ARTICLESشرعی سوالات

حجِ قران کی نیت سے آنے والی عورت کو ماہواری آ جانا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت پاکستان سے حج قِران کی نیت سے مکہ مکرمہ آئی ابھی پہنچی تھی کہ ماہواری آ گئی اور ایک دن بعد منیٰ روانگی ہے اُس نے ابھی عمرہ ادا نہیں کیا کہ وقوفِ عرفہ کا وقت قریب آ گیا، کیا وہ عمرہ چھوڑ دے اور وقوف عرفہ کرے اگر وہ ایسا کرتی ہے تو جو عمرہ اُس نے چھوڑا وہ کب ادا کرے اور اُس عمرہ کے چھوڑنے کی وجہ سے اُس پر کیا لازم ہو گا جب کہ عمرہ اُس نے مجبوری میں چھوڑا ہے ؟

(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں یہ عورت عمرہ ادا کئے بغیر وقوفِ عرفہ کرے گی اور حج سے فارغ ہونے کے بعدجب پاک ہو جائے تو چھوڑے ہوئے عمرہ کی قضاء کرے اور عمرہ چھوڑنے کا ایک دَم دے کیونکہ ماہواری کی حالت میں طوافِ کعبہ ممنوع ہے (175) اور طواف عمرہ میں رُکن ہے اِس لئے وہ اِس حالت میں عمرہ نہیں ادا کر سکتی اور قارن جب عمرہ ادا کئے بغیر وقوفِ عرفہ کر لے تو اس کا عمرہ رہ جاتا ہے اور وہ عمرہ چھوڑنے والا قرار پاتا ہے ، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

فإنْ لم یَدخُلِ القارنُ مکَّۃُ و توجَّہ إلی عرفاتٍ، فقد صَارَ رافضاً لعمرتِہ بالوُقوف (176)

یعنی، پس جب قارن مکہ میں داخل نہ ہوا، اور عرفات کی طرف متوجہ ہو گیا تو وقوفِ عرفات کے ساتھ ہی وہ عمرہ کو چھوڑنے والا ہو گیا۔ اور قران کا حکم یہ ہے کہ عمرہ پہلے ادا کیا جائے ، وقوفِ عرفہ کر لینے کے بعد عمرہ کی ادائیگی متصوّر نہیں چنانچہ امام کرمانی حنفی لکھتے ہیں :

و لو تصوّرَ إتیانہا و إبقائہا بعدِ الوقوفِ لما أَمَرَ بالرّفضِ، لأَنَّ أفعالَ العُمرۃِ قد فاتَتْ وانْتَہَتْ، فإِنَّ حُکمَ القِران أَنْ یُقدِّمَ أفعالَ العُمرۃِ علی الحجّ، و قد تعذَّرَ بَعدَ الوُقوفِ (177)

یعنی، اگر اُس کا لانا اور باقی ہونا وقوفِ عرفہ کے بعد متصوّر ہوتا تو عمرہ چھوڑنے کا حکم نہ دیا جاتا کیونکہ افعالِ عمرہ تو فوت ہو چکے پس قران کا حکم یہ ہے کہ افعالِ عمرہ کو حج پر مقدم کیا جائے اور تحقیق یہ وقوف کے بعد متعذّر ہو گیا۔ اور اس صورت میں اُس پر دَم اور قضاء دونوں لازم آتے ہیں اور حج قِران کا دَم ساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اب اُس کا حج حجِ قِران نہیں رہا چنانچہ ابو الفضل محمد بن محمد بن احمد المروزی جو حاکم شہید کے نام سے معروف ہیں لکھتے ہیں :

إذا قَدِمَ القارِنُ مکّۃَ فلم یطُف حتَّی وقفَ بعرفَۃَ أو طافَ للعُمرۃِ ثلاثۃَ أشواطٍ فقط کان رافضاً لعُمرتِہ، و علَیہ دَمٌ لرِفضِہا و قضاؤُہا و قد سَقَطَ عنہُ دَمُ القِران (178)

یعنی، جب قارن مکہ مکرمہ آیا پس طواف نہ کیا یہاں تک کہ وقوفِ عرفات کیا یا طوافِ عمرہ کے فقط تین پھیرے کئے تو وہ اپنے عمرہ کو چھوڑنے والا ہے ، اور اُس پر عمرہ چھوڑنے کا دَم اور اُس کی قضاء ہے اور اُس سے دَم قِران ساقط ہو گیا۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الخمیس، 7ذو الحجۃ 1429ھ، 5 دیسمبر 2008 م 677-F

حوالہ جات

175۔ طواف کعبہ کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اُسے مسجد میں داخل ہونا ممنوع ہے چنانچہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ’’لَا أُحِلَّ دُخُوْلَ الْمَسْجِدِ لِحَائِضٍ وَ لَا جُنْبٍ الحدیث‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری، باب الألف، برقم : 1710، 2/55) یعنی، میں حیض والی عورت اور جُنبی کے لئے مسجد میں داخل ہونا حلال نہیں کرتا۔

اسی لئے فقہاء کرام نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ حیض و نفاس والی عورت اور جُنبی کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے چنانچہ علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی حنفی متوفی 956ھ لکھتے ہیں : لا یجوزُ لہم دخولَ المسجدِ إلاَّ لضرورۃٍ (منیّۃ المصلّی و غنیّۃ المبدی، باب فرائض الغسل، فروع إذا اجنبت المرأۃ إلخ، ص52) یعنی، ان کے لئے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے مگر ضرورت شرعی کی وجہ سے ۔

176۔ المسالک فی المناسک، کتاب القِران، فصل : إن لم یدخُل القارن إلخ، 1/648

177۔ المسالک فی المناسک، کتاب القِران، فصل : إن لم یدخُل القارن إلخ، 1/649

178۔ الکافی للحاکم الشّہید (فی ضمن المبسوط للإمام محمد)، کتاب المناسک، باب الطّواف، 2/329

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button