پچھلے مضمون میں بیان ہوا کہ تمام احادیث نبویہ بھی حقیقتاً اللہ تعالی کی وحی ہی ہوتی ہیں اور حدیث قدسی بھی اللہ تعالی کی وحی ہوتی ہے۔ یہاں سوال ذہن میں آتا ہے کہ حدیث قدسی اور حدیث نبوی میں فرق کیا ہے؟ اور ان دونوں کا الگ الگ نام کیوں رکھا گیا؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ علما نے حدیث قدسی اور دیگر احادیث نبویہ میں درج ذیل فرق بیان فرمائے ہیں:
- حدیث قدسی بیان کرتے وقت اللہ تعالی کی طرف نسبت کی جاتی ہے جبکہ حدیث نبوی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی طرف نسبت ہوتی ہے۔ فتح المبین میں ہے: ” القدسي مضاف إلى الله ومروى عنه بخلاف غيره “[1]
- حدیث قدسی اکثر اللہ تعالی کی ذات و صفات پر مشتمل ہوتی ہیں جبکہ حدیث نبوی تمام موضوعات کے متعلق ہیں۔علامہ کرمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” قد يفرق بأن القدسي ما يتعلق بتنزيه ذات الله تعالى وبصفاته الجلالية والجمالية منسوبا إلى الحضرة المقدسة تعالى وتقدس “[2]
- عام حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سند نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک ہوتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی سند اللہ تعالی تک ہوتی ہے۔ڈاکٹر عزا لدین ابراھیم لکھتے ہیں: ”التمییز بین الحدث القدسی و الحدیث النبوی: فالنبوی ییتھی سندہ الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، بینما یرتفع القدسی الی اللہ عزوجل فالقول فیہ لہ جل جلالہ“[3]
- حدیث قدسی میں اکثر متکلم کی ضمیر استعمال ہوتی ہے جبکہ دیگر حدیث نبوی میں ایسا نہیں ہوتا۔ فتح المبین میں ہے: ”ان ھذہ الاحادیث اشتملت علی ضمائر التکلم خاصۃ بہ تعالی “[4]
- راجح قول کے مطابق حدیث قدسی میں الفاظ و معنی دونوں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ حدیث نبوی میں معنی اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہوتے ہیں۔
حوالہ جات:
[1] : الکوکب الدراری فی شرح صحیح بخاری،کتاب الصوم، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی، بیروت
[2] : مصدر السابق
[3] : اربعون القدسیہ، صفحہ 26، دار القرآن الکریم، بیروت، 1999ء
[4] : فتح المبین لشرح الاربعین، صفحہ 178