ARTICLES

حج بدل کیلئے فردمعین کی وصیت کی گئی ہوتو دوسرے سے حج کرواناکیسا؟

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگرکسی شخص پرحج فرض ہواورعذرشرعی کی بناءپرحج نہ کرسکاہو،اورپھراس نے اپنے حج بدل کے لئے یہ وصیت کی ہوکہ فلاں شخص میراحج بدل کرے ‘‘توکیااسی شخص سے کروانالازم ہوگایاکوئی دوسراشخص بھی کرسکتاہے ؟

(سائل : عبدالرحمٰن ، کراچی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں وصیت کرنے والے کایہ کہناکہ’’فلاں شخص میراحج بدل کرے ‘‘ اس سے ظاہرہے کہ اس نے فرد معین کااگرچہ ذکرکیاہے لیکن کسی دوسرے کوحج بدل کرنے سے منع بھی نہیں کیاہے ،لہٰذاشخص مذکورکے علاوہ کوئی دوسرابھی موصی کی طرف سے حج کرسکتاہے ۔چنانچہ علامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

و حج المامور بنفسه وتعينه ان عينه، فلو قال : يحج عني فلان لا غيره لم يجز حج غيره، ولو لم يقل لا غيره جاز۔()

یعنی،اورمامورخودحج کرے گااوروہ متعین ہوگیاہے اگرامرنے اسے متعین کیاتھا،پس اگراس نے یہ کہاتھاکہ فلاں میری طرف سے حج کرے گاکوئی اور نہیں ،توکسی دوسرے کے کرنے سے حج بدل ادانہیں ہوا،اوراگراس نے اس کے غیر کامنع نہ کیاہو،توہوجائے گا۔ اس کے تحت علامہ سیداحمدطحطاوی حنفی متوفی1231ھ لکھتے ہیں :

قوله : (ان عينه) تعیینه لیس بذکر اسمه فقط بل اما بالحصر او بالتصریح بنفی حج غیره. قوله : (يحج عني فلان لا غيره) او لا یحج عنی الا فلان فلو مرض المامور فی الطریق فدفع النفقة الی غیره لیحج عن المیت لم یجز الا ان یکون الامر اذن فی ذلک وینبغی للوصی ان یاذن له فی ان یحج غیره اذا مرض.(هندية) ()

یعنی،امرکی جانب سے تعیین فقط کسی کانام ذکرکرنے سے نہیں ہوگی بلکہ حصرکے ذریعے ہوگی(جیسے موصی کہے کہ فلاں ہی میری طرف سے حج کرے )یاکسی دوسرے کیلئے صراحۃًحج کی نفی کے ذریعے ہوگی۔اورموصی(یعنی وصیت کرنے والا) کایہ کہناکہ فلاں میری طرف سے حج کرے کوئی اورنہیں یامیری طرف سے کوئی حج نہ کرے مگر فلاں ،اس صورت میں اگرمامور‘راستے میں بیمارہوجائے اوروہ کسی دوسرے کوخرچ دے دے تاکہ وہ میت کی جانب سے حج کرے ،توحج بدل ادا نہیں ہوگا،سوائے اس کے کہ امرنے ایسی صورت میں اجازت دی ہوئی ہو،اورجسے وصیت کی گئی ہو،اسے چاہئے کہ وہ مامورکے بیمارہوجانے پرکسی دوسرے کومیت کی طرف سے حج کرنے کی اجازت دے دے ۔(ہندیہ) () اورعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں :

قوله : (وحج المامور بنفسه) فليس له احجاج غيره عن الميت وان مرض ما لم ياذن له بذلك كما ياتي متنًا. قوله : (و تعينه ان عينه)۔۔۔والمراد بتعيينه منع حج غيره عنه. قوله : (لم يجز حج غيره) اي : وان مات فلان المذكور؛ لان الموصي صرح بمنع حج غيره عنه كما افاده في اللباب وشرحه۔()

یعنی،ماموربذات خودحج کرے گاپس اسے یہ حق حاصل نہ ہوگاکہ وہ کسی اورکومیت کی جانب سے حج پربھیجے اگرچہ وہ بیمار ہوجائے ،جب تک وہ اس کواجازت نہ دے جس طرح متن میں ائے گا،اوروہ متعین ہوگیاہے اگرامرنے اسے متعین کیاتھااوراس کی تعیین سے مرادیہ ہے کہ وہ کسی اورکواس کی جانب سے حج کرنے کومنع کردیتاہے ،تودوسرے کے کرلینے سے حج بدل ادانہیں ہوگایعنی اگرچہ فلاں مذکورشخص فوت ہوجائے کیونکہ موصی نے اپنی طرف سے کسی اورکے حج کرنے سے منع کردیاتھا،جیساکہ’’لباب‘‘اوراس کی شرح میں بیان کیاتھا۔() اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : حج اگر بحیات محجوج عنہ ہوتوجسے اس نے امرکیا وہی حج کرے ،وہ دوسرے سے کرادے گا توادا نہ ہوگا اور اگر بعدوفات محجوج عنہ ہے تو مامور دوسرے کوبھی اپنی جگہ قائم کرسکتا ہے اگر چہ میت نے اس کا نام لے کروصیت کی ہوکہ فلاں میری طرف سے حج کرے ، ہاں اگرصراحۃً اس نے نہی کردی تھی کہ وہی کرے ، نہ دوسرا، تواب دوسرا کافی نہیں ۔() اورشیخ الدلائل علامہ عبدالحق الہ ابادی حنفی متوفی1333ھ حج بدل کی شرائط کے بیان میں لکھتے ہیں : بیسویں شرط یہ ہے کہ حج وہی شخص کرے جس کوحج کرانے والے نے حج کرنے کے واسطے اپنی طرف سے معین کیاہے اورکوئی شخص دوسرااس صورت میں اس کی طرف سے حج نہ کرے ۔پس اگروہ یوں کہہ گیاکہ میری طرف سے فلاناہی شخص حج کرے اورکوئی دوسراشخص نہ کرے ۔سواگروہ شخص کہ جس کوحج کرنے کے واسطے معین کرگیاتھامرگیاتواس صورت میں کسی اور کا حج کرنااس کی طرف سے جائزنہیں ۔اوراگروہ اسی قدرکہہ گیاہے کہ میری طرف سے فلاناہی شخص حج کرے اور منع نہیں کرگیادوسرے کوحج کرنے سے اوروہ شخص کہ جس کوکہہ گیاتھاوہ مرگیااوروصی نے کسی غیرسے حج اس کی طرف سے کروادیاتویہ جائزہے ۔اوراگرکوئی شخص وصیت حج کرانے کی کرگیااورکسی شخص کوحج کرانے کے واسطے معین نہیں کیاتواس صورت میں اگراس کے ورثہ سب جمع ہوکے اس کی طرف سے کسی شخص سے حج کروا دیں توجائزہے ۔() لہٰذامعلوم ہواکہ حج اگرموصی کی حیات میں ہو،توجسے اس نے حکم دیاہو،وہی کرے ،وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے سے کرادے گاتوحج بدل ادانہیں ہوگا،لیکن اگرموصی کاانتقال ہوچکاہو،توجسے اس نے حکم دیاہو،وہ کسی دوسرے سے بھی کرواسکتاہے اگرچہ میت نے اس کانام لے کروصیت کی ہوکہ فلاں میری طرف سے حج کرے ،ہاں اگرمیت نے صراحۃًیعنی واضح طورپرمنع کردیاہوکہ وہی کرے کوئی اورنہیں ،تواب دوسراکافی نہ ہوگا۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب منگل،29محرم الحرام1442ھ۔7ستمبر2020م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button