ARTICLES

حج کی سعی کے تارک پرنئے احرام کے ذریعے مکہ مکرمہ لوٹنے پرحکم؟

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اپ نے ’’فتاوی حج و عمرہ ‘‘میں حج کی سعی چھوڑنے والے حاجی کے بارے میں لکھاہے کہ اگروہ سعی کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ لوٹنے کاارادہ کرے تونئے احرام کے ذریعے لوٹے گا،توپوچھنایہ ہے کہ اگروہ سعی کی ادائیگی کے لئے احرام عمرہ کے ذریعے مکہ مکرمہ لوٹے گا،توکیااس پرحج کی سعی سے پہلے عمرہ کااحرام باندھنے کی وجہ سے دم لازم ہوگایانہیں ؟ نیز اگر افعال عمرہ ادا کرکے حج کی چھوڑی ہوئی سعی کرلے تو کیا دم ساقط ہو جائے گا؟

(سائل : صوفی اقبال ضیائی،مدینہ منورہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس پردم لازم نہیں ہوگا،کیونکہ لزوم دم کی کوئی وجہ نہیں ،اورحج کی سعی سے قبل احرام عمرہ باندھنے پرلزوم دم کاحکم ایسے حاجی کے لئے ہے کہ جومیقات سے باہرنہ گیاہو، کیونکہ ایسے شخص کواحرام عمرہ توڑنے کاحکم ہے اورجب وہ احرام توڑے گاتواس پرنہ صرف دم لازم ائے گابلکہ چھوڑے ہوئے عمرہ کوبھی
قضاکرناہوگا،اوراگرایساشخص احرام نہ توڑے گا،تواس پردومناسک جمع کرنے کے سبب دم لازم ہوگا۔ چنانچہ مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں :

اگرشخصے احرام بست بعمرہ بعد از وقوف قبل الحلق… یا بعد الحلق و الطواف قبل از سعی بین الصفا و المروۃ…کہ در جمیع این صور واجب باشد بروی رفض عمرہ و نیز لازم اید بروی دم بواسطہ رفض و اگر رفض نکرد واجب ایدد بروی دم بواسطہ جمع میان دو نسک۔()

یعنی،اگرکوئی شخص وقوف عرفات کے بعدحلق سے قبل یاحلق وطواف کے
بعدصفاومروہ کے درمیان سعی سے قبل عمرہ کا احرام باندھے ،توان تمام صورتوں میں اسے احرام عمرہ توڑناواجب ہوگانیزاس پرعمرہ کا احرام توڑنے کے سبب دم بھی واجب ہوگا() اوراگروہ عمرہ کااحرام نہ توڑے گاتواس پر دومناسک جمع کرنے کے واسطے دم لازم ہو گا۔ لیکن اگرحاجی سعی کئے بغیرمیقات سے باہرچلاجائے ،تواس وقت سعی کوچھوڑناچونکہ متحقق ہوجائے گااورترک سعی متحقق ہونے کی صورت میں اس پردم لازم ائے گا،اوراس کاحج مکمل ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں :

ومن ترك السعي بين الصفا والمروة فعليه دم وحجه تام۔()

یعنی،جوصفااورمروہ کے درمیان سعی کوچھوڑدے تواس پرایک دم لازم ہوتاہے اوراس کاحج مکمل ہوجاتاہے ۔ لہذامعلوم ہواکہ اگرکوئی حج کی سعی چھوڑدے ،پھروہ اسے ادا کرنے کے لئے احرام عمرہ کے ذریعے مکہ مکرمہ لوٹے اوراسی احرام کے ذریعے عمرہ کرلے ، تو پہلے نسک کی تکمیل کے سبب دومناسک کاجمع ہونایااحرام کوتوڑنانہیں پایا جائے گا، اوریہ بھی معلوم ہے کہ لزوم دم ان دومیں سے کسی ایک امرکے پائے جانے پر موقوف ہے ،توایسے شخص پرنئے احرام کے ذریعے مکہ مکرمہ لوٹنے کی وجہ سے دم لازم نہیں ہوگاکیونکہ لزوم دم کی’’علت‘‘مفقودہوگی،اور’’ارتفاع علت‘‘کو ’’ارتفاع معلول‘‘مستلزم ہے ۔ اوراگر وہ افعال عمرہ ادا کرکے حج کی چھوڑی ہوئی سعی کرے گاتواس سے دم ساقط ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 992ھ اورملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

(ولو ترک السعی ورجع الی اھلہ)ای بان خرج من المیقات (فاراد العود) ای الی مکۃ یعود باحرامٍ جدیدٍ واذا اعادہ سقط الدم) ()

یعنی ، اگر کوئی سعی چھوڑ کر اپنے اہل کو لوٹ گیا بایں طور پر کہ وہ میقات سے نکل گیا پھر اس نے مکہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا تووہ نئے احرام کے ساتھ لوٹے گا اور جب وہ لوٹ کر سعی کرے گا تو اس سے دم ساقط ہوجائے گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب منگل،27ذوالحجہ1441ھ۔18،اگست2020م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button