استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ منیٰ روانگی سے قبل طوافِ زیارت کی سعی کر لینا جائز ہے مگر افضل کیا ہے کہ طوافِ زیارت کی سعی طوافِ زیارت کے بعد کرے یا منیٰ روانگی سے قبل احرام باندھ کر رمل و اضطباع کے ساتھ نفلی طواف کرنے کے بعد کرے ؟
(السائل : طالب قادری، جمشید روڈ، کراچی )
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یہی سوال علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی نے لکھا ہے کہ :
وہل الأفضل تقدیم السعی أو تٔاخیرہ إلی وقتہ الأصلی
یعنی، کیا سعی کی تقدیم افضل ہے یا اس کی اپنے اصلی وقت (یعنی طوافِ زیارت کرنے کے بعد) کی طرف تأخیر۔ تو خود ہی جواب میں لکھتے ہیں کہ :
قیل الأول، و قیل : الثانی
یعنی، کہا گیا کہ پہلا (یعنی تقدیمِ سعی) افضل ہے ، اور کہا گیا کہ دوسرا (یعنی طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنا) افضل ہے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فضیلت میں اختلاف ہے اور اختلاف غیر قارن کے حق میں ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و الخلاف فی غیر القارن
یعنی، اختلاف غیر قارن میں ہے ۔ اور ملا علی قاری حنفی اس کے تحت لکھتے ہیں :
و ہو المفرد مطلقاً و المتمتع آفاقیاً بلا شبہۃ أو مکیاً ففیہ مناقشۃ (10)
یعنی، اور غیر قارن مطلقاً مفرد بالحج ہے اور بلا شبہ متمتع آفاقی ہے یا مکی ہے تو اس میں مناقشہ ہے ۔ اور قارن کے بارے میں علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
أما القارن فالأفضل لہ تقدیم السعی أو یسنّ (11)
یعنی، قارن تو اس کے لئے تقدیم سعی افضل ہے یا مسنون ہے ۔ اگر قارن کے لئے تقدیم سعی افضل ہو تو تاخیر بلا کراہت جائز قرار دی جائے گی اور اگر مسنون ہو تو تاخیر مکروہ تنزیہی ہو گی چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ علامہ رحمت اللہ سندھی کی مندرجہ بالا عبارت کہ قارن کے لئے تقدیم سعی افضل ہے کے تحت لکھتے ہیں :
و یجوز تأخیر ہ بلا کراہۃ
یعنی، اور اس کی تأخیر بلا کراہت جائز ہے ۔ اور قارن کے لئے تقدیم سعی مسنون ہے کے تحت لکھتے ہیں :
أی فیکرہ تأخیرہ لأنہ ﷺ طاف طوافین و سعی سعین قبل الوقوف بعرفۃ (12)
یعنی، یا مسنون ہے یعنی تو اس کی تأخیر مکروہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوفِ عرفہ سے قبل دو طواف اور دوبار سعی فرمائی۔ اور ہم نے کراہت کو تنزیہی کے ساتھ مقید کر دیا کیونکہ یہ کراہت سنّت کے مقابلے میں ہے نہ کہ واجب کے مقابلے میں ۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ حجِ افراد کرنے والے کے لئے ، متمتع آفاقی اور مکی کے لئے تقدیم سعی افضل ہے یاتاخیر اس میں اختلاف ہے بعض نے تقدیم سعی کے افضل ہونے کو ترجیح دی ہے اور چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ حاجی کے منٰی روانہ ہونے سے قبل طوافِ زیارت کی سعی کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں :
و ہو أفضل عندنا لما مرّ فی فصل طواف القدوم (13)
یعنی، یہ ہمارے نزدیک افضل ہے جیسا کہ طوافِ قدوم کی فصل میں گزرا۔ اور امام کرمانی کے نزدیک یہ فضیلت اس وقت ہے جب وہ یوم ترویہ یعنی آٹھ ذوالحجہ کے زوال سے قبل طواف و سعی کر لے ورنہ افضل یہ ہے کہ وہ بلا سعی منی کو روانہ ہو جائے اور طوافِ زیارت کے بعد سعی کرے چنانچہ لکھتے ہیں :
روی الحسن عن أبی حنیفۃ رضی اللہ عنہ أنہ إذا أحرم بالحج یوم الترویۃ أو قبلہ إن شاء طاف و سعی قبل أن یأتی إلی منی، و ہذا أفضل عندنا إلا أن یہل بعد الزوال من یوم الترویۃ، فحینئذ الرواح إلی منی أفضل، لأن بعد الزوال الرواح إلی منی مستحق علیہ، و قد ضاق وقتہ، فلا یجوز الإشتغال بفعل لیس بموضع لہ فی ذلک الوقت بخلاف ما قبل الزوال، فإن الرواح لم یستحق فیہ فصار کسائر الأیام (14)
یعنی، حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ جب وہ آٹھ تاریخ کو یا اس سے قبل چاہے کہ منی جانے سے قبل سعی کر لے اور یہ ہمارے نزدیک افضل ہے مگر یہ کہ وہ آٹھ ذوالحجہ کو زوال کے بعد احرام باندھے تو اس وقت منی کی طرف روانگی افضل ہے (تقدیم سعی افضل نہیں ) کیونکہ زوال کے بعد اس پر منی کی جانب روانگی لازم ہے اور وقت تنگ ہے ، تو اس وقت ایسے کام میں مشغول ہونا جائز نہیں جس کام کی اس وقت جگہ نہیں بخلاف زوال سے قبل کے کہ اس وقت منی روانگی لازم نہیں تو دیگر تمام ایام کی مثل ہو گیا۔ امام کرمانی نے فرمایا کہ زوال کے بعد اس پر منیٰ کی جانب روانگی لازم ہے ، اس سے مراد ہے کہ یہ روانگی سنّت کی ادائیگی کے لئے لازم ہے نہ کہ واجب کی ادائیگی کے لئے کیونکہ منیٰ میں قیام مسنون ہے نہ کہ واجب۔ جب کہ بعض نے تاخیر سعی کو افضل قرار دیا ہے چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ دوسرے قول یعنی تاخیر سعی کے افضل ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں :
و صححہ ابن الہمام وہو الظاہرخصوصاً للمکی فإن فیہ خلافاً للشافعی (14)
یعنی، اسے (صاحب فتح القدیر امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد)ابن الہمام (متوفی 861ھ) نے صحیح قرار دیا ہے اور یہی ظاہر ہے خصوصاً مکی کے واسطے ، پس اس میں امام شافعی کا خلاف ہے ۔ اور ملا علی قاری دوسری صورت یعنی عدم تقدیم سعی کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
و الخروج عن الخلاف لکونہ أحوط مستحب بالإجماع، فینبغی أن یکون ہو الأفضل بلا خلاف و نزاع (15)
یعنی، خلاف سے نکلنا بالاجماع مستحب ہے کیونکہ وہ احوط ہے یعنی اس میں زیادہ احتیاط ہے ، تو چاہئے کہ کسی اختلاف و نزاع کے بغیر یہی افضل ہو۔ بہر حال جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور منیٰ روانگی سے قبل یقینا اس قدر بھیڑ نہیں ہوتی کہ جس قدر بھیڑ اس تاریخ کے بعد پائی جاتی ہے تو عورتوں ، بوڑھوں اور بیمار و معذور افراد کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ موقع پا کر روانگی سے قبل ہی نفلی طواف کے ساتھ حج کی سعی کر لیں ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الجمعۃ، 23ربیع الثانی 1428ھ، 11مایو 2007 م (366-F)
حوالہ جات
10۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،تحت قولہ : فی عید القارن، باب الخطبۃ یوم السابع وخروج….الخ، ص207
11۔ لباب المناسک، فصل فی إحرام الحاج من مکۃ المشرفۃ، ص133
12۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب الخطبۃ یوم السابع
وخروج…الخ، فصل فی إحرام الحاج من مکۃ المشرفۃ،تحت قولہ : أویسن، ص266
13۔ المسالک المناسک،القسم الثانی : فی بینا نسک الحج…الخ، 1/482
14۔ المسالک فی المناسک، القسم الأول، فصل فی بیان أنواع الأطوفہ، 1/424
15۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب الخطبۃ یوم السابع وخروج… الخ، فصل فی إحرام الحاج من مکۃ المشرفۃ،تحت قولہ : وقیل : الثانی، ص266