حج کے متعلق مسائل فقہیہ
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھرنے اورکعبہ معظمہ کے طواف کا اور اس کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ ۹ھ میں فرض ہوا اور اس کی فرضیت قطعی ہے جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے مگر عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے( عالمگیری ص۲۱۶ج۱۔درمختار ص۱۸۹ج۲۔ ردالمختار ص۱۸۹ج۲۔ بحرالرائق ص۳۰۷ ج ۲۔ تبیین الحقائق ص۲ج۲،المسط۱۷)
مسئلہ ۱ : دکھاوے کے لئے حج کرنا اور مال حرام سے حج کو جا نا حرام ہے۔ حج کو جانے کے لیے جس سے اجازت لینا واجب ہے بغیر اس کی اجازت کے جا نا مکروہ ہے۔ مثلا ما ں باپ اگر اس کی خدمت کے محتاج ہوں اور ماں باپ نہ ہوں تو دادا دادی کا بھی یہی حکم ہے ۔ یہ حج فرض کا حکم ہے اور نفل ہو تو مطلقاً والدین کی اطاعت کرے (عالمگیری ص ۲۱۷،۲۳۰ج۱،ردالمختار ص۱۹۱ج۲، درمختار ص۱۹۱ج۲،بحر ص۳۰۸،۳۰۹ج۲)
مسئلہ ۲: لڑکا خوبصورت امرد ہو تو جب تک داڑھی نہ نکلے باپ اسے جانے سے منع کرسکتا ہے (در مختار ص۱۹۱ ج ۲،عالمگیری ص۲۱۶ج۱،تبیین الحقائق ص ۳ ج۲، بحرص۳۰۹،۳۱۰ج۲)
مسئلہ ۳ : جب حج پر لئے جانے پر قادر ہو حج فورا فرض ہو گیا ۔ یعنی اسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا ادا ہی ہے قضا نہیں (در مختار ص۱۹۱، ۱۹۲ج۲،عالمگیری ص۲۲۱ جا، بحر۳۰۸ج۲)۔
مسئلہ ۴ : مال موجود تھا اور حج نہ کیا پھر مال تلف ہوگیا تو قرض لے کرجائے اگرچہ جانتا ہو کہ یہ قرض ادا نہ ہوگا ،گر نیت یہ ہو کہ اللہ عزہ جل قدرت دے گا ادا کروں گا۔ پھر اگر ادانہ ہوسکا اور نیت ادا کی تھی تو امید ہے مولا عزوجل اس پر مواخذہ نہ فرمائے(درمختار ص۱۹۲ ج۲، بحر ص۳۱۴ج۲)۔
مسئلہ ۵ : حج کا وقت شوال سے دسویں ذالحجہ تک ہے کہ اس سے پیشتر حج کے افعال نہیں ہوسکتے سواا حرام کے کہ احرام اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اگر چہ مکروہ ہے(درمختار ص ۲۰۵،ردالمحتار ص۲۰۶ ج۲)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔