ARTICLES

حج بدل کی کیا شرائط ہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ حامداً و مصلّیاً

بعد حمد و نعت کے جاننا چاہئے کہ حجِ بدل یعنی غیر کی طرف سے حج چوں کہ اکثر لوگ کیا کرتے ہیں اور اُس کے مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس باعث سے کتنی شرطیں جو کہ اس میں ضروری ہیں اُن سے فوت ہوجاتی ہیں اور اس سبب سے حجِ بدل کہ وہ جس کی طرف سے کرتے ہیں اُس کا توبالکل ادا ہی نہیں ہوتا اور اُن پر شرعاً ضمان لازم آتاہے ۔یعنی،جس قدر وہ مال حجِ بدل کرنے کے واسطے لیتے ہیں وہ سب اُن کو واپس کرنا شرعا آتاہے تواس جہت سے راجی رحمۃ ربّہ الباری مسکین محمّد عبدالحق ابن الشیخ المولوی شاہ محمّد الالٰہ آبادی -عَامَلَہُمَا اللہُ تَعَالیٰ بِفَضْلِہِ الْعَمِیْمِ-واسطے خیر خواہی بھائیوں مسلمانوں کے یہ رسالہ لکھتاہے بیان میں مسائل ضروریۂ حجِ بدل کے کتبِ معتبرہ سے ([1])،تاکہ لوگ اس سے بخوبی واقف ہو جائیں اور حج غیر کی طرف سے کرنے میں کسی طرح کا شرعاً قصور نہ کریں اور مواخذۂ آخرت میں گرفتار نہ ہوں اور نام اس رسالے کا

(( نِہَایَۃُ الْاَمَلِ فِی بَیَانِ مَسَائِلِ الْحَجِّ الْبَدَلِ ))

ہے ۔خداوندِ کریم قبول فرمائے اور نفع عام بخشے بفضلہ و منّہ اور اپنے کرم سے اس کے لکھنے والے کو اور جو کہ اس کے لکھنے کے باعث ہوئے ہیں ،اُن کو اور جو اس رسالے کو لکھے ،پڑھے ،سنے ،دیکھے اور اُس کو ترویج دے ،بخشے دے و بلا حساب و بلا عذاب و عتاب جنۃ الفردوس میں داخل فرمادے ،آمین۔یَا کَرِیْمُ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمّد وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہ أَجْمَعِیْن وَآخِرُ دَعْوَانَا عَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. سو اب جاننا چاہئے کہ جس شخص پر حج فرض ہوا اور وہ قدرت رکھتا تھا اپنے آپ حج کرنے کی اور پھر وہ حج کے واسطے نہ نکلا اور جس سال کہ اُس پر حج فرض ہوا،اُس سال کے نکلنے میں اُس نے تقصیر کی اور موت اُس کو آن پہنچی۔ یا کہ خوف اُس کو موت آجانے کا ہوا تو واجب ہے اُس پر کہ وصیّت حج کروانے کی اپنی طرف سے کر جائے کہ بعد میری موت کے میری طرف سے حج کرایا جائے ۔ اور اگر وہ مر جائے گا بغیر وصیّت کے تو وہ گناہ گار ہو گا،اس میں کسی کا خلاف ہی نہیں ہے ۔اور اگر وہ اُسی سال کہ حج جس سال اُس پر فرض ہوا،حج کرنے کے واسطے نکل کھڑا ہوا اور وہ رستے میں مرنے لگا تو اُس پر وصیّت حج کروانے کی واجب نہیں ہے ؛کیوں کہ اُس کی طرف سے کچھ تاخیر اس میں نہیں ہوئی اور نہ کچھ تقصیر اُس میں ،اُس سے واقع ہوئی ،مگر ہاں !اس صورت میں اگر وہ وصیّت کرے تو مندوب ہے ۔ اور اگر کسی پر حج فرض ہوا اور وہ بغیر وصیّت مر گیا تو اس صورت میں اُس کے وارث پر کچھ لازم نہیں ہے کہ اُس کی طرف سے خود حج کرے یا اورکسی سے کرا دے ، مگر ہاں !اگر اُس کی طرف سے خود حج کر دے گا یا اور کسی سے کروادے گا تو یہ نہایت مندوب ہے ۔([2]) اور جب اس صورت میں کوئی وارث یا کوئی اجنبی ہے ،اُس کی طرف سے حج کرے گا توحج فرض اُس کا ،اُس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا-ان شا ء اللہ تعالیٰ-۔([3]) اور جو شخص قدرت حج کی رکھتا تھا اور سب شرطیں اُس میں موجود تھیں ،پھر وہ معذور ہوا ،خواہ بہت بُرْھاپے سے یا بیماری سے جیسا : لولا،لنگڑا،اپاہج،اندھا،مفلوج یا دائم الحبس یا خائف حاکم سے اور اُس کے پاس مال ہے ،اُس پر واجب ہے کہ دوسرے کو مال دے کر اپنی طرف سے حج کرائے کہ ادا ہو جائے گا،بشرطیکہ معذور رہے اور اگر بعد حج کرانے کے عذر جاتا رہا،اُس کو خود حج کرنا چاہئے ۔ہاں !اگر معذوری کی حالت میں اُس نے کسی طرح آپ حج کیا تو ادا واقع ہوا۔پس بعد دور ہونے عذر کے اور حج کرنا لازم نہیں ۔ حجِ نفل غیر کی طرف سے جائز ہے اگرچہ وہ معذور نہ ہو اور حج انسان کا غیر کی طرف سے کرنا افضل ہے ،اپنی طرف سے حج کرنے سے ،بعد اس کے کہ وہ حجِ فرض کرلے ۔ اور اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کرنا نہایت ہی مندوب ہے ۔ ”دارقطنی“میں ہے کہ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما روایت فرماتے ہیں کہ حضرت نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ : جو شخص اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کردے گا تو اُس کا حشر قیامت کے دن ابرار کے ساتھ یعنی،نیک کاروں کے ساتھ ہو گا۔([4]) اور یہ بھی ”دارقطنی“میں ہے کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا کہ : جو کوئی حج کرے اپنے باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف سے تو اُس نے اُن کی طرف سے حج ادا کر دیا اور ہو گا اُس کو ثواب دس/10 حج کا۔([5]) اور یہ بھی ”دارقطنی“میں ہے کہ حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ : جب کوئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کرتا ہے تو وہ حج قبول کیا جاتا ہے ، اُس حج کرنے والے کی طرف سے اور اُس کے ماں باپ کی طرف سے اور ماں باپ کی روحیں خوش ہوتی ہیں اور خدا جلّ شانہ کے نزدیک وہ احسان کرنے والا ،نیک کارلکھا جاتا ہے ۔([6]) اور جاننا چاہئے کہ نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں بیس شرطیں ہیں کہ جن کی مراعات واجب ہے اور انہیں شرطوں کی مراعات کے سبب سے حجِ فرض ذمے سے اُس شخص کے کہ جس کی طرف سے اُس نے حج کیا ہے [ادا ہو گا] اور حجِ بدل کرنے والے پر کسی طرح کا ضمان نہیں لازم آتا ہے اور اگر ان شرطوں کی مراعات نہ کی جائے تو حجِ فرض اُس شخص کا کہ جس کی طرف سے کو ئی شخصِ غیر حج کرتا ہے ادا نہ ہو گا حج،حج کرنے والے کا ہو گا اور اُس نے مال جو کچھ کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے ،وہ سب اُس کو دینا پڑے گا۔

اوّل شرط :

سو اوّل شرط یہ ہے کہ جس کی طرف سے کوئی شخص حجِ فرض کرتا ہے تو اُس پر حج فرض ہومال دار ہونے کے سبب سے ،سو اگر کوئی شخص کسی فقیر تندرست کی طرف سے حجِ فرض کرے گا تو جائز نہ ہو گا اس شخص کا حجِ فرض کرنا اُس کی طرف سے اور نفل حج کرنا اُس کی طرف سے جائز ہے ۔

دوسری شرط :

نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں یہ ہے کہ جس کی طرف سے حجِ فرض کرتا ہے ،وہ پہلے سے عاجز ہو ،خود اپنے آپ حج کرنے سے ۔سو اگر کسی صحیح تندرست نے حج اپنی طرف سے کسی شخص سے کروایا،پھر وہ عاجز ہو گیا خود اپنے آپ حج کرنے سے تو یہ حج کروانا اُس کو کفایت نہ کرے گا ؛کیوں کہ اس صورت میں پہلے سے عاجز ہونا اُس کا نہ پایا گیا،بلکہ اب اُس کو پھر سے اپنی طر ف سے حجِ فرض کروانا ہو گا۔

تیسری شرط :

نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں یہ ہے کہ جس کی طرف سے حجِ فرض کرتا ہے اُس کو عجز ہمیشہ رہے ،حج کروانے کے وقت سے ،وقتِ موت تک۔سو اگر کسی معذور نے جیسے مریض یا محبوس یعنی، قیدی نے حجِ فرض اپنا کسی سے کروایا تو اس صورت میں امر اُس کا موقوف رہے گا ۔ اگر وہ مر گیا اسی حال میں کہ مریض تھا یا محبوس تو حجِ فرض اُس کا اپنی طرف سے کروانا جائز ہو گیا اور اگر وہ مریض چنگا ہو گیا مرض سے یاکہ محبوس،حبس سے یعنی،قیدی،قید سے چھوٹ گیا موت کے پہلے ،ایسے وقت میں کہ خود وہ حج ادا کرسکتا ہے تو اس صورت میں خود اُس کو حجِ فرض کا ادا کرنا لازم آئے گا اور وہ حج کہ اوّل کروایا ہے ،نفل حج ہو جائے گا۔

چوتھی شرط :

نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں یہ ہے کہ جس کی طرف سے حجِ فرض کرتا ہے ،وہ امر بھی کرے حج کے ساتھ،بغیر اُس کے امر کے دوسرے کو اُس کی طرف سے حجِ فرض کرنا جائز نہیں ہے ۔جس صورت میں کہ وہ وصیّت کر جائے کہ میری طرف سے میرے مال سے حجِ فرض کروا دینا ،سو اگر کوئی اس طرح وصیّت کرے اور کوئی اجنبی اُس کی طرف سے حجِ فرض بغیر کچھ لئے کر دے یا اُس کا کوئی وارث اُس کی طرف سے حجِ فرض کر دے تو یہ جائز نہ ہو گا ۔یعنی،اس سے حجِ فرض اس کا ادا نہ ہو گا ۔یہ حج،حج کرنے والے کا ہو گا اور اُس کو جائز ہے کہ اپنے حج کا ثواب بعد حج کرنے کے اُس کو بخشے اور موافق ِ امر اور وصیّت کے حج اُس کی طرف سے کروایا جائے گا ،جس میں کہ اُس کی طرف سے حجِ فرض ادا ہو اور اگر کسی پر حج فرض تھا اور وہ مر گیا اور اُس نے اپنی طرف سے حجِ فرض کروانے کا امر نہیں کیا،وصیّت کا اتّفاق اُس کو نہ ہوا اور اُس کے کسی وارث نے خود اُس کی طرف سے تبرّعاً حج کر دیا یا غیر سے اُس کی طرف سے حج کرا دیا یا کسی اجنبی نے اُس کی طرف سے حج کر دیا تو حجِ فرض اُس کا ادا ہو جائے گا۔ اِنْ شَــاءَالـلّٰـه تَعَالیٰ تنبیہ : جاننا چاہئے کہ یہ جو کتاب”مفتاح الحج“([7])اور”کلیدباب الحج“([8])میں حجِ بدل کے بیان میں ذکر کیا ہے ،اس طرح پر کہ چوتھی شرط یہ ہے کہ نائب حکم سے منیب کے حج ادا کرے ،مگر وارث بے حکم مورث کے اس کے مال سے حج کرے تو صحیح ہے ۔انتہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وارث بے حکم مورث کے اُس کے مال سے حج کرے تو صحیح ہے ،جب کہ تمام ورثہ اجازت اس کی دیں اور وہ بڑے بھی ہوں ([9]) اور یہی مطلب ہے جو کتاب ”مفتاح الحج “اور ”کلیدباب الحج “میں لکھا ہے کہ : وصیّت نہ کرنے کی صورت میں اگر اُس کا وارث اُس کے مال سے اُس کے واسطے خود حج کر ے یادوسرے کو میّت کے ترکے سے خرچِ راہ دے کر میّت کی طرف سے حج کروائے تو جائز ہے ۔انتہی یعنی،جب کہ تمام ورثہ اجازت اس کی دیں اور وہ بڑے بھی ہوں اور یہ جو ”مفتاح الحج“اور ”کلیدباب الحج “میں لکھا ہے اس طرح پر کہ : اگر غیر وارث نے اپنے مال سے میّت کی طرف سے حج کیا تو میّت کے واسطے صحیح نہ ہو گا۔انتہی تو یہ اس صورت میں ہے کہ جس صورت میں میّت وصیّت حج کرانے کی کر جائے اور جاننا چاہئے کہ یہ جو حاشیے میں کتاب”مفتاح الحج“کے اس مقام میں لکھا ہے اس طرح پر کہ : اگر وارث اپنے مال سے حج کرے یا حج کروائے ،جائز نہ ہو گا۔انتہی اور اسی طرح حاشیے میں اس کتاب کے جو چوتھی شرط میں لکھا ہے : یعنی،اس قول پر وارث نے بے حکم مورث کے اُس کے مال سے حج کیا تو صحیح ہے یعنی،مورث کے مال سے ۔پھر اگر مورث کے مال سے حج نہ کیا، اپنے مال سے کیا تو درست نہ ہو گا۔انتہی تو یہ بھی وصیّت کی صورت میں ہے یعنی، جس صورت میں میّت وصیّت حج کرانے کی کر جائے تو اس صورت میں اگر وارث اپنے مال سے اُس کی طرف سے حج کرے گا یا کہ اسی طرح کوئی اور شخص اپنے مال سے اس کی طرف سے حج کرے گا تو جائز نہ ہو گا یعنی،حجِ فرض اس کا ادا نہ ہو گا۔

پانچویں شرط :

نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں یہ ہے کہ حج کرانے والا حج کرنے والے سے اجرت کی شرط نہ کرے ۔سو اگر اُس نے کسی شخص کو یوں کہا کہ میں نے تجھ سے اجارہ کیا اس بات پر کہ تو میری طرف سے حج کر دے بدلے میں اس قدر مال کے تو اس صورت میں حجِ فرض حج کرانے والے کا ادا نہ ہو گا ۔اور اگر اُس سے یوں کہے کہ میں تجھ کو امر کرتا ہوں کہ تو میری طرف سے یا فلانے میّت کی طرف سے حج کر دے اور یہ مال جو تجھ کو دیتا ہوں ،سو تیرے نفقے کے لئے ہے اور اجارے کا ذکر کچھ نہ کرے تو اس صورت میں حجِ فرض جس کی طرف سے کہ اُس نے کیا ہے ،اُسی کی طرف سے ادا ہو جائے گا ۔ اور جاننا چاہئے کہ یہ شرط حجِ نفل میں بھی معتبر ہے ،سو اس میں بھی اجرت کی شرط نہ کرے ،اجارے کا ذکر درمیان میں نہ لائے ۔

چھٹی شرط :

نیابت کے جائز ہونے کے لئے حجِ فرض میں یہ ہے کہ حج کرنے والا حج کرانے والے کے مال سے یا میّت کے مال سے حج ادا کرے ۔سو اگر حج کرنے والے نے اس کی طرف سے اپنے مال سے حج کیا تبرعاً ،تو اس حجِ فرض اُس کا ادا نہ ہو گا ۔ اور اگر اکثر خرچ حج کرانے والے کے مال سے کیا اور اقلّ اپنے مال سے تو جائز ہے ۔ اور اگر حجِ بدل کرنے والے نے جس قدر کہ مال اُس کو ملا تھا ،اُسی قدر اس نے اپنے مال سے خرچ کیا ۔یا ،کہ جس قدر کہ اُس کو مال ملا تھا تو بقدر اس کے اکثر کے اپنے مال سے خرچ کیا تو یہ بھی جائز ہے ۔

ساتویں شرط :

یہ ہے کہ حجِ بدل ادا کرنے والا جائے سواری پر ،پھر اگر بغیر سواری کے حج کیا اور خرچ کرایہ کا اپنے واسطے رکھ لیا تو اس صورت میں یہ حج ،حج کرانے والے کا نہ ہو گا ،بلکہ یہ حج ،حج کرنے والے کا ہو گا اور جو کچھ خرچ حج کرنے کے واسطے اُس کی طرف سے لیا ہے وہ سب اُس کو واپس کرنا ہو گا یعنی،جو کچھ کہ اس کا مال خرچ نہیں کیا ہے وہ تو اُس کو اُسی طرح پھیر دے اور جتنا کچھ کہ اس میں سے خرچ کیا ہے وہ اپنے پاس سے اُس کو دے اور اس صورت میں پھر سے حجِ بدل اس کی طرف سے سواری سے کرایا جائے گا اور اگر حجِ بدل کرنے والے نے وصی کے امر سے حج بغیر سواری کے کیا ہے تو اس صورت میں یہ حج وصی کا ہو گا اور پھر سے وصی کو میّت کی طرف سے دوسرا حج سواری سے کرانا ہو گا ۔ اور جاننا چاہئے کہ حکم اکثر رستے سواری سے جانے کا ایسا ہے جیسے تمام رستے سواری سے جائے اور یہ سواری سے جانا اُس وقت میں ہے کہ جب ثُلُث یعنی،تہائی مال میّت کا اس کی گنجائش رکھے اور اگر اس میں اس کی گنجائش نہیں ہے تو اس صورت میں بے سواری کے اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے ۔ تنبیہ : جاننا چاہئے کہ یہ جو ”مفتاح الحج“اور ”کلیدباب الحج “میں حجِ بدل کے بیان میں ذکر کیا ہے اس طرح پر کہ : ساتویں شرط یہ ہے کہ حجِ بدل ادا کرنے والا سواری سے جائے پھر اگر بغیر سواری کے حج کیا تو چاہئے کہ کرایہ جو مقرّر کیا ہو مالک یا وارثِ میّت کو پھیر دے اور سواری سے اُس کے واسطے حج کرے ۔انتہی تو اس میں کرایہ سے یہ مطلب ہے کہ جو کچھ خرچ حج کرنے کے واسطے اس سے لیا ہے وہ سب واپس کرے ۔اور یہ جو لکھا ہے کہ : سواری سے اُس کے واسطے حج کرے ۔ تو مطلب اس کا یہ ہے کہ اب جو اُس کی طرف سے حج کرے وہ سواری سے کرے ۔

آٹھویں شرط :

یہ ہے کہ نائب جس کے لئے حجِ بدل ادا کرتا ہے وہ اُس کے وطن سے نکلے ،اگر ثُلُث مال میّت کا اُس کے وطن سے سفر کرنے کے لئے کفایت کرتا ہے ۔ اور اگر وطن سے جانے کو کفایت نہ کرے تو جائز ہے کہ جہاں سے کفایت کر سکے وہاں سے جاکر حجِ بدل اُس کی طرف سے ادا کرے ۔ اور اگر ثُلُث مال اس کی طرف سے حج کرنے کو کسی جگہ سے کفایت نہ کرے تو وصیّت اُس کی باطل ہے ۔ اور اگر کوئی حج کرنے کے واسطے نکلا،پھر وہ رستے میں مر گیا یعنی،قبل وقوفِ عرفہ کے اگرچہ مکہ معظّمہ ہی میں مرا –

زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-

اور وصیّت حج کرانے کی کرگیا ۔سو اگر وہ کھول کے کہہ گیا ہے کہ اس قدر ہمارے مال سے حج ہمارے واسطے کرانا یا فلانی جگہ سے گو مکہ معظّمہ ہی سے حج کرانے کو اپنی طرف سے کہہ گیا ہے –

زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-

تو اس صورت میں موافق اس کے کہنے کے عمل کیا جائے گا یعنی،وہ مال جس جگہ سے کہ کفایت کرے گا اُسی جگہ سے حج کرنے کے واسطے نائب اُس کی طرف سے روانہ کیا جائے گا۔ اور اگر وہ وصیّت حج کرانے کی اپنی طرف سے کر گیا ہے اور کچھ مال معیّن نہیں کیا اور نہ کوئی جگہ مقرّر کی تو اس صورت میں جناب حضرت امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے نزدیک اس کے وطن سے اُس کے واسطے حج کرایا جائے گا جب کہ ثُلُث مال اُس کا اُس کو کفایت کرتا ہے اُس کے مرنے کی جگہ سے حج کرنے کے واسطے نائب روانہ نہیں کیا جائے گا جیسا کہ اس کے قائل صاحبین ہیں -رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما -۔ حاصل یہ کہ اس مسئلے میں عمل اور فتویٰ جناب حضرت امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قول پر ہے ،نہ صاحبین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کے ۔ اور اگر ثُلُث مال اس کو کفایت نہیں کرتا تو جہاں سے کفایت کرے وہاں سے اُس کی طرف سے حجِ بدل کرنے کے واسطے نائب روانہ کیا جائے گا ۔ اور اگر کوئی تجارت وغیرہ کے واسطے نکلا اور مر گیا اور وصیّت حج کرانے کی اپنی طرف سے کر گیا تو اس صورت میں بالاجماع اُس کے وطن سے اُس کی طرف سے حج کرایا جائے گا ۔اور اگر حجِ بدل کرنے والا راستے میں مر گیا اور وہ جس کی طرف سے حجِ بدل کر رہاتھا وہ زندہ ہے تو وہ پھر کسی کو اپنے مکان سے حج کرنے کے واسطے اپنی طرف سے روانہ کرے گا ۔ اور اگر وہ کسی میّت کی طرف سے حجِ بدل کرنے کے واسطے نکلا تھا اور وہ رستے میں مر گیا تو اس صورت میں میّت کے وطن سے پھر تہائی اُس مال کی جو کہ باقی ہے اور کو خرچ دے کر حج اُس کی طرف سے کرایا جائے گا،اگر کافی ہو ،ورنہ جہاں سے کافی ہوسکے تو وہاں سے حج اُس کی طرف سے کرایا جائے گا،گو مکہ معظّمہ ہی سے ہو-

زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-۔

اور اگر کوئی شخص وصیّت حج کرانے کی اپنی طرف سے کر جائے اور اُس کے کئی وطن ہیں تو اس صورت میں اس کی طرف سے حج کرایا جائے اُس کے اُس وطن سے جو مکہ معظّمہ سے بہت قریب ہے –

زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-۔

اور اگر اُس کے واسطے وطن ہی نہ ہو تو اس صورت میں اُس کے واسطے حج کرایا جائے اُس جگہ سے کہ جہاں وہ مرا ہے ۔اور اگر کوئی شخص وطن والا وصیّت حج کرانے کی اپنی طرف سے کر جائے اس طرح پر کہ اُس کی طرف سے حج کرایا جائے اُس کے غیر شہر سے تو اس صورت میں اُس کی طرف سے حج کرایا جائے گاموافق اُس کی وصیّت کے خواہ وہ جگہ کہ جہاں سے حج کرانے کی اُس نے وصیّت کی ہے مکہ معظّمہ سے قریب ہو ،یا کہ دور- زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-۔ اور جس صورت میں کہ میّت ہی کے شہر سے حج کرانا وصی پر واجب ہوتا ہے اور اُس نے اُس کے غیر شہر سے حج اُس کی طرف سے کروایا تو اس صورت میں میّت کی طرف سے حجِ فرض ادا نہ ہو گا ،یہ حج وصی کا ہو گا اور اُس کو پھر دوسری بار حج میّت کی طرف سے اُس کے شہر سے کرانا لازم ہو گا ،مگر ہاں !جب کہ وہ جگہ کہ جہاں سے اُس کی طرف سے حج کرایا ہے اُس کے وطن سے قریب ہو اس طرح پر کہ وہاں جانے والا جائے اور پھر وہ اُس کو وطن کی طرف رات ہونے کے پہلے لوٹ آئے تو اس صورت میں حجِ فرض میّت ہی کا ادا ہو جائے گا،پھر اُس کو دوسری بار میّت کی طرف سے حج کروانا لازم نہ ہو گا۔

نویں شرط :

یہ ہے کہ حج کی نیّت کرے اُس کی طرف سے کہ جس کے لئے حج کرنا ہے احرام کے وقت یا بعد احرام کے ،قبل اس کے کہ افعال حج کے شروع کرے اور زبان سے اس طرح پر کہنا افضل ہے :

نَوَیْتُ الْحَجَّ عَنْ فُلَان وَ لَبَّیْکَ بِحجَّۃ عَنْ فُلَان.

اور لفظِ فلاں کی جگہ اُس شخص کا نام لے کہ وہ جس کی طرف سے حج کرنا ہے اور لفظِ فلاں کا نہ پڑھے اور اگر چاہے تو دل ہی کی نیّت پر اکتفا کرے ،زبان سے کچھ نہ کہے ۔ اور اگر نام اُس کا کہ جس کی طرف سے حج کرتا ہے بھول جائے اور نیّت حج کی یا احرام حج کا اُس کی طرف سے کرے تو یہ صحیح ہے اور حج ادا ہو جائے گا اُس کی طرف سے کہ اُس نے نیّت جس کی طرف سے کی ہے ۔ اور اگر احرام کسی شخص نے مبہم باندھا اس طرح پر کہ” میں نے حج کا احرام باندھا “اور جس کسی کی طرف سے کہ وہ حج کرتا ہے ، اُس کے ذکر سے اُس نے بالکل سکوت کیا،نہ تو معیّن کرکے اُس کا نام لیا اور نہ مبہم تو اس صورت میں اس کو اختیار ہے کہ جس کے واسطے وہ چاہے حج معیّن کرے خواہ اپنے واسطے یا غیر کے واسطے ، پہلے اس کے کہ افعال حج کے شروع کرے ۔ جیسے : طوافِ قدوم اور اگر طوافِ قدوم کرنے کا اتّفاق نہ ہو تو جیسے : وقوفِ عرفات۔ اور اگر حج کیا کسی نے کسی کی طرف سے اُس کے امر سے اور نیّت نہ کی فرض کی اور نہ نفل کی تو اس صورت میں حجِ فرض اُس کی طرف سے کہ جس کی طرف سے اُس نے کیا ہے ،ادا ہو جائے گا۔ اور اگر نیّت نفل کی ہے تو پھر اس صورت میں حجِ فرض اُس کا ادا نہ ہو گا۔

دسویں شرط :

یہ ہے کہ آمر کے یعنی،حکم کرنے والے کے میقات سے احرام حج کا باندھے ،جب کہ وہ امر اس کو فقط حج کا کرے بغیر تعیین کسی مکان کے ۔ سو جس صورت میں کسی نے کسی کو حج کرنے کا امر کیا اور کوئی جگہ مقرّر نہ کی کہ کہاں سے احرام حج کا باندھے اور اُس نے میقات پر سے احرام عمرے کا باندھا ،پھر احرام حج کا مکہ معظّمہ سے باندھا- زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا- تو یہ جائز نہ ہو گا اور وہ ضامن ہو گا یعنی ،جتنا کچھ نفقہ یعنی،خرچ لیا ہے وہ سب اُس کو واپس کرنا ہو گا اور حجِ فرض آمر کا ادا نہ ہو گا ؛اس لئے کہ اس نے پہلے عمراہ کر لیا اور میقات سے اُس کی طرف سے حج کا احرام نہیں باندھا۔ فائدہ : اور جاننا چاہئے کہ جو شخص حج غیر کی طرف سے کرے تو اُس کو چاہئے کہ جب مکہ معظّمہ میں آئے – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-اگرچہ وہ اوّل ہی سال میں آئے تو وہ عمرہ حج کے پہلے نہ کرے ،نہ تو میقات سے کرے اور نہ مکہ معظّمہ سے – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا- اگرچہ رمضان شریف کا مہینہ ہو پھر وہ اگر باوجود اس منع ہونے کے ،عمرہ کرے گا تو مخالف ہو گا اور ضامن یعنی،جو کچھ نفقہ یعنی،خرچ لیا ہے وہ سب اُس کو واپس کرنا ہو گا ؛اس لئے کہ وہ مامور ہے اس کا کہ وہ اپنے اس سفر کو فقط حج ہی کے واسطے اس کی طرف سے کرے ،حج کرنے سے پہلے عمرہ نہ کرے اور حج جو غیر کی طرف سے کرتا ہے ، میقات سے بے احرام کسی جگہ حِل کا جیسے جدہ یا خُلَیْص مثلاً : قصد کرکے اوّلاً وہاں آئے پھر بعد اُس کے مکہ معظّمہ میں بے احرام داخل ہو؛کیونکہ اس حیلے سے بے احرام مکہ معظّمہ میں داخل ہو ناجائز ہے – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا- تو وہ اگر چاہے کہ آمر کی طرف سے مکہ معظّمہ ہی سے احرام حج کا باندھے تو یہ اس کو کفایت نہ کرے گا- زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-،بلکہ اُس کو لازم ہے کہ کسی میقات پر جا کے اُس کی طرف سے احرام حج کا باندھے ، تاکہ حج اُس کا میقاتی ہو؛کیوں کہ وہ اس کا بھی مامور ہے کہ حج اُس کی طرف سے میقاتی کرے اور جب وہ کسی میقات پر جا کے اُس کی طرف سے احرام حج کا باندھے گا تو اس صورت میں حجِ فرض اُس کا کہ جس کی طرف سے حج کرتا ہے ،ادا ہو جائے گا۔فتویٰ اسی پر ہے ۔ اور اگر وہ کسی میقات پر نہ گیا اور مکہ معظّمہ ہی سے اُس نے اُس کی طرف سے احرام حج کا باندھا تو اس صورت میں حجِ فرض اُس کا ادا نہ ہو گا اور سب نفقہ اُس کو واپس کرنا ہو گا۔

گیارہویں شرط :

یہ ہے کہ مامور یعنی، جس کو حکم کیا گیا حج کرنے کا وہ خود اپنے ہی ذات سے حج ادا کرے پھر اگر اس نے بیماری کے سبب سے یا کسی مانع کے سبب سے جیسے حبس وغیرہ آمر کے بے حکم کسی غیر کو مال دے ڈالا اور اُس نے میّت کی جانب سے یا آمر کی جانب سے حج ادا کر دیا تو اس صورت میں اس کی طرف سے حج ادا نہ ہو گا اور اگر اُس کو آمر نے اذن دیا تھا مال دے ڈالنے کا کسی غیر کو عجز حاصل ہونے کی صورت میں تو اس صورت میں حج اُس کی طرف سے ادا ہو گا ۔

بارہویں شرط :

یہ ہے کہ جو شخص حج غیر کی طرف سے کرتا ہے تو وہ اپنے حج کو فاسد نہ کرے پھر اگر اُس نے پہلے وقوفِ عرفات کے اپنے حج کو جماع سے فاسد کیا تو اس صورت میں حج وہ جس کی طرف سے کرتا ہے حج اُس کا ادا نہ ہو گا اگرچہ دوسرے برس پھر وہ اس حج کی قضا کرے اور یہ قضا کرنا دوسرے برس اس پر واجب ہے اور یہ حج دوسرے برس کا اسی کرنے والے کا ہو گا ، آمر کی طرف سے واقع نہ ہو گا اور یہ حج جو کہ اُس نے جماع سے فاسد کیا ہے تو اُس کو سب پورا کرنا پڑے گا اور ایک قربانی اپنے ہی مال سے اُس کو کرنا ہو گا اور اس قربانی کرنے میں ایک بکری کفایت کرتی ہے اور اسی طرح اُس کی عورت پر بھی ایک ہی قربانی واجب ہو گی ،جب کہ وہ بھی احرامِ حج سے ہو گی اور اُس کو بھی اس قربانی میں ایک بکری کفایت کرتی ہے اور جو کچھ مال حج کروانے والے کا حج کرنے والے کے پاس بچا ہوا ہے ،وہ سب اُس کو واپس کرنا ہو گا اور جو کچھ آمر کے مال سے رستے میں اُس نے خرچ کیا ہے ،وہ اس کا ضامن ہو گا ،وہ اُس کو اپنے پاس سے دینا پڑے گا ۔ اور اگر اُس نے بعد وقوفِ عرفات کے جماع کیا تو اس صورت میں حج فاسد نہ ہو گا اور نفقہ بھی واپس کرنا نہ پڑے گا ،مگر ایک اونٹ اپنے مال سے اُس کو قربانی کرنا ہو گا اور اسی طرح اُس کی عورت پر بھی جب کہ وہ احرامِ حج سے ہو گی تو ایک اونٹ اُ س کو قربانی کرنا ہو گا۔

تیرہویں شرط :

یہ ہے کہ آمر کے حکم کی مامور مخالفت نہ کرے ۔ سو اگر آمر نے اُس کو فقط حج ہی کرنے کے واسطے حکم کیا اور اُس نے آمر کی طرف سے قِران کیا یعنی،حج اور عمراہ دونوں کی اُسی کی طرف سے نیّت کی یا اُس نے تمتّع کیا یعنی،پہلے عمرہ اُس کی طرف سے کیا پھر حج تو اس صورت میں حج آمر کی طرف سے نہ ہو گا اور اُس کو نفقہ واپس کرنا ہو گا اور یہی حکم ہے اگر اُس نے قِران کی صورت میں حج و عمرہ میں سے ایک کی نیّت اپنی طرف سے کی یا اور کسی کی طرف سے کی اور دوسرے کی نیّت آمر کی طرف سے کی اور اسی طرح تمتّع کی صورت میں اگر اُس نے پہلے عمرہ اپنی طرف سے کیا یا اور کسی غیر کی طرف سے اور پھر حج آمر کی طرف سے کیا تو ان سب صورتوں میں حج آمر کا ادا نہ ہو گا اور نفقہ واپس کرنا ہو گا۔ اور اگر حجِ بدل کرنے والے کو دو شخصوں نے امر کیا : ایک نے تو حج کا امر کیا اور دوسرے نے عمرے کا اور دونوں شخصوں نے اُس کو قِران کرنے کی اجازت دی اور اُس نے قِران کیا تو یہ درست ہے اور اس صورت میں وہ مخالف کسی طرح سے نہ ہو گا ۔ اور اگر اُن دونوں نے اجازت قِران کی نہیں دی تو یہ درست نہ ہو گا اور وہ مخالف ہو گا ۔ اور اگر آمر نے حج کرنے والے کو قِران یا تمتّع کی اجازت دی ہے تو اُس کو اس صورت میں قِران یا تمتّع درست ہے ۔اور اگر حج کرانے والے نے اُس کو یوں کہہ دیا ہے کہ تو جس طرح سے چاہے میری طرف سے حج کر خواہ فقط حج ہی کا احرام باندھ یا قِران کر یا تمتّع کر تو اس صورت میں اس کو اختیار ہے جو چاہے سو کرے ۔ [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ دم شکر جو اس کے اوپر اس صورتِ مذکورہ میں بسبب قِران کرنے کے یا تمتّع کرنے کے لازم ہو گا تو وہ حجِ بدل کرنے والااپنے ہی مال سے کرے گا ،آمر کے مال سے نہیں ؛کیوں کہ حقیقتِ فعل تو اسی کی طرف سے ہے اگرچہ آمر ہی طرف سے اس صورت میں حج واقع ہو جاتا ہے اس لئے کہ یہ تو وقوعِ شرعی ہے ،نہ حقیقی ۔ [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ جو کچھ کہ جنایت حجِ بدل کرنے والے سے ہو گی تو اس کا دم بھی وہ اپنے ہی مال سے ادا کرے گا ۔ [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ جب حجِ بدل کرنے والا حجِ بدل سے فارغ ہو تو اب وہ جب تک مکہ معظّمہ میں اپنے اہلِ قافلہ کے جانے کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہے – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا- اُس کو درست ہے کہ عمرہ کرے خواہ اپنے واسطے یا غیر کے واسطے اور خرچ ضروری اپنا وہ اُس مال سے کیا کرے گا جو کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے اُس نے لیا ہے اور اگر رُفَقَا اُس کے روانہ ہو جائیں اور یہ اُن کے پیچھے رہ جائے تو اس صورت میں جو کچھ خرچ اس کے ٹھہرنے میں عمرہ کرنے کے واسطے ہوئے وہ اپنے مال سے کرے اور جب وہ عمرہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا اور مکہ معظّمہ سے چلنے لگے گا تو پھر وہ اپنا خرچ اُس مال سے کرے گا جو کہ اُس نے حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے ۔ [حاصل وخلاصہ : ] حاصل یہ کہ جب تک وہ مکہ معظّمہ میں بعد فراغِ اعمالِ حج کے یا اسی طرح اور کسی شہر میں قافلہ جانے کے انتظار میں ٹھہرا رہے گا تو وہ اُس مال میں سے جو کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے اپنا خرچ ضروری کرے گا اور بعدِ قافلہ روانہ ہوجانے کے اگر وہ کسی حاجت کے سبب ٹھہر گیا تو وہ خرچ ضروری اپنا اپنے مال سے کرے گا ،نہ اُس مال سے جو کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے اور پھر جب وہ بعد مقام کے چلنے لگے تو وہ پھر اُس مال سے اپنا خرچ ضروری کرے گا اور اسی طرح حکم ہے جب کہ وہ حجِ بدل کے واسطے آئے اور کسی مقام پر انتظارِ قافلے کے سبب ٹھہر جائے تو وہ اُس مال سے جو کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے ،اپنا خرچِ ضروری کرے ۔اور اگر بعد قافلہ روانہ ہو جانے کے یہ ٹھہر جائے تو پھر نفقہ اپنا مدّت ٹھہرنے تک اپنے مال سے کرے ،نہ اُس مال سے جو کہ حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے ۔

چودہویں شرط :

یہ ہے کہ ایک ہی حج کا احرام باندھے ۔ پھر اگر اُس نے دو حج کا احرام باندھا : ایک حج کا احرام اپنے لئے اور دوسرے حج کا آمر کے لئے ،یا ایک حج کا احرام آمر کے لئے اور دوسرے حج کا اپنے لئے تو یہ درست نہیں ۔ پھر اگر اُس نے اپنے احرام کو رفض کیا ،ترک کر دیا ،اس صورت میں کہ اُس نے پہلے احرام آمر کی طرف سے باندھا اور پھر اپنی طرف سے تو رفض کرنا اُس کا اور ترک کرنا اُس کا اپنے احرام کو درست ہے ،اس صورت میں آمر کا حج ادا ہو جائے گا ۔ اور اگر اُس نے پہلے اپنی طرف سے احرام باندھا اور پھر آمر کی طرف سے تو اس صورت میں احرام کو رفض کرنا، ترک کرنا اُس کو ممکن ہی نہیں ہے احرام حج کا اسی کا باقی رہے گا اور حج آمر کا ادا نہ ہو گا اور اس صورت میں اُس کو نفقہ اُس کا واپس کرنا ہو گا۔

پندرہویں شرط :

یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے لئے احرام باندھے ۔ سو اگر اُس کو دو شخص نے حج کے واسطے امر کیا ،خواہ وہ اُس کے ماں باپ ہوں یا ان دونوں کے غیر اور اُس نے دونوں کی طرف سے احرام باندھا تو اس صورت میں حج دونوں کا ادا نہ ہو گا ، بلکہ اس صورت میں حجِ نفل([10])،حج کرنے والے کا ہو گا۔ اور اس صورت میں اگر وہ اس احرام کو چاہے کہ ایک ہی کے واسطے اُن دونوں میں سے معیّن کرے تو یہ اب اُس کو درست نہیں اور مال دونوں شخصوں کا اُس کو واپس کرنا ہو گا اور اگر اُس مال میں سے کچھ خرچ کیا ہو گا تو اُس کا ضمان اُس پر دینا آئے گا ۔ اور اگر ایک ہی شخص کے واسطے خاص کرکے احرام باندھا تو اس صورت میں حج اُسی کا ادا ہو گا اور دوسرے کا مال واپس کرنا پڑے گا۔ اور اگر ایک شخص کے واسطے احرام باندھا بغیر تعیین کے تو اس صورت میں اس کو اختیار ہے کہ جس کے واسطے چاہے معیّن کرے جب تک کہ اعمالِ حج شر و ع نہیں کئے اور بعد شروع کرنے کے پھر کسی کے واسطے معیّن کرنا اُس کودرست نہیں ہے ،اب اس صورت میں حج اسی کا ہو گا اور دونوں شخصوں کا مال واپس کرنا اُس کو پڑے گا اور جو کچھ اُس مال میں سے خرچ کیا ہو گا تو اُس کا ضمان اُس کو دینا آئے گا اور اُس کو درست ہے کہ اس حج کا ثواب اُن دونوں کو بخشے یا اُن میں سے ایک ہی کو بخشے یا اُن دونوں کے سوا کسی اور کو بخشے ؛کیوں کہ اپنے عمل کا ثواب درست ہے کہ جس کو چاہے بخشے ،لیکن وہ اس سبب سے کچھ نفقے کا مستحق نہ ہو گا۔ اور اگر کسی شخص نے دو شخصوں کی طرف سے احرام بغیر اُن کے امر کے باندھا، خواہ وہ دونوں اُس کے ماں باپ ہوں یا اُن کے غیر تو اس صورت میں اُس کو درست ہے کہ یہ احرام جس کے واسطے چاہے اُن دونوں میں سے معیّن کرے اور وہ جو اُس نے پہلے احرام دو شخصوں کی طرف سے بغیر اُن کے امر کے باندھا تھا اور نیّت اُن کی کی تھی تو یہ لغو ہے ،اس کا اعتبار نہیں ۔ پھر اگر اس صورت میں کہ اُس نے اس احرام کو ایک ہی کے واسطے معیّن کیا اور یہ حج اُس کی طرف سے نفل کر دیا تو نفل حج کا ثواب اُس کو ملے گا اور اگر اُس پر حج فرض ہے کہ جس کے واسطے اس احرام کو اُس نے معیّن کیا ہے اور اُس نے وصیّت حج کرانے کی اپنی طرف سے اپنے مال میں سے نہیں کی اور اُس نے حجِ فرض کی نیّت کرکے اُس کی طرف سے حج کر دیا یا اُس نے اُس کی طرف سے مطلق حج کی نیّت کی اس طرح پر کہ میں اس کی طرف سے حج کرتا ہوں تو اس صورت میں حجِ فرض اُس کا ادا ہو جائے گا۔ اِنْ شَــآءَالـلّٰـه تَعَالیٰ اور اگر وہ حج کرانے کے واسطے وصیّت کر گیا ہے تو اس صورت میں حجِ فرض اُس کا ادا نہ ہو گا ،حجِ نفل کا ثواب اُس کو ملے گا اور اس صورت میں حجِ فرض اُس کا جب ادا ہو گا کہ اُس کے موافق وصیّت کے حج اُس کی طرف سے اُس کے مال سے کرایا جائے گا ۔ اور اگر اس صورت میں کہ اُس نے دو شخصوں کی طرف سے احرام بغیر اُن کے امر کے باندھا اور پھر اس احرام کو ایک کے واسطے اُن دونوں میں معیّن نہیں کیا تو پھر اس صورت میں یہ حج اسی کا ہو گا بعد حج کرنے کے اُس کا ثواب وہ جس کو چاہے بخشے ،چاہے ایک کو یا دونوں کو یا اُن کے سوا کسی اور کو۔

سولھویں شرط :

یہ ہے کہ آمر مسلمان ہو یعنی،جو شخص کہ اپنی طرف سے حج کرنے کے واسطے کسی کو امر کرتا ہے تو وہ چاہئے کہ مسلمان ہو اور وصی کا اسلام شرط نہیں اور چاہئے کہ مامور بھی مسلمان ہو۔ سو اگر کوئی مسلمان کسی کافر کی طرف سے حج کرے یا کوئی کافر کسی مسلمان کی طرف سے تو یہ حج ہی صحیح نہ ہو گا ۔

سترہویں شرط :

یہ ہے کہ آمر عاقل ہو یعنی،جو شخص کہ وہ وصی ہے تو چاہئے کہ وہ عاقل ہو ۔اور اسی طرح چاہئے کہ جس کی طرف سے حجِ بدل کرنے والا حجِ بدل کرتا ہے وہ بھی عاقل ہو یعنی،اس پر حج فرض ہوا ہو اس حالت میں کہ وہ عاقل ہو([11])اور وصیّت بھی حج کی اپنی طرف سے کرانے کی اس نے کی ہو اپنے حالِ شعور میں ۔ اور اسی طرح چاہئے کہ مامور بھی عاقل ہو ۔سو اگر کوئی مجنون کسی عاقل کی طرف سے حج کرے گا یا کہ کسی مجنون کی طرف سے یا کوئی عاقل کسی مجنون کی طرف سے حج کرے گا تو حج صحیح نہ ہو گا۔

اٹھارویں شرط :

یہ ہے کہ مامور تمیز رکھتا ہو اُس اعمال کی جو کہ متعلّقہ حج کے ہیں ۔سو حج غیر کی طرف سے اگر کوئی صبی غیرِ ممیّز کرے تو صحیح نہیں ہے اور مراہق اگر حج غیر کی طرف سے کرے تو صحیح ہے ۔ تنبیہ : جاننا چاہئے کہ یہ جو ”مفتاح الحج“اور ”کلیدباب الحج “میں لکھا ہے کہ : مراہق کی نیابت صحیح نہ ہو گی ۔ تو یہ صحیح نہیں ہے ،صحیح یہی ہے کہ نیابت اُس کی صحیح ہے ۔چناں چہ” منسک کبیر“وغیرہ میں اس کو خوب تصریح سے بیان کیا ہے ۔([12])وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ أَعْلَم

اُنیسویں شرط :

یہ ہے کہ حج غیر کی طرف سے کرنے والا اپنے اختیار سے حج کو فوت نہ کرے اور حج کے افعال بجا لانے میں تقصیر اُس کی جانب سے واقع نہ ہو ۔ سو اگر اس سے حج فوت ہوا جس برس کہ اُس نے احرام اُس کا باندھا تھا بسبب مشغول ہوجانے اُس کے اپنے نفس کے حوائج میں تو یہ احرام اس کا کفایت نہ کرے گا اس کی طرف سے ۔ پھر جو حج فوت اس سے ہوا ہے بسبب اس کی تقصیر کے تو اس سبب سے وہ اس کے مال کا ضامن ہو گا ۔پھر اگر اگلے برس میّت کی طرف سے سے اس نے اپنے مال سے حج کر دیا تو حج اُس میّت کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اب وہ اُس کے مال کا ضامن نہ ہو گا۔ اور اگر حج اس سے فوت ہوا بے اس کی کی تقصیر کے ۔جیسے بیمار ہو گیا ،یا کہ اونٹ پر سے گِر پڑا ،یا اسی طرح اور کسی آفتِ سماویہ سے تو اس صورت میں نفقے کا ضامن نہ ہو گا اور اگلے برس اپنے مال سے میّت کی طرف سے حج کردے ۔

بیسویں شرط :

یہ ہے کہ حج وہی شخص کرے کہ جس کو حج کرانے والے نے حج کرنے کے واسطے اپنی طرف سے معیّن کیا ہے اور کوئی شخص دوسرا اس صورت میں اس کی طرف سے حج نہ کرے ۔ پس اگر وہ یوں کہہ گیا ہے کہ میری طرف سے فلانا ہی شخص حج کرے اور کوئی دوسرا شخص نہ کرے ۔سواگر وہ شخص کہ جس کو حج کرنے کے واسطے معیّن کر گیا تھا مر گیا تو اس صورت میں کسی اور کا حج کرنا اُس کی طرف سے جائز نہیں ۔ اور اگر وہ اسی قدر کہہ گیا ہے کہ میری طرف سے فلانا ہی شخص حج کرے اور منع نہیں کر گیا دوسرے کو حج کرنے سے اور وہ شخص کہ جس کو کہہ گیا تھا وہ مر گیا اور وصی نے کسی غیر سے حج اُس کی طرف سے کروادیا تو یہ جائز ہے ۔ اور اگر کوئی شخص وصیّت حج کرانے کی کر گیا اور کسی شخص کو حج کرنے کے واسطے معیّن نہیں کیا تو اس صورت میں اگر اُس کے ورثہ سب جمع ہو کے اس کی طرف سے کسی شخص سے حج کر وا دیں تو جائز ہے ۔ اور اگر کوئی شخص وصیّت کر گیا کہ میری طرف سے حج کروا دیا جائے اور اُس نے کسی شخص کو حج کرنے کے واسطے معیّن نہیں کیا تو اس صورت میں اُس کے وصی کو درست ہے کہ وہ خود میّت کی طرف سے حج کر دے ،مگر ہاں !جب کہ وہ وصی وارث اُس کا ہو یا وہ وصی وہ مال جو کہ حج کرانے کے واسطے ہے کسی اُس کے وارث کو اُس کی طرف سے حج کرنے کے واسطے دے تو اس صورت میں حج وارث کا اس کی طرف سے کرنا جائز نہیں ،مگر ہاں !جب کہ اور جو کہ اس کے ورثہ ہیں وہ اس کی اجازت دیں اور وہ سب بڑے بھی ہوں اور حاضر بھی ہوں تو جائز ہو گا اور اگر کوئی اُن میں سے صغیر ہے یا غائب ہے تو نہیں جائز ہو گا ۔ اور اگر کوئی شخص وصی سے یوں کہہ گیا ہے کہ تو یہ مال اُس کو دے جو کہ میری طرف سے حج کرے تو اس صورت میں وصی کو کسی طرح نہیں درست ہے کہ وہ خود اُس کی طرف سے حج کرے خواہ ورثہ اجازت دیں یا نہ دیں یا ورثہ اُس کے چھوٹے ہوں یا بڑے ۔ اور اگر کوئی شخص وصیّت کر گیا کہ میری طرف سے میرا وارث حج کرے تو یہ درست نہیں ،مگر باجازتِ ورثہ۔ تنبیہ : جاننا چاہئے کہ یہ جو کتاب ”مفتاح الحج“ اور ”کلیدباب الحج “میں ہے کہ : بیسویں شرط یہ ہے کہ نائب کو تعیّن کرے یعنی،اس طور پر کہے کہ فلانے شخص کو اپنا نائب مقرّر کرتا ہوں ۔انتہی سو یہ بیسویں شرط اس طرح پر نہیں ہے ،بلکہ بیسویں شرط یہ ہے کہ حج وہی شخص کرے کہ جس حج کرانے والا حج کرنے کے واسطے معیّن کر گیا ہے اور تعیین کی صورت یہ ہے کہ میّت اس طرح پر کہہ جائے کہ میری طرف سے فلانا ہی شخص حج کرے اور اُس کے سواے کوئی حج نہ کرے تو اس صورت میں کوئی دوسرا اُس کی طرف سے کرے گا تو جائز نہ ہو گا ،گو وہ شخص مر بھی جائے ،چنانچہ بیان اس کا ابھی اوپر تصریح سے کیا گیا ہے ۔ وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ أَعْلَم وَعِلْمُہُ أَتَمّ تمام ہوا بیان شرائطِ حجِ بدل کا بِفَضْلِہِ وَ کَرَمِہِ۔ [فائدہ : ] بعد اس کے اب جاننا چاہئے کہ یہ سب شرطیں جو مذکور ہوئیں تو یہ سب شرطیں ادائے حجِ فرض کے لئے ہیں ،حجِ نفل میں ان شرطوں میں سے اکثر چیزیں شرط نہیں ہیں ،مگر اسلام ، عقل اور تمیز ۔([13]) سو جس طرح حجِ فرض میں یہ چیزیں شرط ہیں ،اسی طرح حجِ نفل میں بھی شرط ہیں اور نیّت بھی حجِ نفل میں شرط ہے ،خواہ اوّل ہی احرام باندھنے کے وقت حج کرانے والے کے واسطے نیّت حج کی کرے یا حج کی نیّت اپنے واسطے کرے اور حج کرنے کے اس کا ثواب حج کرانے والے کو بخشے ،ہر طرح درست ہے اور اجارے کا ذکر نہ کرنا بھی حجِ نفل میں شرط ہے جیسے : حجِ فرض میں چنانچہ ذکر اس کا اوپر بھی یعنی،پانچویں شرط کے بیان میں کر دیا گیا ہے ۔ [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ جس شخص نے آپ ابھی حج نہیں کیا اور وہ غیر کی طرف سے کرتا ہے تو اگر اُس پر حج فرض ہے بسبب اس کے کہ وہ مالک ہے زاد و راحلہ یعنی،خرچِ راہ و سواری کا اور وہ تندرست بھی ہے تو اُس کو اس صورت میں دوسرے کی طرف سے حج کرنا مکروہِ تحریمی ہے اگر وہ اوّل ہی سال کہ جس سال میں اُس پر حج فرض ہوا ہے حج اپنا ادا نہ کرے گا تو گناہ گار ہو گا اور اسی طرح مکروہِ تحریمی ہے اور وہ گناہ گار بھی ہو گا اگر وہ پہلے حجِ فرض اپنا نہ کرے ،بلکہ نفل حج کی نیّت اپنی طرف سے کرے اور پھر باوجود اس کے اگر وہ پہلے حج دوسرے کی طرف سے کرے گا تو حجِ فرض دوسرے کی طرف سے صحیح ہو جائے گا ،مگر اُس کو دوسرے کی طرف سے حج کرنا اس صورت میں مکروہِ تحریمی ہے اور جو شخص ایسے سے حج کرائے تو یہ اُس کے حق میں مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر یہ شخص باوجود اس کے پہلے حجِ نفل اپنی طرف سے کرے گا تو یہ بھی صحیح ہو گا ،مگر بہرحال اُس کو دوسری بار حجِ فرض اپنی طرف سے کرنا ہو گا ۔ [سوال : ] اور اگر جس شخص نے کہ آپ حج اپنا نہیں کیا اور وہ حج غیر کی طرف سے کرتا ہے تو اگر اُس پر حج فرض نہیں ہے اور وہ غیر کی قدرت سے مکہ معظّمہ میں داخل ہوا ہے – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا- تو اب اُس کے اوپر بسبب داخل ہونے کے مکہ معظّمہ میں حج فرض ہے یا نہیں ؟ [جواب : ] تو جاننا چاہئے کہ مفتیٔ مکہ معظّمہ محمد یاسین میر غنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ”منتقی فی حلّ الملتقی“میں لکھا ہے کہ : جب وہ مکہ معظّمہ میں داخل ہو گا تو اُس پر حج فرض ہو جائے گا بسبب اس کے کہ وہ قادر ہو گیا ۔([14]) اور حضرت ملا سنان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی ”منسک“ میں بھی لکھا ہے کہ : اُس پر حج فرض ہو جائے گا بسبب داخل ہونے کے مکہ مشرّفہ میں بسبب پائے جانے استطاعت کے ۔([15]) اور اسی کا فتویٰ دیا ہے مفتیٔ دارالسلطنت علامہ ابو السعود رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ۔([16]) اور اسی طرح اسی کا فتویٰ دیا ہے سیّد احمد بادشاہ نے اور انہوں نے اس باب میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے ۔ اور حضرت عبدالغنی حنفی نابلسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔([17]) یعنی،اُس پر حج فرض نہیں ہوتا بسبب داخل ہونے کے مکہ معظّمہ میں ،اس لئے کہ اُس برس تو اُس کو ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی طرف سے حج کرے ؛کیوں کہ سفر کرنا اُس کا آمر کے مال سے ہے ،سو وہ اُسی کی طرف سے احرام باندھے گا اور اُسی کی طرف سے حج کرے گا اور اُس کو تکلیف دینے میں اس امر کی کہ وہ مکہ معظّمہ میں اگلے برس تک اقامت کرے ، تاکہ وہ حج اپنی طرف سے کرے اور اپنے عیال کو اپنے شہر میں چھوڑ دے ،بڑا ہی حرج ہے اور اسی طرح اُس کو تکلیف دینے میں بھی اس امر کی کہ وہ پھر لوٹ کر مکہ معظّمہ میں آئے اور حالانکہ وہ فقیر ہے ، بڑا حرج ہے ۔ اور اُس پر حج فرض نہ ہونے کے باب میں حضرت موصوف نے بھی ایک رسالہ لکھا ہے ۔ اور ہمارے شیخ کے شیخ نے حضرت علامہ مولانا شیخ محمد عابدسندھی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہِ الأبدي نے ”طوالع الانوار شرح الدرّ المختار“([18])میں ذکر فرمایا ہے کہ : حق یہ ہے کہ اُس کے اوپر احد النسکین واجب ہے یعنی،ایک چیز حج و عمرہ میں سے ، اس لئے کہ حج فرض نہیں ہوتا ہے بغیر استطاعت کے اور جو شخص کہ غیر کی طرف سے حج کرتا ہے وہ تو غیر کی طرف سے احرام باندھے ہوئے ہے اور اُس کو اب ممکن ہی نہیں کہ اُس احرام کو اپنے واسطے کر سکے ۔([19]) سو اگر اُس پر حج فرض ہو یعنی،بسبب داخل ہونے کے مکہ معظّمہ میں تو البتہ اُس کو اگلے برس تک ٹھہرنا ہو گا اور اگر ایسا ہے کہ وہ استطاعت نہیں پاتا اپنے ٹھہرنے کی اور علاحدہ رہ جانے کی تو اس صورت میں اس کو عمرہ کرنا کفایت کرتا ہے ،اسقاط واجب میں اور فقہا نے تو حج ہی کو معیّن نہیں فرمایا ہے کہ حج ہی واجب ہوتا ہے اُس کے اوپر جو کہ مکہ معظّمہ میں داخل ہو- زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ تَشْرِیْفًا-۔([20]) [فائدہ : ] اور اب ایک بات فائدے کی اور جاننا چاہئے کہ جب کوئی فقیر آفاقی کسی میقات پر پہنچ جائے اور وہ چلنے پر قادر ہے تو حج کرنا اُس پر فرض ہو جائے گا بشرطیکہ زاد اُس کے پاس ہو جس طرح سے کہ مکی یعنی،جو لوگ کہ مکہ معظّمہ کے رہنے والے ہیں اور وہ چلنے پر قادر ہیں بلا کلفت و مشقّت تو اُن پر بھی حج فرض ہے بشرطیکہ زاد اُن کے پا س ہو۔ سو اُس فقیر آفاقی کو چاہئے کہ اپنے احرامِ حج میں نفل حج کی نیّت نہ کرے اس گمان سے کہ میں تو فقیر ہوں ،بلکہ اُس کو چاہئے کہ فرض حج کی نیّت کرے یا مطلق حج کی نیّت کرے کہ میں نے نیّت حج کی کی اور احرام اُس کا باندھا تاکہ فرض اُس کا ادا ہوجائے اور اگر وہ نفل حج کی نیّت کرے گا تو اس صورت میں یہ نفل حج ہو گا اور اُس کو پھر دوبارہ اپنی طرف سے حجِ فرض کرنا ہو گا اور نہیں ہے اس طرح حال فقیر حجِ بدل کرنے والے کا جو کہ آپ ابھی حج نہیں کر چکا ہے ،اس لئے کہ وہ تو غیر کی قدرت سے آیا ہے اور اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور وہ مکہ معظّمہ میں داخل ہوا ہے غیر کی طرف سے احرامِ حج باندھ کر اور اُس کو بعد حج کے اگلے برس تک ٹھہرنے کی قدرت نہیں ہے اور نہ جاکر پھر آنے کی تو اس سبب سے اُس پر حج فرض نہ ہو گا ، مگر ہاں ! جب کہ اُس کو استطاعت ہو بخلاف اُس شخص کے جو کہ اس ارادے سے نکلا کہ وہ خود اپنی طرف سے حج کرے اور وہ فقیر ہے اور وہ جب کسی میقات پر پہنچا اور وہ قادر ہے چلنے پر تو اس پر حج فرض ہو جائے گا بشرطیکہ اُس کے پاس زاد ہو اگرچہ پہلے سفر اُس کا نفل تھا۔ [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ اگر کوئی فقیر کہ جس کے پاس کچھ مال ہی نہیں اور اسی طرح جو شخص کہ اُس کے پاس مال تو ہے ولیکن وہ اُسی قدر ہے کہ جس قدر لوگوں کا حق اُس پر ہے اور اُس نے حجِ فرض کی نیّت کرکے یا مطلق حج کی نیّت کرکے حج کر لیا تو اُس کے ذمے سے حجِ فرض ساقط ہو جائے گا ۔ اگر بعد اس کے کہ اُس نے بغیر استطاعت کے حج ادا کر لیا ،پھر وہ غنی ہو گیا بوجہ حلال مال اُس کو حاصل ہو گیا تو دوبارہ اُس پر حج کرنا فرض نہ ہو گا مالدار ہونے کے سبب سے ۔([21]) [فائدہ : ] اور جاننا چاہئے کہ جائز ہے بلا کراہت ،اگر کوئی عورت کسی عورت کی طرف سے حجِ بدل کرے جب کہ شوہر اُس کا حجِ بدل کرنے کے واسطے اذن اُس کو دے اور محرم اُس کے ہم راہ ہو ، مگر اولیٰ یہ ہے کہ عورت کی طرف سے بھی حجِ بدل مرد ہی کرے ؛کیوں کہ مرد کا حج اکمل ہوتا ہے ،اس لئے کہ مرد رمل کرتا ہے اور سعی کے اندر دونوں مینار سبز کے درمیان دوڑتا ہے اور لبیک پکار کر کہتا ہے ۔ اور اگر کوئی عورت کسی مرد کی طرف سے حجِ بدل کرے تو جائز ہے ،مگر کراہتِ تنزیہیہ کے ساتھ ؛کیوں کہ عورت کا حج انقص ہوتا ہے ،اس لئے کہ اُس پر رمل کرنا ہی نہیں اور نہ دوڑنا دونوں مینار سبز کے درمیان میں اور نہ لبیک پکار کے کہنا اور نہ سر کھولنا اور نہ حلق یعنی،سر منڈانا اور نہ سلاکپڑا اُتارنا۔ سو حاصل یہ کہ حجِ بدل مرد ہی سے کرانا اکمل ہے اور اگر غلام اور لونڈی اپنے مولیٰ کے اذن سے کسی کی طرف سے حجِ بدل کرے تو درست ہے ،مگر کراہتِ تنزیہیہ کے ساتھ ۔ اور میّت کی طرف سے حجِ بدل کرنا گدھے کے اوپر جب کہ مسافتِ بعیدہ اور مشقّتِ شدیدہ ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے ۔اور اونٹ کے اوپر اُس کی طرف سے حجِ بدل کرنا افضل ہے گھوڑے اور خچر کے اوپر کرنے سے ۔ اور افضل یہ ہے کہ حجِ بدل کرنے والا
آزاد([22])،عاقل([23])،بالغ([24])ہو اور مسئلے حج کے اس کو معلوم ہوں اور حج بھی اپنا وہ کر چکا ہو۔ اور اگر حجِ بدل کسی کو کرنے کے واسطے کسی نے امر کیا کہ تو اس برس فلانے کی طرف سے حج کر دے اور روپے بھی اُس کو دئیے ،پھر اُس نے اس برس اس کی طرف سے حج نہ کیا ،اگلے برس اُس کی طرف سے حج کردیا تو یہ جائز ہے ،حج جس کی طرف سے کرے گا ،اُس کی طرف سے وہ ادا ہو جائے گا اور اُس کو نفقہ واپس کرنا نہ ہو گا۔ [فائدہ : ] اور اب ایک بات بڑے فائدے کی ہے ،اُس کو بھی یاد رکھنا چاہئے ۔وہ یہ ہے کہ حجِ بدل کرنے والا جو مال کہ لیتا ہے حج کرنے کے لئے تو اس مال میں اُس کو کیا کیا تصرّف درست ہے اور کیا کیا نہیں درست ہے ۔ سو بیان اُس کا یہ ہے کہ حجِ بدل کرنے والا اس میں سے جس چیز کی احتیاج اُس کو ہو اُس میں اُس کو صرف کرے ۔جیسے : غلہ،لادن،گوشت،پانی،کپڑا اور سواری خواہ بکرایہ ہو یا اُس کو خرید ہی لے اور دو کپڑے احرام کے واسطے یعنی تہبند،چادر اور کرایہ منزل کا کہ جہاں اُترنا ہے ،محمل،مشک،چھاگل اور باقی آلات و اسباب کہ جس سے راستے میں استغنا نہیں ہو سکتی ہے ، چراغ کا تیل اور وہ چیز کہ جس سے کپڑا دھویا جاتا ہے ، جیسے : صابون اور اشنان۔اور اسی طرح وہ چیز کہ جس سے سر دھویا جاتا ہے ،جیسے : گل خیرو اور پتے بیر کے اور چوکیداری کرنے والے کی اجرت یعنی،جو کہ اس کے اسباب کی حفاظت کرے اور اُس کے جانور کی خدمت کرے اور حلاّق کی اجرت اور حمام میں داخل ہونے کی اجرت۔ اور یہ سب چاہئے کہ بوجہ میانہ روی کے ہو،نہ تو اسراف ہو اور نہ تنگی ۔ اور اُس کو جائز ہے کہ اپنے خرچ کے دراہم اپنے رُفَقا کے دراہم کے ساتھ ملا کے رکھے اور محافظت کے واسطے اُس مال کو امانت رکھنا بھی اُس کو درست ہے اور حجِ بدل کرنے والا اپنے کھانے کی طرف کسی کو بلائے بھی نہیں اور نہ خیرات کرے یعنی،کھانے وغیرہ میں سے کسی فقیر کو نہ دے اور کسی کو قرض بھی نہ دے اور اُس مال میں سے وضو کے واسطے پانی بھی نہ خریدے اور نہ غسلِ جنابت کے واسطے ،بلکہ اگر اُس کے پاس اپنا مال نہ ہو تو اس صورت میں تیمم کر لے اور اُس مال میں سے سینگھے بھی نہ لگوائے اور نہ دوا،علاج کرے ۔ اور کہا گیا ہے کہ حجِ بدل کرنے والا کرے وہ سب کہ جو حج کرنے والا خود کرتا ہے ۔ اور ”ذخیرہ“میں ہے کہ : مختار یہی ہے ۔([25]) اور اگر آمر نے خواہ وہ موصی ہو یا کہ وصی یا وارث حج بدل کرنے والے پر وسعت کر دی ہے امرِ مصروف میں تو اُس کو اس صورت میں یہ سب چیزیں جو کہ مذکور ہوئیں کرنا درست ہے بلا خلاف۔ اور حجِ بدل کرنے والا اپنے خدمت گار پر اُس مال میں جو کہ حج کرنے کیے واسطے لیا ہے کچھ خرچ نہ کرے جب کہ اپنے کام کرنے پر خود قادر ہے اور اگر وہ ایسا نہیں ہے بسبب بڑھاپے کے یا عظمت و بڑائی کے تو اس صورت میں اپنے خدمت گار پر اُس کو خرچ کرنا اُس مال میں سے درست ہے اور راستے میں جاتے آتے میت کے شہر تک اگر اس طرف پھر آئے تو خرچ اس طرح کرے کہ نہ تو اسراف ہو اس میں اورنہ تنگی۔ اور اگر بعدِ فراغ حجِ بدل کے اس نے مکہ معظمہ کو وطن پکڑا – زَادَہَا اللہُ تَعْظِیْمًا وَ
تَشْرِیْفًا-پھر اُس کے بعد اُس نے چاہا کہ اپنے شہر کی طرف جائے تو اُس کو اُس مال میں سے جو حجِ بدل کرنے کے واسطے لیا ہے خرچ کرنا درست نہیں ہے ۔ اور واجب ہے غیر کی طرف سے حج کرنے والے پر کہ جو کچھ اُس کے پاس مصارفِ ضروری سے بچے یعنی، جو کچھ اُس مال میں سے خرچ بچ گیا ہے اور تمام سامان حتی کہ جو کچھ کپڑے کہ اُس نے اُس مال میں سے بنوائے ہوں اُس کو بھی پھیر دے ورثہ کو یا وصی کو، مگر ہاں ! ورثہ اگراُس کے بچے ہوئے کو اُس کو دے دیں تو درست ہے یا میت خود وصیت کر جائے اس کے واسطے ساتھ اس کے تو اس صورت میں وہ اسی کے واسطے ہو گا۔ اور اگر حجِ بدل کرنے والے نے وصی سے یوں شرط کر لی ہے کہ جو کچھ نفقے میں سے بچے گا وہ میں ہی لوں گا تو یہ شرط باطل ہے اور اُس کو واجب ہے کہ اُس کو اُس کے وارثوں کو پھیر دے ۔ اور اگر حج جس شخص کی طرف سے کرتا ہے وہ زندہ ہے تو جو کچھ نفقے میں سے بچے وہ واسطے حجِ بدل کرنے والے کے حلال نہیں ہے ،بلکہ اُس پر واجب ہے کہ اُس کو حجِ بدل کرانے والے کو پھیر دے ،مگر ہاں !جب وہ یوں کہہ دے : وَكَّلْتُكَ اَنْ تَهَبَ الْفَضْلَ مِنْ نَفْسِكَ وَ تَقْبِضَهُ لِنَفْسِكَ. یعنی،میں نے تجھ کو وکیل کیا ہے کہ جو کچھ اُس مال میں سے بچے وہ تو اپنے نفس کو ہبہ کر دے اور اُس کو تو اپنے نفس کے لئے قبض کر لے ۔ اور حجِ بدل کرنے والاجب کہ حج سے فارغ ہو اور وہ یوں کہے : وَهَبْتُ هَذَا الْفَضْلَ مِنْ نَفْسِي. یعنی،یہ جو کچھ نفقے میں سے بچا ہے اُس کو میں نے اپنے نفس کو ہبہ کیا ۔ اور یہ اُس کا کہنا قائم مقام ایجاب و قبول کے ہے اس میں اب قبول کی کچھ حاجت نہیں ہے تو اس صورت میں حجِ بدل کرنے والے کو درست ہے کہ جو کچھ نفقے میں سے بچے وہ اُس کو لے لے ۔ [فائدہ : ] اور اب ایک بات اور بڑے فائدے کی ہے وہ بھی جانا چاہئے ۔سو وہ یہ ہے کہ حج کرنے والے کو چاہئے کہ حج کرنے والے کو اس طرح سے کہہ دے کہ تو جس طرح چاہے حج کرے یعنی،خواہ فقط تو حج ہی کرے یا قِران کرے یعنی،حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھے یا تمتّع کرے یعنی،پہلے عمرے کا احرام باندھے پھر عمرہ کرکے حج کا احرام باندھے اور یہ بھی اُس کو کہہ دے :

وَكَّلْتُكَ اَنْ تَهَبَ الْفَضْلَ مِنْ نَفْسِكَ وَ تَقْبِضَهُ لِنَفْسِكَ.

یعنی،میں نے تجھ کو وکیل کیا ہے کہ جو کچھ نفقے میں سے بچے وہ تو اپنے نفس کو ہبہ کر دے اور اُس کو تو اپنے نفس کے لئے قبض کر لے ۔ اور حجِ بدل کرنے والا جب کہ حج سے فارغ ہو تو وہ یوں کہے :

وَهَبْتُ هَذَا الْفَضْلَ مِنْ نَفْسِي.

یعنی،یہ جو کچھ نفقے میں سے بچا ہے اُس کو میں نے اپنے نفس کو ہبہ کیا ۔ اور اگر حجِ بدل کرانے والا مرنے کے قریب ہے تو اُس کو چاہئے کہ وہ یوں کہہ دے کہ جو کچھ باقی کپڑوں میں سے اور خرچ وغیرہ میں سے رہے وہ تیرے واسطے وصیّت ہے ۔اور یہ سب جب ہے کہ حج کرانے والے نے کسی شخص کو حج کرنے کے واسطے معیّن کیا ہے اور اگر اُس نے کسی شخص کو معیّن نہیں کیا ہے تو وہ اپنے وصی سے یوں کہہ دے کہ جو کچھ نفقے میں بچے وہ تو جس کو چاہے دے تو اُس وقت میں وصی کو جائز ہے کہ جس شخص کو حج کرنے کے واسطے اس کی طرف سے معیّن کرے وہ اسی کو دے ۔ حاصل یہ کہ حج کرانے والے کو اس طرح چاہئے کہ کہہ دے جس طرح کہ اوپر ذکر کیا اور یہ بھی اذن اُس کو دے کہ اگر تجھ کو عجز حاصل ہو جائے تو تو کسی دوسرے شخص کو مال دے کر حج میری طرف سے کر دینا اور یہ بھی اذن اُس کو دے کہ مال سواے ضرورتوں حج کے کسی اور چیز میں اگر اُس کو حاجت ہو تو خرچ کرنے کی اُس کو اجازت ہے ،جیسے مثلاً : ضرورت اُس کو ہو پانی خریدنے کے واسطے وضو کے یا غسلِ جنابت کی یاکہ ضرورت اُس کو ہو دَوا و علاج کی و علیٰ ہذا القیاس تاکہ حج کرنے والے پرکسی طرح کی تنگی کسی امر میں نہ ہو اور نہ اُس پر واجب ہو پھیرنا بچے ہوئے نفقے کا۔ تمام ہوا رسالہ(( نِہَایَۃُ الْاَمَلِ فِی بَیَانِ مَسَائِلِ الْحَجِّ الْبَدَلِ )) حرمِ محترم مکہ معظّمہ میں سامنے بیت اللہ شریف کے [یہ پڑھے ] :

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ. ([26]) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوْ اَخْطَاۡنَا. ([27]) رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیۡنَاۤ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِنَا. ([28]) رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖۚ وَاعْفُ عَنَّاٝ وَاغْفِرْ لَنَاٝ وَارْحَمْنَاٝ اَنۡتَ مَوْلٰىنَا فَانۡصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیۡنَ. ([29]) إِلٰہِی نَجِّنِی مِنْ کُلِّ ضَیْق بِجَاہِ الْمُصْطَفٰی مَوْلٰی الْجَمِیْعِ وَہَبْ لِی فِی مَدِیْنَتہ قَرَاراً بِإیْمَان وَ دَفْن بِالْبَقِیْعِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ اَوَّلاً وَ آخِراً وَظَاہِراً وَ بَاطِناً وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہِ سَیِّدِنَا مُحَمّد وَ اٰلِہِ وَ صَحْبِہِ وَسَلِّمْ تَسْلِیْماً کَثِیْراً کَثِیْراً. ([30]) تَمَّتْ

حوالہ جات

([1])۔۔ : جیسے : "منسک کبیر”و”متوسط”و”مسلک متقسط”و”فتاویٰ
ہندیہ”و”درمختار”و”ردّالمحتار”و ” طحطاوی”و”طوالع
الانوار”و”منتقیٰ”وغیرہ۔

مذکورہ عبارت مخطوط میں بطور حاشیہ تھی ،جب کہ مطبوعہ نسخہ میں اسے متن میں شامل کیا گیا تھا۔ہم نے اسے مخطوط کے مطابق حاشیہ میں رکھا ہے ۔سیاق و سباق کا بھی یہی تقاضا ہے ۔(سرسالوی)

([2])۔۔ : علامہ کرمانی نقل کرتے ہیں : مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میری ماں فوت ہوگئی اور اس نے حج نہیں کیا، کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں ‘‘۔

امام مسلم نے اس حدیث کو صحیح مسلم کے کتاب الصیام (باب قضا ء الصیام )میں ، ابوداؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ کے کتاب الوصایا (باب فی الرجل یھب الھبۃ…الخ)میں ، ترمذی نے اپنی ’’جامع ‘‘کتاب الزکاۃ (باب ماجاء فی المتصدق یرث صدقۃ) میں اور امام احمد نے ’’المسند ‘‘(5/349)میں حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے ، جب کہ امام نسائی نے اپنی ’’سنن ‘‘کے کتاب المناسک (باب الحج المیت الذی لم یحج)میں حضرت ا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے نقل کیا ہے ۔

علامہ کرمانی اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ”فدلّ ذالک علی الجواز”یعنی پس اس نے جواز پر دلالت کی ۔(المسالک فی المناسک : فصل فی حج الانسان عن غیرہ ،2/889)

([3])۔۔ : علامہ ابومنصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی لکھتے ہیں : کوئی شخص حج فرض ہونے کے بعد مرگیا اور اس نے حج کروانے کی وصیت بھی نہ کی تو کسی شخص نے بلاوصیت اس کی طرف سے حج کیا یاورثاء نے تبرعاًاپنے باپ یا ماں کی طرف سے بلاوصیت حج فرض ادا کیا تو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ان شاء اللہ تعالیٰ مرنے والے کو وہ حج جائز ہوجائے گا یعنی اس کی طرف سے فرض ادا ہوجائے گا ۔مزید لکھتے ہیں : امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا : ان شاء اللہ اُسے جائز ہوجائے گا ۔یہ صرف اس لئے فرمایا کہ وہ حدیث کہ جس حدیث شریف سے جواز ثابت ہوتا ہے ، خبر واحد ہے اور اس سے فرض ساقط نہیں ہوتا ۔پس اس وجہ سے اسے مشیتِ خداوندی کے ساتھ معلق کردیا، برخلاف تمام احکام کے جو خبر واحد سے ثابت ہوتے ہیں … الخ۔(المسالک فی المناسک : فصل فی حج الانسان عن
غیرہ،2/888۔889)

([4])۔۔ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ حَجَّ عَنْ أَبَوَيْهِ أَوْ قَضَى عَنْهُمَا مَغْرَمًا بُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الْأَبْرَارِ» (سنن الدارقطني : كتاب الحج، باب المواقيت،رقم 2608،3/299)

([5])۔۔ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ حَجَّ عَنْ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَقَدْ قَضَى عَنْهُ حَجَّتَهُ وَكَانَ لَهُ فَضْلُ عَشْرِ حُجَجٍ»(سنن الدارقطني : كتاب الحج، باب المواقيت،رقم 2610،3/300)

([6])۔۔ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَيْهِ تُقُبِّلَ مِنْهُ وَمِنْهُمَا وَاسْتَبْشَرَتْ أَرْوَاحُهُمَا فِي السَّمَاءِ وَكُتِبَ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى بَرًّا»(سنن الدارقطني : كتاب الحج، باب المواقيت،رقم 2607،3/299)

([7])۔۔ : رسالہ ہذا تک رسائی نہیں ہو سکی۔(سرسالوی)

([8])۔۔ : رسالہ”كليد باب الحج“مصنفہ منشی محمد سيد انور علی(رسالہ ہذا تك رسائی نہیں ہو سكی۔ ضمان الفردوس (از : مفتی عنايت احمد
كاكوروی)مطبوعہ نول كشور كے بیک ٹائٹل پر درج كتب كی فہرست میں کتاب و مصنف کا نام یہی ہے ۔(سرسالوی)

([9])۔۔ : ورثامیں اگر کوئی غائب یا نابالغ ہوگا تو حج پر خرچ کی گئی رقم اُن ورثا کے حصے سے منہا کی جائے گی جو بالغ اور موجود ہوں ۔

([10])۔۔ : اسی طرح ”طحطاوی“نے ” بحر “سے لکھا ہے ۔12منہ مُدَّ ظِلُّہُ

([11])۔۔ : جس طرح سب کا عاقل ہونا ضروری ہے اسی طرح بالغ ہونا بھی ضروری ہے ؛ کیوں کہ نابالغ کا اپنا حج فرض ادا نہیں ہوتا تو دوسروں کی طرف سے حج اداکرنے سے اُس کے ذمے سے فرض کیسے ساقط ہوگا؟

([12])۔۔ : جمع المناسک و نفع الناسک(منسک الکبیر) : باب الحج عن الغیر،فصل فی شرائط جواز الاحجاج والنیابۃ…، ص550.وایضاً : فصل ولایشترط لجوازالاحجاج ان یکون الحاج… ،ص551

([13])۔۔ : شیخ الدلائل علیہ الرحمہ نے یہاں صرف اسلام،عقل ا ور تمیز کا ذکر کیا ہے اور آگے نیت کو ذکر کیا ہے ،جب کہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور علامہ علی قاری حنفی نے اسی مقام پر چوتھی شرط نیت بھی ذکر کی ہے جیساکہ لباب اور اس کی شرح میں ہے ۔(لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط : باب الحج عن الغیر ، ص637، مطبوعۃ : المکتبۃ الامدادیہ ، مکۃ المکرمۃ )

([14])۔۔ : کتاب تک رسائی نہیں ہو سکی۔

([15])۔۔ : طوالع الانوار شرح الدر المختار : المجلد الرابع،الجزء الثالث،کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ص358(مخطوط،مخزونۂ جمعیت اشاعت اہلِ سنت پاکستان)

([16])۔۔ : طوالع الانوار شرح الدر المختار : المجلد الرابع،الجزء الثالث،کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ص361

([17])۔۔ : طوالع الانوار شرح الدر المختار : المجلد الرابع،الجزء الثالث،کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ص360

([18])۔۔ : یہ ’’درمختار‘‘کی سب سے بڑی شرح ہے جو ہنوز مخطوط کی صورت میں ہے ۔ جمعیت اشاعتِ اہلسنّت (پاکستان )کی لائبریری میں جامعہ ازہر کے نسخے کی نقل چودہ جلدوں میں موجود ہے ۔

([19])۔۔ : طوالع الانوار شرح الدر المختار : المجلد الرابع،الجزء الثالث،کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ص360

([20])۔۔ : حق یہی ہے کہ حج بدل کرنے والے پر ایامِ حج میں مکہ مکرمہ میں موجود ہونے کی وجہ سے حج فرض نہ ہوگا۔

([21])۔۔ : فقیر کے حج فرض ادا ہونے پر مخدوم عبدالواحد سیوستانی حنفی متوفی 1224ھ نے ’’فتاوی واحدی ‘‘کے کتاب الحج میں ایک فتویٰ تحریر فرمایا ہے اور فقیر کے حج فرض کو درست قراردیا ہے اور ”راقم فقیر“ کا بھی فقیر کے حج فرض کے درست ہونے پر ایک تفصیلی فتوی ہے اور مناسک حج و عمرہ کے بارے میں اس فقیر کے فتاوی کے مجموعہ بنام ’’فتاوی حج و عمرہ ‘‘میں موجود ہے ، جسے جمعیت اشاعتِ اہلسنّت (پاکستان)نے شائع کیا ہے ۔

([22])۔۔ : حج بدل کرنے والے کا آزاد ہونا افضل ہے ، اسی طرح مرد ہونا بھی افضل ہے ۔ اگر غلام یا باندی اپنے آقا کی اجازت سے حج بدل کریں تو حج ادا ہوجائے گا۔ عورت کے حج بدل کرنے میں کراہت ہے ۔اسی طرح ’’بدائع الصنائع، فتاوی تاتارخانیہ ، تبین الحقائق ، ملتقی الابحر اور المسالک فی المناسک‘‘میں ہے ۔

([23])۔۔ : عاقل ہونا افضل نہیں ، بلکہ ضروری ہے جیساکہ مصنّف نے خود سترہویں شرط میں مامور کے عاقل ہونے کا ذکر کیا ہے ۔

([24])۔۔ : حج بدل کرنے والے کا بالغ ہونا بھی افضل ،بلکہ ضروری ہے ؛ کیوں کہ نابالغ کا اپنا حج فرض ادا نہیں ہوتا تو غیر کی طرف سے حج کرنے سے فرض ساقط نہ ہوگا۔

([25])۔۔ : جمع المناسک و نفع الناسک : باب الحج عن الغیر،فصل اعلم ان الدماء …،ص560

([26])۔۔ : اے ہمارے رب!ہم سے قبول فرما ،بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ : 1،البقره،124)

([27])۔۔ : اے ہمارے رب !ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں ۔(پ : 3،البقرہ،286)

([28])۔۔ : اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا۔(پ : 3،البقرہ،286)

([29])۔۔ : اے ہمارے رب! اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار نہ ہو اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے اور ہم پر مہر بانی کر تو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے ۔(پ : 3،البقرہ،286)

([30])۔۔ : اے اللہ !تو مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجاہت و منزلت کے وسیلہ سے ہر تنگ و پریشانی سے نجات دے اورمجھے اُن کے شہر میں حالتِ ایمان میں ہمیشگی عطا فرما اورجنت البقیع میں مدفن عطا فرما۔اوّل وآخر،ظاہر و باطن تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب خوب درود و سلام بھیجے اپنی سب سے بہترین مخلوق، ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب پر ۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button