الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگرکسی شخص کے پاس صرف اتنا مال ہو کہ اس سے حج کرسکتاہو مگر اس مال سے نکاح کرنا چاہتاہوتوکیا وہ اس مال سے نکاح کرلے ،جبکہ اس نے کبھی فرض حج ادا بھی نہ کیاہو؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں وہ نکاح نہ کرے بلکہ حج کرے کہ حج فرض ہے یعنی جب کہ حج کا زمانہ اگیا ہو۔ چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی جماعت نے لکھاہے : اذا وجد ما یحج بہ وقد قصد التزوج یحج بہ،ولا یتزوج؛ لان الحج فریضۃ اوجبہا اللہ تعالی علی عبدہ ،کذا فی التبیین۔( ) یعنی،جب کوئی اتنا مال پائے کہ جس سے حج کرسکتاہواوروہ اس مال سے نکاح کرنا چاہتا ہو تووہ اس مال سے نکاح نہ کرے بلکہ حج کرے کیونکہ حج فرض ہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندے پر لازم فرمایا ہے ،اسی طرح”تبیین الحقائق” ( )میں ہے ۔ اور صدرالشریعہ محمد امجدعلی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں : اتنا مال ہے کہ اس سے حج کرسکتا ہے مگر اس مال سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو نکاح نہ کرے بلکہ حج کرے کہ حج فرض ہے یعنی جب کہ حج کا زمانہ اگیا ہو۔( ) لیکن اگرکسی کوشہروالوں کے نکلنے سے قبل مجردرہنے میں معصیت کاخوف ہو،اوروہ اپنے مال کونکاح میں خرچ کرڈالے ،توحرج نہیں ۔ لیکن اگر وہ شہر والوں کے نکلنے سے پہلے اپنے مال کوخوف معصیت کے سبب نکاح میں خرچ کر ڈالے اوراسے مجردرہنے میں خوف معصیت بھی ہوتو حرج نہیں ۔ چنانچہ علامہ علاء الدین حنفی حصکفی متوفی١٠٨٨ھ لکھتے ہیں : فی الاشباہ : معہ الف وخاف العزوبۃ ان کان قبل خروج اہل بلدہ فلہ التزوج ، ولو وقتہ لزمہ الحج۔( ) یعنی،اشباہ( )میں ہے کہ اگرکسی کے پاس ایک ہزار( )ہوں ( )اور اسے شادی نہ کرنے میں گناہ کا خوف ہو تواسے نکاح کرلیناجائزہے ،جبکہ اس کے شہر والے حج کو نہ نکلے ہوں اوراگر یہ مال لوگوں کے روانہ ہونے کے وقت ہوتواسے حج کرنا لازم ہوگا۔ اورصدرالشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی لکھتے ہیں : اور اگر پہلے نکاح میں خرچ کر ڈالا اور مجردرہنے میں خوف معصیت تھا تو حرج نہیں ۔( ) اورفی زمانہ حج کی درخواست دینے کی تاریخوں کااعتبارہوگاکیونکہ حج کے لئے درخواستیں شہروالوں کے حج کونکلنے سے کچھ عرصہ پہلے جمع کروائی جاتی ہیں اوریہ عرصہ ایک ماہ بھی ہوسکتاہے اوراس سے زائدبھی۔ واﷲتعالیٰ اعلم یوم الجمعۃ ،٢٨ذوالقعدۃ١٤٤٠ھ۔١،اغسطس٢٠١٩م