سوال:
گر کوئی مسلم کسی مسلمان ،فاسق وفاجر ،حرام کاروبار کرنے والے ،حرام کمائی والے کے ہاں مزدوری کرے تو اس کی اجرت اس کے مال حرام سے لے سکتا ہے یا نہیں؟جس کو وہ جانتا ہے کہ اس کی کمائی حرام ہے ،اجرت میں لینے والے کے لیے حلال ہوگی یا نہیں؟
جواب:
اس کا حکم بھی سوال اول کے جواب سے ظاہر ہے کہ اگروہ فاسق فاجر بعینہ اسی مال کو جو اس نے حرام طریق سے حاصل کیا ہے اور اجیر کو بھی معلوم ہوتو لینا ناجائز اور اگر بعینہ وہ نہ ہو بلکہ مثلا اس نے کوئی چیز خریدی ہے اگرچہ مال حرام ہی سے خریدی مگر حرام مال پر عقد ونقد جمع نہ ہوں تو یہ شی حرام نہیں اور اجیر اسےلے سکتا ہے۔عقد و نقد جمع ہونے کی یہ صورت ہے کہ حرام مال دیکھا کر کہا کہ مجھے اس کی فلاں چیز دے یہ مال حرام پر عقد ہوا ،پھر اس نے یہی حرام روپیہ دیا بھی یہ نقد ہوا تو ایسی صورت میں وہ خرید ی شی بھی حرام ہوگئی اور اگر ایسا نہیں مثلا یہ کہا کہ ایک روپیہ کی فلاں چیز دے ،اس نے دی،اس نے حرام روپیہ دیا یا حرام کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اسکی فلاں چیز دے اور وہ نہ دیا یا مال حلال کی کی طرف اشارہ کیا اور دیا حرام تو عقد و نقد مال حرام پر نہ ہوئی ،تو اب شی جائز ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ اور یہ سمجھ لینا کہ اس کاپیشہ حرام ہے لہذا یہ مال حرام ہی ہوگا ،غلط ہے کہ ممکن ہے کہیں سے قرض لایا ہو۔کیا جو لوگ حرام پیشے کرتے ہیں وہ قرض نہیں لیتے یا انھیں کوئی قرض نہیں دیتا یا ممکن ہے کہ جو چیز اس نے اس طرح پر خریدی تھی کہ عقد و نقد مال حرام پر مجتمع نہ تھے اسے بیچ کر یہ روپیہ لایا ہو،اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ حرام پیسے والے بعض ان میں کبھی کوئی جائز پیشہ بھی کرلیتے ہیں ،اس جائز سے یہ حاصل ہوا ہو،غرض جب تک اس خاص کی نسبت حرمت کا علم نہ ہو لینا جائز ہے ۔
اشباہ والنظائز میں ہے الحرمۃ تنتقل مع العلم۔
(فتاوی امجدیہ، کتاب البیوع،جلد3،صفحہ57-156،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)