استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کسی شخص نے تمتع کیا جس میں طوافِ زیارت کے بعد سعی نہ کی اور نہ ہی اس نے یہ سعی پہلے کی تھی اور طوافِ زیارت کے ایام ختم ہو گئے اب اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
(السائل : محمد عرفان ضیائی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اسے چاہئے کہ وہ جب تک مکہ مکرمہ ہے تو سعی کر لے اور اس پر کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ سعی غیر موقّت ہے ، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان الکرمانی الحنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
لأن السعی غیر مؤقّت (26)
یعنی، کیونکہ سعی غیر مؤقّت ہے ۔ اور اسعد محمد سعید الصاغرجی ’’ درمختار و رد المحتار‘‘ کی تلخیص میں لکھتے ہیں : لأن السعی غیر مؤقت بل الشرط أن یأتی بہ بعد الطواف و قد وجد (27) یعنی، کیونکہ سعی غیر مؤقّت ہے بلکہ شرط یہ ہے کہ سعی طواف کے بعد پائی جائے وہ پائی گئی۔ صحتِ سعی کی ایک شرط اس کا طواف کے بعد پایا جانا ذکر کیا گیا اور طواف چاہے فرض ہو یا نفل، طواف کے بعد سعی کی گئی تو درست ہو جائے گی، فرق صرف یہ ہے کہ حج سے قبل کرے گا تو احرام میں نفل طواف کے بعد کرے گا اور اگر وقوف کے بعد کرے گا تو طوافِ زیارت کے بعد کرے گا تو احرام ہونا شرط نہ ہو گا، دس ذی الحجہ کو حلق کے بعد کرے گا تو بغیر احرام میں کرے گا اور حلق سے قبل کیا تو طوافِ زیارت کی طرح سعی بھی احرام میں کرے گا، اس لئے نہیں کہ احرام اس طواف و سعی کے لئے شرط ہے بلکہ اس لئے کہ حلق یا تقصیر سے قبل اُسے سلے ہوئے کپڑے پہنناجائز نہیں ۔ اور پھر صورت مسؤلہ میں حج کی کوئی پابندی بھی اس کے ساتھ متعلق نہیں اس لئے کہ سوائے جماع کے ساری پابندیاں تو حلق یا قصر سے اُٹھ گئیں باقی رہی تھی آخری پابندی وہ طوافِ زیارت کے ساتھ معلّق تھی، وہ بھی اس نے کر لیا تو اب تو اس پر کوئی پابندی باقی نہ رہی اور سعی میں تأخیر کی کہ بارہ (12) ذو الحجہ کا آفتاب غروب ہو گیا یعنی طوافِ زیارت کا واجب وقت گزر گیا اس کے بعد سعی کی تواس پر کچھ لازم نہیں ہو گا۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی لکھتے ہیں :
لو أخّر السعی عن أیام النحر ، و لوشھورًا لا شیٔ علیہ
یعنی، اگر سعی میں قربانی کے دنوں سے (یعنی 10، 11، 12 کے غروب آفتاب سے ) سے مؤخّر کیا ، اگرچہ کئی ماہ (اس میں تاخیر کی) تو اس پر کچھ (لازم ) نہیں ۔ اس کے تحت ملا علی القاری متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :
إلا أنہ یکرہ لہ (28)
یعنی، سعی کو ایام نحر سے مؤخّرکرنا مکروہ ہے ۔ اور یہاں کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہو گی کیونکہ کراہت تحریمی ہوتی تو کوئی جرمانہ لازم آ سکتا تھا حالانکہ کوئی جرمانہ لازم نہیں ہوا اور اگر کوئی شخص سعی چھوڑ کر آ جاتا ہے تو دَم دے دے کہ اس کا تدارک ہو جائے اور اگر دَم نہیں دیتا واپس جا کر وہ اسے ادا کرتا ہے اگرچہ کئی ماہ بعد تو بھی سعی ادا ہو جائے گی اور اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح کی ہے اگرچہ تاخیر شرعاً ناپسندیدہ ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 8شوال المکرم 1427ھ، 1نوفمبر 2006 م (231-F)
حوالہ جات
26۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی، فصل فی الترتیب فیہ (أی فی السعی)،1/473
27۔ التیسیر فی الفقہ الحنفی، کتب الحج، باب الجنایات، ص674
28۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل فی الجنایۃ فی السعی، ص554