احادیث قدسیہ
مشہور

حدیث قدسی کی تعریف

حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟ حدیث قدسی کی تعریف کیا ہے؟ حدیث قدسی کو حدیث قدسی کیون کہتے ہیں؟ اور اس طرح کے بہت سے سوالات کے جوابات

نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات اور آپ ﷺ کا پر عمل ہی قابل احترام، قابل اعتبار اور قابل عمل ہے۔ اصطلاح میں اسے حدیث کہتے ہیں۔ حدیث کی بہت سی قسموں میں سے ایک بہت اعلی اور اہم قسم حدیث قدسی بھی ہے۔ حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟ حدیث قدسی کی تعریف کیا ہے؟ حدیث قدسی کو حدیث قدسی کیون کہتے ہیں؟ اس تحریر میں ان تمام سوالات کے جوابات دئیے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

حدیث کے لغوی معنی:

جدید چیز، قدیم کی ضد[1]۔

خبر[2]

حدیث کی اصطلاحی تعریف:

                جس قول، فعل، تقریر، صفت، جاگتے یا سوتے ہوئے کی حرکات و سکنات کی نسبت نبی اکرم ﷺ کی طرف ہو، حدیث کہلاتی ہے۔

امام سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”ما اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قولا لہ او فعلا او تقریرا او صفۃ حتی الحرکات و السکنات فی الیقظۃ و المنام [3]

قدسی کے لغوی معنی:

                قدسی ”قدس“ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ”پاکیزہ“ اور ”طاہر“ ہونے کے ہیں۔ اسی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے  ”بیت المقدس“ اور ”ارض مقدسہ“ بولا جاتا ہے۔ [4]

                چونکہ اللہ تعالی تمام  عیوب سے پاک اور منزہ و مبرا ہے، اس لئے اللہ تعالی کا ایک نام ”قدوس“ بھی ہے۔”حدیث قدسی“ کے آخر میں ”ی“ اللہ تعالی کی طرف نسبت کی وجہ سے ہی ہے۔ یوں اس لفظ کا  مکمل معنی ہو گا:”پاکیزہ و مطہر ذات سے منسوب حدیث “

حدیث قدسی کی تعریف:

علما نے حدیث قدسی کی مختلف تعریفات بیان کیں ہیں۔ ذیل وہ تعریفات اور ان کی مختصر وضاحت پیش کی جا رہی ہے:

پہلی تعریف:

حدیث قدسی کی ایک تعریف، جو کہ سب سے مشہور ہے اور بہت سے آئمہ نے اسے بیان کیا ہے، یہ بیان کی جاتی ہے کہ

  1. ایسی حدیث جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اللہ تبارک وتعالی سے کبھی حضرت جبریل علیہ السلام،کبھی وحی یا الہام اور کبھی خواب کے ذریعے روایت کیا ہو۔
  2. اس کی تعبیر کے الفاظ کا چناؤ کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اختیار ہو (یعنی معنی اللہ تعالی کے ہوں اور الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اپنے ہوں)۔

 ملا علی قاری رحمہ اللہ حدیث قدسی کی تعریف فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

يَرْوِيْهِ عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالىٰ تَارَةً بِوَاسِطَةِ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلامُ وَتَارَةً بِالوَحْيِ وَالإِلْهَامِ وَالمَنَامِ مُفَوَّضًا إِلَيْهِ التَّعْبِيْرُ بِأيِّ عِبَارَةٍ شَاْءَ مِنْ أنْوَاعِ الكَلاَمِ [5]

دوسری تعریف:

  1. ایسی حدیث جس کے معنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اللہ تبارک وتعالی سے فقط الہام یا خواب کے ذریعے معلوم ہوئے ہوں۔
  2. اس کی تعبیر کے الفاظ کا چناؤ کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اختیار ہو (یعنی معنی اللہ تعالی کے ہوں اور الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اپنے ہوں)۔[6]

علامہ شرف الدین طیبی رحمہ اللہ حدیث قدسی کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

”الحدیث القدسی اخباراللہ رسولہ معناہ  بالالھام او بالمنام، فاخبر النبی امتہ بعبارۃ نفسہ“ [7]

دونوں تعریفات میں فرق:

پہلی  اور دوسری تعریف تقریباً ملتی جلتی ہیں، فرق صرف اتنا ہے پہلی تعریف کے قائلین کے نزدیک حدیث قدسی حضرت جبر یل علیہ السلام سے بھی مروی ہو سکتی ہے، جبکہ دوسری تعریف کے قائلین کے نزدیک حضرت جبریل علیہ السلام سے فقط قرآن پاک ہی مروی ہو سکتا ہے۔ احادیث قدسیہ فقط الہام یا خواب کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔

تیسری تعریف:

                ہروہ حدیث جس میں اللہ تعالی کا قول مذکور ہو، حدیث قدسی کہلاتی ہے۔ علامہ شمس الدین کرمانی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

هذا قول الله وكلامه [8]

چوتھی تعریف:

احادیث قدسی سے مراد وہ احادیث جنہیں اللہ تعالی  نے معراج کی رات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف وحی کیا ۔ انہیں اسرار وحی بھی کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کو علامہ چلپی  نے حاشیہ تلویح، رکن اول میں بیان فرمایا ہے۔

پانچویں تعریف:

  1. ایسی حدیث جو کہ اللہ تعالی کی طرف منسوب ہو یوں کہ اللہ تعالی کا کلام ہو۔
  2. اس میں ایجاز (اس جیسا بنانے سے عاجز ہونا)نہ پایا جائے۔

امام کتانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الرسالۃ المستطرفہ میں حدیث قدسی کی تعریف یوں لکتے ہیں:

ھو المسندة إلى الله تعالى بأن جعلت من كلامه سبحانه ولم يقصد إلى الإعجاز بها [9]

مذکورہ بالا تعریفات میں فرق:

                آخری تینوں  تعریفیں تقریباً ملتی جلتی ہیں، ہاں آخری تعریف میں قیودات زیادہ اور جامع مانع ہے۔

البتہ یہ تعریف پہلی دو تعریفوں سے  خاصی مختلف ہے۔  پہلی دو تعریفوں کے مطابق حدیث قدسی  کے معنی اللہ تعالی کی طرف سے وحی شدہ ہوتے ہیں لیکن الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اپنے ہوتے ہیں جبکہ آخری تین تعریفوں کے مطابق معنی کے ساتھ ساتھ حدیث قدسی کے الفاظ بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی شدہ ہوتے ہیں۔

راجح تعریف:

                راقم کے نزدیک مذکورہ بالا آخری تعریف راجح ہے، جس کے مطابق  حدیث قدسی کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اس کی وجوہات و دلائل کے لئے اس لنک پر کلک کریں۔

حوالہ جات:

[1] : فتح المغیث، جلد1، صفحہ 10، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[2] : تاج العروس من جواہر القاموس، جلد5، صفحہ 208، 209

[3] : فتح المغیث، جلد1، صفحہ 10، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[4] : لسان العرب، جلد6، صفحہ 168-169

[5] : احادیث القدسیہ الاربعینیہ، صفحہ 10

[6] : امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اسی تعریف کو اختیار فرمایا ہے۔

[7] : الکواکب الدراری، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[8] : الکوکب الدراری فی شرح صحیح بخاری،کتاب الصوم،  جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی،بیروت

[9] : الرسالۃالمستطرفۃ، صفحہ 81۔ دار البشائر اسلامیہ، بیروت

Leave a Reply

Back to top button