ARTICLESشرعی سوالات

حج کی چھوڑی ہوئی سعی دوسرے سفر میں ادا کرنے پر دَم ساقط ہو گا یا نہیں ؟

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر حاجی طوافِ زیارت کے بعد سعی کی ادائیگی میں دیر کر دے یہاں تک کہ ایام نحر (قربانی کے دن ) گزر جائیں تو اس پرکیا لازم ہو گا او رکون سی چیز اس پر حرام رہے گی اور اگر وہ سعی کئے بغیر وطن واپس ہو گیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟ اور اگر وطن سے دوسرے سفر حج یا عمرہ میں آ کر چھوڑی ہوئی سعی کر لے تو دَم ساقط ہو گا یا نہیں ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ حج میں دو اِحلال ہیں ایک حلق یا تقصیر ہے ، دوسرا طوافِ زیارت، پہلے سے ہر شے حلال ہوجاتی ہے سوائے بیوی کے ساتھ جماع اور دواعی جماع کے اور دوسرے سے یہ بھی حلال ہو جاتا ہے ، چنانچہ ملا علی القاری متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :

إذفی الحجّ إحلالین : أن إحلال بالحلق، و یحلّ بہ کلّ شیٔ إلاّ النّساء ، وإحلالاً بطواف الزیارۃ، ویحلّ بہ النّساء أیضاً (30)

یعنی، کیونکہ حج میں دو اِحلال ہیں ، احلال بالحلق اور اس سے ہر شے حلال ہو جاتی ہے سوائے عورت کے اور دوسرا طوافِ زیارت سے اِحلال اور اس سے عورت بھی حلال ہو جاتی ہے ۔ اور علماء کرام نے تصریح کی ہے کہ حاجی اگر حلق کے بعد طوافِ زیارت کر کے فارغ ہو اور اس نے بیوی سے جماع کیا پھر سعی تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

لو طاف لحجتہ و واقع النساء ثم سعی بعد ذلک أجزأہ (31)

یعنی، اگر اپنے حج کے لئے طواف کیا اور بیویوں سے جماع کیا پھر اس کے بعد سعی کی تو اسے جائز ہوا۔ اور امام ابو منصور بن مکرم بن شعبان الکرمانی الحنفی لکھتے ہیں :

و لو سعی بعد ما حلّ من حجّتہ و واقع النساء أجزأہ، لأن السعی غیر مؤقّت فشرطہ أن یوجد بعد الطواف و قد وُجِد (32)

یعنی، اگر حج سے (طوافِ زیارت کر کے ) فارغ ہوا اور بیویوں سے جماع کیا پھر سعی کی تو اسے جائز ہے کیونکہ سعی غیر مؤقّت ہے پس اس کی شرط یہ ہے طواف کے بعد ہو اور وہ پائی گئی (یعنی سعی کا طواف کے بعد ہونا پایا گیا)۔ جماع کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس پر احلال موقوف نہیں ہے چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں :

و أما السعی عندنا من الواجبات فلا یتوقّف الإحلال علیہ (33)

یعنی، مگر سعی ہمارے نزدیک واجبات سے ہے تو اِحلال اس پر موقوف نہیں ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی لکھتے ہیں :

لو أخّر السعی عن أیام النحر، و لو شہوراً لا شیٔ علیہ (34)

یعنی، اگر سعی کو قربانی کے دنوں (یعنی 10، 11 او ر12 تاریخ کے غروبِ آفتاب) سے مؤخّر کیا، اگرچہ کئی ماہ (اس میں تاخیر کی) تو اس پر کچھ (لازم) نہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پر کوئی پابندی باقی نہیں ہے ۔اور نہ ہی اس تأخیر کی وجہ سے اس پر کچھ لازم آیا کیونکہ سعی مؤقّت نہیں ہے اس کی شرط یہی ہے کہ طواف کے بعد ہو جیسا کہ مندرجہ بالا عبارت فقہاء سے ثابت ہے اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

فالسعی و إن جاز تأخیرہ عن أیام النحر و التشریق الخ (35)

یعنی، سعی اگرچہ یوم نحر اور ایام تشریق سے اس کی تأخیر جائز ہے الخ۔ ہاں اگر اس نے سعی کو ترک کر دیا اور وطن چلا گیا تو ترکِ سعی کی وجہ سے اس پر دم لازم ہو گا، کیونکہ سعی حج کے واجبات میں سے ہے اور ترک واجب کی وجہ سے دم لازم ہو گا۔ اور ایسا واجب جو مؤقّت نہ ہو اس کے ترک کا تحقّق خروجِ مکہ کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1008ھ نے ’’تنویر الأبصار‘‘ کی عبارت کہ ’’طوافِ صدر کے ترک پر دم لازم ہے ‘‘ کے تحت لکھا ہے :

و لا یتحقق الترک إلا بالخروج من مکۃ (36)

یعنی، ترک متحقّق نہیں ہوتا مگر مکہ مکرمہ سے نکلنے سے ۔ (یعنی مکہ مکرمہ سے نکلنے سے مراد میقات سے نکلنا ہے ) کیونکہ جب تک وہ مکہ میں ہے اس وقت تک اُس سے اِس کا مطالبہ نہیں ہے ، چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

لأنہ ما دام فیہا لم یطالب بہ ما لم یرد السفر (37)

یعنی، کیونکہ جب تک مکہ میں ہے اس سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جب تک وہ سفر کا ارادہ نہ کرے ۔ اور اگر وہ سفر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اب اس سے شرعاً مطالبہ ہے کہ وہ طوافِ صدر کرے جب نہیں کرتا اور چلا جاتا ہے تو ترک متحقّق ہو جاتا ہے اور پھر اگراس واجب کے ترک پر لازم آنے والا دَم نہیں دیتا بلکہ آ کر ادا کرتا ہے چاہے کتنا عرصہ بعد ہی آئے تو اُس پر کچھ لازم نہیں آتا چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ لکھتے ہیں : أشار بالترک إلی أنہ لو أتی بما ترکہ فإنہ لا یلزمہ شییٔ مطلقاً لأنہ لیس بمؤقّت (38) یعنی، مصنّف نے ترک فرما کر اس طرح اشارہ کیا کہ اگر وہ اسے ادا کر لیتا ہے جسے اس نے ترک کر دیا تو اس پر مطلقاً کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ وہ (یعنی طوافِ صدر) مؤقّت نہیں ہے ۔ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی صاحب بحر کی مندرجہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

أی لیس لہ وقت یفوت بفوتہ (39)

یعنی، اس کے لئے کوئی وقت (مقرر) نہیں ہے کہ جس کے فوت ہونے سے طوافِ صدر فوت ہو جائے ۔ اسی طرح سعی بھی حج کے واجبات سے ہے اور غیر مؤقّت ہے یعنی اس کے لئے بھی کوئی وقت مقرر نہیں ہے جیسا کہ پہلے گزرا، اس لئے تاخیر پر کوئی چیز لازم نہیں آتی اور جب تک واپسی کا ارادہ نہ کرے اس سے سعی کا مطالبہ نہیں پھر اگر سعی کئے بغیر چلا جائے تو ترکِ سعی متحقّق ہو جاتا ہے اب اس کی دو صورتیں ہیں یا تو لوٹ آئے اور سعی کرے تو اس صورت میں یہ واجب اس کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا اگر نہ لوٹا تو دم دینا ہو گا پھر لوٹنے کی دو صورتیں ہیں اگر حدودِ میقات کے اندر سے لوٹا تو بلا احرام آ سکتا ہے اور اگر میقات سے باہر نکل گیا پھر لوٹا تو حرم میں داخل ہونے کے لئے احرام باندھ کر آنا ہو گا اگر عمرے کا احرام باندھ کر آیا ہے تو پہلے عمرہ مکمل کرے گا پھر وہ سعی کرے گا جسے چھوڑ گیا تھا اور اگر حج کا احرام باندھ کر آتا ہے پھر حجِ تمتع ہے یا حجِ افراد یا حجِ قران ، اگر تمتع ہے اور ہدی ساتھ نہیں لایا تو عمرہ کے افعال سے فارغ ہو کر چھوڑی ہوئی سعی کرے اگر حج تمتع ہے اور ہدی لایا ہے یا حج قران ہے عمرہ کے بعد احرام کے ساتھ ہی سعی کرے گا اور اگر حجِ افراد ہے تو طوافِ قدوم کے بعد سعی کرے گا، چنانچہ صاحب فتح القدیر کے شاگرد (کما فی منحۃ الخالق للشامی) علامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں :

و لو ترک السعی و رجع إلی أہلہ فأراد العود یعود بإحرام جدید و إذا أعاد سقط الدم (40)

یعنی، اگر سعی کو چھوڑ دیا اور اپنے اہل کی طرف لوٹا (یعنی میقات سے نکل گیا۔ مناسک ملا علی قاری) پھر مکہ لوٹنے کا ارادہ کیا تو نئے احرام کے ساتھ لوٹے گا (یعنی حرم میں داخل ہونے کے لئے ۔ مناسک ملا علی قاری) پس جب اس نے (چھوڑی ہوئی سعی) کا اعادہ کر لیا تو دَم ساقط ہو گا۔ اس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

و قدم تقدّم أنہ إذا عاد بإحرام جدید فإن کان بعمرۃ فیأتی أولاً بأفعال العمرۃ، ثم یسعی، وإن کان بحج فیطوف أولاً طواف القدوم ثم یسعی بعدہ (41)

یعنی، پہلے بیان ہوا کہ وہ نئے احرام کے ساتھ لوٹے گا پس اگر عمرے کا احرام ہے تو پہلے عمرے کے افعال ادا کرے پھر سعی کرے گا اور اگر حج کا احرام ہے تو پہلے طوافِ قدوم کرے پھر اس کے بعد سعی کرے ۔ اب یہ مسئلہ کہ سعی چھوڑ کر وطن چلے جانے کے بعد واپس آ کر سعی ادا کر کے دَم ساقط کروانا افضل ہے یا اس صورت میں دَم دے دینا افضل ہے پھر چاہے واپس آئے یا نہ آئے تو فقہاء کرام نے فرمایا ہے ایسی صورت میں دَم دے دینا افضل ہے ، چنانچہ ’’کتاب الأصل‘‘ میں امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 189ھ لکھتے ہیں :

و الدم أحب إلیّ من الرجوع (42)

یعنی، میرے نزدیک لوٹنے سے دم دے دینا زیادہ پسندیدہ ہے ۔ ملا علی قاری نے امام محمد علیہ الرحمہ کی مندرجہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا :

لأن فیہ منفعۃ الفقراء، قلتُ : و محنۃ الأغنیاء (43)

یعنی، اس میں فقراء کا فائدہ ہے اور (ملا علی قاری فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں مالداروں کے لئے آزمائش ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعاء، 8شوال المکرم 1427ھ، 1نوفمبر 2006 م (233-F)

حوالہ جات

30۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب طواف الزیارۃ، ص328

31۔ لباب المناسک ، باب الجنایات، فصل : فی الجنایۃ فی السعی،ص219

32۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی فی بیان نسک الحج من فرائضہ و سننہ الخ، فصل فی الترتیب فیہ (أی فی السعی)،1/473

33۔ المسلک المتقسّط إلی المنسک المتوسّط، باب طواف الزیارۃ، ص328

34۔ لُباب المناسک، باب الجنایات، النوع الخامس : فی الجنایات فی أفعال الحج کالطّواف والسعی، فصل فی الجنایۃ فی السعی، ص219

35۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، باب الجنایات، مطلب : لا یجب الضمان الخ، 3/719

36۔ الدر مختار، کتاب الحج، باب الجنایات، ص167

37۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : ولا یتحقق الترک ولا بالخروج من مکۃ، 3/665

38۔ البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب الحج، باب الجنایات،3/21

39۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : ولا یتحقق الترک ولا بالخروج من مکۃ، 3/665

40۔ لباب المناسک، باب الجنایات، فصل فی الجنایۃ فی السعی،219

41۔ المسلک المتقسّط إلی المناسک المتوسط، باب الجنایات، فصل فی الجنایۃ فی السعی، ص504

42۔ المبسوط، کتاب المناسک، باب السعی بین الصفا و المروۃ،2/342

43۔ المسلک المتقسّط إلی المنسک المتوسط، باب الجناایت وأنواھا، النوع الخامس : الجنایات فی أفعال الحج، فسل فی الجنایۃ فی السع، تحت قولہ : واذا أعادہ سقط الحرم،ص504

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button