الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص طواف زیارت اپنے وقت پر کرلے اور سعی نہ کرے کہ بعد میں کروں گا پھر رمی مکمل کرکے منی سے واپسی پر چودہ(14)تاریخ کو وہ مسجد عائشہ سے عمرہ کا احرام باندھے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگاکہ اس نے حج کے افعال ابھی مکمل نہیں کیے کہ اس پر ابھی تک سعی باقی ہے اور عمرہ کااحرام باندھ لیا ہے اور عمرہ بھی ادا کرلیا ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں اس پر کچھ لازم نہ ائے گاکیونکہ فقہائ کرام نے ایام نحروایام تشریق میں حلق سے قبل عمرہ کا احرام باندھنے پر عمرہ کو چھوڑکر اس کی قضاء کرنے اور جمع بین احرامین کی وجہ سے دم کا حکم دیا ہے ۔اسی طرح حلق کے بعدرمی جمار سے قبل اور ایام تشریق میں عمرہ کا احرام باندھنے کی صورت میں عمرہ کے احرام کو چھوڑکر بعد میں اس کی قضاء اور دم کا حکم دیا ہے لیکن سعی کے واجبات میں سے ہونے کے باوجوداس سے قبل عمرہ کے احرام کاتذکرہ نہیں کیااور شاید یہ اس لیے کہ سعی طواف قدوم کے بعد کرلی جاتی ہے یا طواف زیارت کے بعد۔ چنانچہ ملا علی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : ولعلہ لم یذکر السعی مع انہ من الواجبات للحج ، لانہ قد یتقدم علی الوقوف وقد یعقب طواف الزیارۃ۔(20) یعنی،فقہائے کرام نے شاید سعی کا ذکر اس کے واجبات حج میں سے ہونے کے باوجود نہیں کیا ، کیونکہ سعی کبھی وقوف عرفات سے پہلے ہوتی ہے اور کبھی طواف زیارت کے بعد ہوتی ہے ۔ پھر ملاعلی قاری لکھتے ہیں : بل الظاہر من وضع المسالۃ فی احرامہ بالعمرۃ ایام التشریق ان فیما بعدھا لیس کذلک ،ولو کان باقیا علیہ السعی ، لاسیما وروایۃ ’’الاصل‘‘انہ لا یرفضھا بعد الحلق ،ثم من صحح الرفض علل بکون احرامھما وقع فی الایام المنھی عنھا۔(21) یعنی،بلکہ ایام تشریق میں احرام عمرہ کے وضع مسئلہ سے ظاہر ہے کہ ان ایام کے بعد عمرہ کا احرام باندھنا اس طرح نہیں ہے اگر چہ اس پر سعی باقی ہو خصوصا’’ کتاب الاصل‘‘کی روایت کہ وہ حلق کے بعد عمرہ کے احرام کو نہیں توڑے گاپھر جس نے چھوڑنے کو صحیح قراردیا تو اس نے علت اسے بنایا کہ ان دونوں کا احرام ممنوع ایام میں واقع ہوا ہے ۔ پھر لکھتے ہیں : فلا یلزمہ شیء بعدھا اصلا ، سواء بقی علیہ سعی اولا ۔ واللٰہ اعلم۔ (22) یعنی،پس اس کے بعدبالکل بھی کوئی شے لازم نہ ہوگی خواہ اس پر پہلے کی سعی باقی ہو۔ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی1004ھ نے ’’تنویر الابصار‘‘میں اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی1088ھ نے اس کی شرح’’در مختار‘‘ میں اسے برقرار رکھا ۔ چنانچہ لکھتے ہیں : (حج فاھل بعمرۃ یوم النحر او فی ثلاثۃ) ایام (بعدہ لزمتہ) بالشروع ، لکن مع کراہۃ التحریم (ورفضت) وجوبا تخلصا من الاثم (وقضیت مع دم) للرفض (وان مضی) علیھا (صح وعلیہ دم) لارتکاب الکراہۃ فھو دم جبر۔(23) یعنی،حج کیا پھر یوم نحر یا یوم نحر کے بعد تین دنوں میں عمرہ کااحرام باندھا تو شروع کرنے سے اسے عمرہ لازم ہوگیا لیکن کراہت تحریمی کے ساتھ اور عمرہ چھوڑنا گناہ سے خلاصی پانے کے لیے واجب ہوگا اور وہ چھوڑنے کی وجہ سے دم دینے کے ساتھ قضاء کرے گا اور اگر اس نے عمرہ کو (اسی حال میں )پورا کرلیا تو اس پرکراہت کے مرتکب ہونے کے سبب سے دم لازم ہوگا پس یہ دم جبر ہوگا۔ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی1367ھ نے ’’در مختار‘‘ کے حوالے سے نقل کیا : دسویں سے تیرھویں تک حج کرنے والے کو عمرہ کا احرام باندھنا ممنوع ہے ، اگر باندھا تو توڑ دے اور اس کی قضا کرے اور دم دے اور کرلیا تو ہوگیا مگر دم واجب ہے ۔(24) اور شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں : اگر شخصے احرام بست بعمرہ بعد از وقوف قبل الحلق یا بعد از حلق قبل از طواف زیارت یا بعد الحلق والطواف قبل از سعی بین الصفا والمروۃ یا بعد الحلق والطواف والسعی قبل رمی الجمارکہ در جمیع این صور واجب باشد بروی رفض عمرہ ونیز لازم اید بروی دم بواسطہ رفض واگر رفض نکرد واجب اید بروی دم بواسطہ جمع میان دو نسک پس معلوم شد کہ انچہ کثیر الوقوع می شود در اھل مکہ کہ احرام می بند ند برای عمرہ قبل ازانکہ سعی نمایند برای حج پس واجب اید بر ایشان دم بواسطہ جمع بین النسکین کما صرح بذلک الشیخ علی القاری وحنیف الدین المرشدی فی شرحیھما علی المنسک المتوسط۔(25) یعنی،اگر کوئی شخص وقوف( عرفات )کے بعد حلق سے قبل یا حلق کے بعد طواف زیارت سے قبل یا حلق وطواف کے بعدصفاومروہ کے مابین سعی سے قبل یا حلق وطواف وسعی کے بعدرمی جمار سے قبل عمرہ کا احرام باندھا تو ان تمام صورتوں میں اسے عمرہ کا احرام توڑنا لازم ہے اور اس پر (عمرہ کا)احرام توڑنے کا دم (اور عمرہ کی قضاء )لازم ہوگی اور اگر عمرہ کا احرام نہ توڑے تو بھی اس پر دو نسک کو جمع کرنے کی وجہ سے دم لازم ہوگا ۔پس اس سے معلوم ہوا کہ وہ جو اہل مکہ میں کثیر الوقوع ہے کہ سعی اداکرنے سے قبل عمرہ کا احرام باندھ لیتے ہیں تو دو نسک جمع ہونے کی وجہ ان پر دم لازم اتا ہے ۔اسی طرح ملاعلی قاری اور شیخ حنیف الدین مرشدی نے ’’المنسک المتوسط‘‘پر اپنی اپنی" شرح" میں اس کی تصریح ہے ۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اور علمائے ہند کی جماعت نے لکھا : الحاج اذا اہل بعمرۃٍ فی یوم النحر او ایام التشریق لزمتہ ویلزمہ رفضہا فان رفضہا یجب دم لرفضہا وعمرۃ مکانہا، وان مضی علیہ جاز وعلیہ دم کفارۃٍ واذا حلق ثم احرم لا یرفضہا، کذا ذکر فی "الاصل"۔(26) یعنی،حاجی نے جب نحر کے دن یا ایام تشریق میں عمرہ کااحرام باندھا تو عمرہ اسے لازم ہوگیااور اس پر عمرہ کو توڑنا لازم ہے پس اگر وہ عمرہ کا احرام توڑدیتاہے تو احرام توڑنے کی وجہ سے اس پر ایک دم اور اس کی جگہ عمرہ لازم ائے گااور اگر جاری رکھتا ہے توجائز ہوگیااور اس پر کفارے کادم لازم ائے گااور جب حج میں حلق کروالے پھر عمرہ کا احرام باندھے تو عمرہ کا احرام نہ توڑے اسی طرح’’الاصل‘‘میں ذکرکیا۔ امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی710ھ لکھتے ہیں : وان اہل بعمرۃٍ یوم النحر : لزمتہ ولزمہ الرفض والدم ، والقضاء فان مضی علیہا : صح ، ویجب دم۔(27) یعنی،اگر کسی نے یوم نحر عمرہ کا احرام باندھا تو اسے عمرہ لازم ہوگیا اور اسے چھوڑنا اور دم اور قضاء لازم ہوگاپس اگر کسی نے اسے پوراکیاتو صحیح ہوگیا اور دم واجب ہوگیا۔ اوراس کے تحت علامہ شیخ زین الدین ابن نجیم مصری حنفی متوفی970ھ لکھتے ہیں : واراد بیوم النحر الیوم الذی تکرہ العمرۃ فیہ، وہو یوم النحر، وایام التشریق۔(28) یعنی،کسی نے یوم نحرمیں ارادہ کیا جس دن اس میں عمرہ کرنا مکروہ ہے اوروہ یوم نحر اور ایام تشریق ہے ۔ اور’’صاحب کنز‘‘ کا اطلاق اس کا تقاضہ کرتا ہے کہ احرام عمرہ چاہے حلق سے قبل ہو یابعد،طواف زیارت سے قبل ہو یا بعد ہو بہرحال مکروہ ہے جبکہ یوم نحریا ایام تشریق میں ہو۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں : واطلقہ فشمل ما اذا کان قبل الحلق او بعدہ قبل طواف الزیارۃ او بعدہ ، واختارہ فی الہدایۃ وصححہ الشارح۔(29) یعنی، اسے مطلق رکھا ہے تو وہ شامل ہوگا کہ جو حلق سے پہلے یا اس کے بعد ہو طواف زیارت سے پہلے ہو یا بعد اور اسے "ہدایہ" میں اختیار کیا ہے اور اسے شارح نے صحیح قرار دیا ہے ۔ کیونکہ ایام تشریق میں حلق اور طواف زیارت کے بعد افعال حج ابھی باقی رہتے ہیں جیسے رمی۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں : لانہ بعد الحلق والطواف بقی علیہ من واجبات الحج کالرمی وطواف الصدر وسنۃ المبیت، وقد کرہت العمرۃ فی ہذہ الایام ایضًا فیصیر بانیًا افعال العمرۃ علی افعال الحج بلا ریبٍ، وہو مکروہ۔(30) یعنی،کیونکہ حلق اور طواف کے بعد جب اس پر واجبات حج سے باقی ہو جیسے رمی اور طواف صدر اور رات گزارنے کی سنت اور تحقیق عمرہ کوان ایام میں بھی مکروہ قرار دیا گیا ہے تو وہ عمرہ کے افعال کو بغیر شبہ کے حج کے افعال پر بناء کرنے والا ہوگیااور یہ مکروہ ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : قال فی شرح اللباب بعد تقریر حکم المسالۃ : ومنہ یعلم مسالۃ کثیرۃ الوقوع لاہل مکۃ وغیرہم انہم قد یعتمرون قبل ان یسعوا لحجہم. اہـ.ای فیلزمہم دم الرفض او دم الجمع لکن مقتضی تقییدہم الاحرام بالعمرۃ یوم النحر او ایام التشریق انہ لو کان بعد ہذہ الایام لا یلزم الدم لکن یخالفہ ما علمتہ من تعلیل "الہدایۃ" فالسعی وان جاز تاخیرہ عن ایام النحر والتشریق، لکنہ اذا احرم بالعمرۃ قبلہ یصیر جامعًا بینہا وبین اعمال الحج۔(31) یعنی،"لباب" کی شرح میں مسئلہ کے حکم کو وضاحت کرنے کے بعد فرمایا اور اسی سے بہت سے واقع ہونے والے مسائل مکہ والوں اور ان کے علاوہ کے لیے جانے جاتے ہیں کہ تحقیق وہ عمرہ کرتے ہیں قبل اس کے کہ وہ اپنے حج کی سعی کریں یعنی ان پردم رفض یاجمع کا دم لازم ائے گالیکن یوم نحر یا ایام تشریق کو عمرہ کے احرام کے ساتھ مقید کیا ہے جس سے تقاضہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ عمل ان دنوں کے بعد ہو تو دم لازم نہ ائیگالیکن تو جان چکا ہے کہ جو" ہدایہ" کی تعلیل ہے وہ اس کے مخالف ہے پس سعی کواگر چہ ایام نحر وتشریق سے موخر کرنا جائز ہے لیکن جب اس نے سعی سے قبل عمرہ کا احرام باندھ لیاتو وہ عمرہ اور اعمال حج کو باہم جمع کرنے والا ہوگیا۔ اب اس سے یہ بات اشکار ہوگئی کہ کراہت اور عمرہ کے احرام کو چھوڑنے کی علت دو چیزوں میں سے کوئی ایک ہے یا تو عمرہ کا ایام تشریق میں واقع ہونا ہے یا عمرہ اور اعمال حج میں جمع کا لازم انا ہے تو ’’علامہ شامی‘‘لکھتے ہیں : ویظہر لی ان العلۃ فی الکراہۃ ولزوم الرفض ہی الجمع او وقوع الاحرام فی ہذہ الایام فایہما وجد کفی۔(32) یعنی،میرے لیے ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک کراہت اور چھوڑنے کا لازم ہونے میں علت جمع کرناہے یا ان دنوں میں احرام کا واقع ہونا ہے پس ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت پائی جائے تو وہ کافی ہوگی۔ اب ایک سوال تھاکہ جب عمرہ اور اعمال حج میں جمع کا لازم انا رفض عمرہ کی علت ہے تو ایام تشریق کے ساتھ کیوں مقید کیا گیا ہے تو ’’علامہ شامی‘‘لکھتے ہیں : : لکن لما کانت ہذہ الایام ہی ایام اداء بقیۃ اعمال الحج علی الوجہ الاکمل قیدوا بہاکما یشیر الیہ ما قدمناہ عن "الہدایۃ" وکذا قولہ فیہا معللًا للزوم الرفض۔(33) یعنی،لیکن جب یہ ایام اعمال حج کے بقیہ اعمال کو زیادہ کامل صورت میں ادا کے دن ہیں تو علماء نے اس کے ساتھ مقید کیا ہے جس کی طرف وہ قول اشارہ کرتا ہے جس کو ہم نے "ہدایہ" سے مقدم کیا اسی طرح ماتن کا قول اس میں چھوڑنے کے لازم ہونے کے لئے تعلیل رکھنے والا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جو حج کے تمام افعال اداکرچکا ہے اور ایام تشریق بھی گزر چکے ہیں اور اس پر ابھی حج کی سعی باقی تھی اور وہ سعی سے قبل عمرہ کا احرام باندھ لیتا ہے اور عمرہ کا احرام چھوڑتا بھی نہیں ہے عمرہ ادا کرلیتا ہے تو اس پر دم لازم ائیگا یا نہیں تو اس کے لیے ہم فقہائے کرام کی اس مسئلہ میں رائے کو دیکھتے ہیں کہ جو شخص حج کی سعی کیے بغیر میقات سے باہر چلا گیا پھر وہ حرم واپس ائے گا تو تمام فقہائے کرام اس پر احرام کو لازم قراردیتے ہیں کہ وہ میقات سے احرام باندھ کر ائے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس پر دم کو بھی لازم کرتے ہیں یا نہیں اگر دم کو لازم کرتے ہیں تو یہاں بھی دم لازم ہوگا اگر وہاں دم لازم نہیں کرتے تو یہاں بھی ہم دم لازم نہیں کریں گے ۔ چنانچہ علامہ فرید الدین عالم بن العلاء اندرپتی دھلوی ہندی متوفی786ھ لکھتے ہیں : ولو رجع الی اھلہ قبل السعی فعلیہ الدم ، وان اراد ان یعود الی مکۃ عاد باحرام جدید ویسعی ویسقط الدم۔(34) یعنی،اگر وہ اپنے اہل کو سعی سے قبل لوٹا تو اس پر دم لازم ہوگا اور اگر اس نے ارادہ کیا کہ وہ مکہ کی طرف لوٹے پھر وہ نئے احرام کے ساتھ لوٹ ایااور سعی کرلی تو دم ساقط ہوجائے گا۔ لہٰذا ہم نے دیکھاکہ فقہاء کرام نے ایسے شخص پر دم لازم نہیں کیابلکہ ترک سعی کی وجہ سے جو دم لازم ایا تھااسے بھی ساقط کردیااس لئے ہم بھی ایسے شخص پر لزوم دم کا حکم نہیں دیں گے جو حج کے تمام افعال ادا کرچکا ہے اور ایام تشریق کے بعدوہ حج کی سعی ادا کرنے سے قبل عمرہ ادا کرلیتاہے اورلوگوں کواس فعل سے منع ضرور کیا جائے گا تاکہ اختلاف سے نکل جائیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الاربعاء،25،ذوالحجۃ،1439ھ۔5سبتمبر2018م FU-48
حوالہ جات
(20) المسلک المتقسط،باب اضافۃ احد النسکین المختلفین الی الاخر ، تحت قولہ : ولو اھل بھا فی ایام النحر الخ ، ص : 418
(21) المسلک المتقسط،باب اضافۃ احد النسکین المختلفین الی الاخر ، تحت قولہ : ولو اھل بھا فی ایام النحر الخ ، ص : 419
(22) المسلک المتقسط،باب الجمع بین الاحرامین ، تحت قولہ : ولو اھل بھا فی ایام الخ ، ص : 419
(23) تنویر الابصاروشرحہ الدر المختار،کتاب الحج، باب الجنایات،ص : 171
(24) بہارشریعت،حج کابیان،جرم اور ان کے کفارے ،1/1193، ناشر : مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، کراچی،الطبعۃ السادسۃ : 1435ھ ۔2014م
(25) حیاۃ القلوب فی زیارت المحبوب،باب دہم،فصل ششم،ص : 222۔223
(26) الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک ،الباب الحادی عشر فی اضافۃ الاحرام الی الاحرام ،1/254
(27) کنز الدقائق،کتاب الحج،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،ص245
(28) البحر الرائق ، کتاب الحج،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،تحت قولہ : وان اہل بعمرۃٍ یوم النحر : لزمتہ ولزمہ الرفض والدم ، والقضاء ،3/94
(29) البحر الرائق ، کتاب الحج،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،تحت قولہ : وان اہل بعمرۃٍ یوم النحر : لزمتہ ولزمہ الرفض والدم ، والقضاء ،3/94
(30) البحر الرائق ، کتاب الحج،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،تحت قولہ : وان اہل بعمرۃٍ یوم النحر : لزمتہ ولزمہ الرفض والدم ، والقضاء ،3/94
(31) رد المحتار ،کتاب الحج،باب الجنایات،مطلب : لا یجب الضمان بکسر الات اللھو ،تحت قولہ : لارتکاب الکراہۃ ،3/719
(32) رد المحتار ،کتاب الحج،باب الجنایات،مطلب : لا یجب الضمان بکسر الات اللھو ،تحت قولہ : لارتکاب الکراہۃ ،3/719
(33) رد المحتار ،کتاب الحج،باب الجنایات،مطلب : لا یجب الضمان بکسر الات اللھو ،تحت قولہ : لارتکاب الکراہۃ ،3/719
(34) الفتاوی التاتار خانیۃ ، کتاب الحج ، الفصل السابع فی الطواف والسعی،3/607