہیں ائے گا۔چنانچہ امام برہان الدین علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں : لا باس للمحرم ان يذبح الشاة والبقرة والبعير والدجاجة ( ) یعنی،محرم کیلئے گائے ،بکری،اونٹ اورمرغی ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014 ھ لکھتے ہیں : (ویجوز لہ) ای للمحرم وکذا لمن ھو فی الحرم (ذبح الابل والبقر والغنم والدجاج)۔ ( ) یعنی،محرم اورحرم میں موجودشخص کیلئے اونٹ،گائے ،بکری اورمرغ ذبح کرناجائزہے ۔ اورعلامہ عبدالرحمن بن محمدعمادالدین عمادی حنفی متوفی1051ھ لکھتے ہیں : ویجوز لہ ذبح الشاۃ والبعیر والدجاج۔ ( ) یعنی،محرم کیلئے بکری،اونٹ اورمرغ ذبح کرناجائزہے ۔ اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : اگر وہ جانور شکار نہ ہو بلکہ پلاؤ(گھریلو)ہوجیسے مرغی، بکری وغیرہ اس کو محرم بھی ذبح کرسکتا ہے اور حرم میں بھی ذبح کرسکتے ہیں ۔( ) کیونکہ اونٹ،گائے اورمرغی وغیرہاشکارنہیں ہیں ۔چنانچہ امام برہان الدین مرغینانی حنفی لکھتے ہیں : لان هذه الاشياء ليست بصيودٍ؛ لعدم التوحش۔( ) یعنی،کیونکہ یہ جانور وحشی(یعنی جنگلی)نہ ہونے کی وجہ سے شکارنہیں ہیں ۔ لہٰذاشخص مذکورپردم لازم نہیں ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب منگل،23/جمادی الاولیٰ،1443ھ،27/دسمبر،2021م