ARTICLES

حجرِ اسود کے مقابل تکبیر کے ساتھ ہاتھ اُٹھانا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ حجرِ اسود کے مقابل تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا کیسا؟ سنّت یا مستحب اور ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں ؟ اور ہاتھ اُٹھا کر انہیں چھوڑ دیا جائے یا انہیں چوم لیا جائے ، کیا استلام اور تکبیر الگ الگ ہیں اور اگر الگ الگ ہیں تواستلام میں ہاتھ کہاں تک اُٹھائے جائیں ؟اور طواف میں استلام کتنی بار ہے اور وہ مسنون ہے یا مستحب؟

(السائل : محمد عرفان ضیائی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : اس وقت ہاتھ اٹھانا سنّت ہے ، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

إنَّما قُلنا بأنہ یرفع یدیہ لقولہ علیہ الصلاۃ و السلام : ’’لَا تُرْفَعُ الْأَیْدِیْ إِلاَّ فِی سَبْعِ مَوَاطِنَ : فِیْ افْتِتَاحِ الصَّلَاۃِ، وَ فِی الْقُنُوْتِ، وَ فِی الْوِتْرِ، وَ فِی
الْعِیْدِیْنِ، وَ عِنْدَ اسْتَلَامِ الْحَجَرِ، وَ عَلَی الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ، وَ بِعَرَفَاتٍ، و بِجَمْعٍ‘‘ (284)

یعنی، ہم کہتے ہیں کہ وہ ہاتھ اُٹھائے گا اس لئے کہ نبی ا کا فرمان ہے : ’’ہاتھ نہ اٹھائے جائیں مگر سات مقامات پر، ابتداء نماز میں ، قنوت میں ، عیدین میں ، استلام کے وقت، صفا اور مروہ پر، عرفات میں اور مزدلفہ میں ‘‘ اور مخدوم محمد ہاشم بن عبدالغفورحارثی ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174 ھ لکھتے ہیں :

سنّت است رفع یدین کند دروقت گفتن تکبیر بمقابلہ حجر اسود (285)

یعنی، سنّت ہے کہ حجر اسود کے مقابل تکبیر کہتے وقت رفع یدین کرے اور ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں اِس کے بارے میں دو قول ہیں ایک یہ کہ کندھوں کے برابر تک اُٹھائے جائیں اور دوسرا یہ کہ کانوں تک اٹھائے جائیں چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :

یرفع یدیہ حذاء منکبیہ أو أذنیہ مستقبلاً بباطن کفیہ الحجر (286)

یعنی، اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر یا کانوں کے برابر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو حجرِ اسود کی جانب کرتے ہوئے اُٹھائے ۔ بعض نے رفع یدین کو مطلق ذکر کیا اس کی تصریح نہیں کی کہ کہاں تک اُٹھائے جیسا کہ امام ابو الحسن احمد بن محمد بن احمد بغدادی المعروف بالقدوری حنفی متوفی 428ھ نے لکھا کہ

و کبّر و رفع یدیہ (287)

یعنی، تکبیر کہے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھائے ۔ اور اکثر نے لکھا کہ ہاتھ اُٹھائے جیسا کہ نماز میں اُٹھاتا ہے ،چنانچہ علامہ عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی 682ھ (288) اور امام مظفر الدین احمد بن ثعلب ابن الساعاتی متوفی 694ھ (289) لکھتے ہیں :

و رفع یدیہ کالصلاۃ

یعنی، نماز (میں ہاتھ اٹھانے ) کی مثل ہاتھ اُٹھائے ۔ اور امام حسن بن منصور اوز جندی المعروف بقاضیخان متوفی 592ھ (290) نے لکھااور ان سے علامہ نظام الدین متوفی 1161ھ (291)اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے کہا کہ :

و یستقبلہ و یکبر رافعاً یدیہ کما یکبر للصَّلاۃ ثم یرسلہما

یعنی، حجرِ اسود کی طرف منہ کر کے ہاٹھ اُٹھاتے ہوئے تکبیر کہے جیسا کہ نماز کے لئے تکبیر کہتا ہے ، پھر ان کو چھوڑ دے ۔ اور حنفی جب ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کما فی الصّلاۃ (جیسا کہ نماز میں ) کہے تو اُس سے ظاہر یہی ہے کہ اُس کی مراد کانوں تک ہاتھ اُٹھانا ہے جیسا کہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی کی کتاب ’’لباب المناسک‘‘ میں عبارت کہ ’’وہ کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اُٹھائے ‘‘ کے تحت ملا علی القاری متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

أی کما فی الصلاۃ، و ہو الأصح (292)

یعنی، جیسا کہ نماز میں اور یہی صحیح ترین ہے ۔ اور بعض فقہاء کا قول ہے کہ کندھوں تک ہاتھ اُٹھائے ۔ جیسا کہ علامہ علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587ھ لکھتے ہیں کہ

و رفع یدیہ کما یرفعھما فی الصلاۃ لکن حذو منکبیہ (293)

یعنی، اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے جیساکہ نماز میں لیکن اپنے دونوں کندھوں کے برابر تک۔ اور علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم حنفی نے ’’بدائع‘‘سے نقل کیا (294)اور ان سے علامہ نظام الدین حنفی نے کہ :

و فی ’’البدائع‘‘ و غیرہ، و الصحیح أنہ یرفع یدیہ حذاء منکبیہ کذا فی ’’النہر الفائق‘‘ و اللفظ للہندیۃ (295)

یعنی، ’’بدائع الصنائع‘‘ وغیرہ میں ہے : صیحح یہ ہے کہ وہ کندھوں کے برابر تک ہاتھ اُٹھائے ۔اسی طرح ’’نہر الفائق‘‘ میں ہے ۔ اور علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :

فقد إختلف التصحیح (296)

یعنی، تصحیح میں اختلاف ہے ۔(297) اور خود لکھا ہے کہ

کالصلاۃ أی حذاء أذنیہ

یعنی، نماز کی مثل ہاتھ اٹھائے یعنی اپنے دونوں کانوں کے برابر تک۔ اورامام محمد بن اسحاق خوارزمی حنفی متوفی 827ھ لکھتے ہیں :

و یستقبلہ بوجہہ رافعاً یدیہ حذاء أُذنیہ کما فی الصَّلاۃ (298)

یعنی، حجر اسود کی طرف اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے ہوئے متوجہ ہو جیسا کہ نماز میں ۔ اور امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

ثم یأتی الحجر الأسود، و یقف بحیالہ ، و یستقبل بوجہہ رافعاً یدیہ حذاء أذنیہ کما فی الصلاۃ بالحدیث المشہور (299)

یعنی، پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اُس کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اُس کا استقبال اپنے چہرے کے ساتھ کرے ، اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھاتے ہوئے جیسا کہ نماز میں ، حدیث مشہور کی دلالت سے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : اب کعبہ کی طرف منہ کر کے حجر اسود کی دہنی طرف رُکنِ یمانی کی جانب سنگِ اسود کے قریب یوں کھڑا ہو کہ تمام پتھر اپنے دہنے ہاتھ کو رہے پھر طواف کی نیت کر

أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُرِیْدُ طَوَافَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ (300)

اس نیت کے بعدکعبہ کو منہ کئے اپنی دہنی جانب چلو جب سنگِ اسود کے مقابل ہو (اور یہ بات ادنیٰ حرکت سے حاصل ہو جائے گی) کانوں تک ہاتھ اِس طرح اُٹھاؤ کہ ہتھیلیاں حجرِ اسود کی طرف رہیں اور کہو بِسْمِ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ، وَ الصَّلَاۃُ و َالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ’’اور نیّت کے وقت ہاتھ نہ اُٹھاؤ جیسے بعض مُطوِّف(طواف کرنے والے ) کرتے ہیں کہ یہ بدعت ہے ‘‘۔ (301) لہٰذا کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اس کی تائید حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِہِمَا أُذُنَیْہِ‘‘

’’بے شک رسول اللہا جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں دستہائے اقدس کانوں کے برابر تک بلند فرماتے ‘‘۔ اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں (302) اور امام نسائی نے اپنی ’’سنن‘‘ میں (303) اور امام ابن ابوداؤدنے اپنی ’’سنن‘‘ میں (304) نے روایت کیا ہے ۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

کیفیت رفع آن است کہ بر دار دہر دو دست راتا گوش خود چنانکہ در نماز بحیثیتی کہ استبقبال کند باطن کفّین را بسوئی حجر، و بعد از فراغ از رفع ارسال کند ہر دو دست را (305)

یعنی، کیفیتِ رفع یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھائے جیسا کہ نماز میں ، ا س حیثیت سے کہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کے باطن سے بسوئے حجرِ اسود استقبال کرے ، اور (تکبیرسے ) فراغت کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دے ۔ اقول : کانوں تک ہاتھ اُٹھانا مرد کے لئے ہے کیونکہ وہ نماز کے لئے بھی کانوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے اور عورت کندھوں تک ہاتھ اٹھائے گی اِس لئے کہ وہ نماز کے لئے بھی یہیں تک ہاتھ اُٹھاتی ہے ۔(306) امام اہلسنّت امام احمد رضا حنفی متوفی 1340ھ لکھتے ہیں : ہاتھوں سے اِس کی طرف اشارہ کر کے اُسے بوسہ دے (307)۔ اِس عبارت اور اِس کی مثل عباراتِ فقہاء سے بعض لوگوں کو اشتباہ ہوا کہ ہاتھ شروعِ طواف میں تکبیر کے لئے اُٹھانا اور چُومنا ایک ہی چیز ہے ۔ استلام میں اشارہ کے بعد ہاتھ کولیکن اگر علماء و فقہاء کی اس باب میں عبارات پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہیں جیسا کہ علامہ سید سلمان اشرف لکھتے ہیں : اور مسجد الحرام میں حاضر ہو کر سب سے پہلے حجرِ اسود کی طرف رُخ کر کے تکبیر و تہلیل کہنا ہے ، جب سنگِ مقدس کے پاس پہنچے تو رُو بکعبہ حجرِ اسود کے قریب اُس کی دہنی جانب یوں کھڑا ہو کہ تمام پتھر اپنے سیدھے ہاتھ کو رہے پھر طواف کی نیت کرے :

أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُرِیْدُ طَوَافَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ …(308)

اِس نیت کے بعد کعبہ کو منہ کئے اپنے داہنے سمت چلے جب سنگ کے مقابل ہو جو ادنیٰ حرکت سے حاصل ہوتا ہے کانوں تک دونوں ہاتھ اِس طرح اُٹھائے جیسے تکبیر تحریمہ کے وقت نماز میں ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں لیکن ہتھیلیاں حجرِ اسود کی طرف ہوں اور کہے :

بِسْمِ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ وَ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ …

اب میسر ہو سکے تو حجرِ مطہر پر دونوں ہتھیلیاں رکھ کر اُن کے بیچ منہ رکھ کر یوں بوسہ دے کہ آواز پیدا نہ ہو تین بار ایسا ہی کرے … یہ بھی میسر نہ آئے تو ہاتھوں سے اُس کی طرف اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دے لے ، اصطلاحِ شرع میں اِسے ’’تقبیل‘‘ و ’’استلام‘‘ کہتے ہیں ملخصاً۔ (309) ا ور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی نے طریقۂ طواف میں پانچ اُمور کا ذکر کیا ہے ، اُن میں سے پانچواں یہ ہے کہ میسر ہو سکے تو حجرِ اسود پر دونوں ہتھیلیاں اور اُن کے بیچ میں منہ رکھ کر یوں بوسہ دو کہ آواز پیدا نہ ہو، تین بار ایسا ہی کرو، یہ نصیب ہو تو کمالِ سعادت ہے یقینا تمہارے محبوب و مولیٰ محمد رسول اللہ ا نے بوسہ دیا اور رُوئے مقدس اِس پر رکھا،زہے خوش نصیبی کہ تمہارا منہ وہاں تک پہنچے اور ہجوم کے سبب نہ ہو سکے تو وہاں اوروں کو ایذا نہ دو، نہ آپ دبو کچلو بلکہ اُس کے عوض ہاتھ سے چُھو کر اُسے چوم لو اور ہاتھ نہ پہنچے تو لکڑی سے چُھو کر چوم لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو ہاتھوں سے اُس کی طرف اشارہ کر کے ہاتھوں کا بوسہ دے لو … اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے یا ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو ’’استلام‘‘ کہتے ہیں ۔ (310) مندرجہ بالا عبارت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ وہاں جو اُمور انجام دینے ہیں اُن میں سے ایک نیّت، دوسرا تکبیر و تہلیل کے ساتھ کانوں تک ہاتھ اُٹھانا، تیسرا حجرِ اسود کو بوسہ دینا ۔ اور جو ہاتھ سے اِشارہ کر کے اُسے بوسہ دینا ہے وہ ایک مستقل امر نہیں ہے بلکہ بوسہ دینے کے قائم مقام ہے تو کیفیت یہ ہو گی کہ جب نیت کر لے گا تو تکبیر و تہلیل کے ساتھ کانوں تک ہاتھ اٹھائے گا پھر حجرِ اسود کو بوسہ دینے کا موقع میسر آئے تو دے ، بوسہ میسر نہ آئے تو ہاتھ سے چُھو کر اُسے چوم لے (بشرطیکہ حالتِ احرام میں نہ ہو کیونکہ حجرِ اسود پر کثیر مقدار میں خوشبو لگی ہوتی ہے اور خوشبو ممنوعاتِ احرام سے ہے )، یہ بھی نہ ہو سکے تو لکڑی سے چھُو کر چوم لے اور یہ بھی نہ ہو تو ہاتھ سے اِشارہ کر کے اُسے چومے ۔ آپ نے دیکھا کہ جس ہاتھ اُٹھانے کی بات کُتُبِ فقہ کے حوالے سے گزری وہ اور ہے اور جس میں اِشارہ کر کے ہاتھوں کو چومنے کا ذکر ہے وہ اور ہے وہاں ہاتھ کانوں تک لے جا کر انہیں چھوڑ دینے کی تصریح تھی، یہاں چوم لینے کا ذکر ہے ۔ تو ہجوم کے وقت بحالتِ احرام پہلے نیت کرے گا پھر حجر اسود کے مقابل ہو کر تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اُٹھائے گا او رپھر حجرِ اسود کی طرف اشارہ کر کے انہیں چُوم لے گا کہ جسے ’’استلام الحجر ‘‘کہتے ہیں ۔ اب یہ بات کہ کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کے بعد انہیں چھوڑ دے پھر اشارے کے لئے ہاتھ اُٹھائے یا کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کے فوراً بعد اُن سے حجرِ اسود کی طرف اشارہ کر کے انہیں چومے اِس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ فقہاء کرام نے تکبیر کے باب میں لکھا ہے کہ کانوں تک ہاتھ اُٹھائے اور چھوڑ دے تو نتیجہ یہ نکلا کہ صورت مذکورہ میں بھی تکبیر کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے ہاتھ چھوڑ کر اشارہ کے لئے انہیں دوبارہ اٹھائے ۔ اب رہی یہ بات کہ حجرِ اسود کو اُس پر منہ رکھ کر چومنے یا ہاتھوں سے چُھو کر ہاتھوں کو چومنے یا لکڑی سے چُھو کر چومنے کی استطاعت نہ ہوتو حجرِ اسود کی جانب صرف اِشارہ کر کے ہاتھوں کو چومنے کے لئے انہیں کہاں تک اُٹھائے تو اس باب میں فقہاء کا قول ہے :

و یشیر بکفّیہ نحو الحجر …ثم یقبّل کفیہ (311)

یعنی، اپنے دونوں ہاتھوں سے حجرِ اسود کی جانب اشارہ کرے … پھر اُن کو چوم لے ۔ اور امام ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

یشیر بکفّیہ نحو الحجر کأنہ واضع علی الحجر مع التکبیر و التہلیل، ثم یقبّل کفّیہ (312)

یعنی، اپنے دونوں ہاتھوں سے حجرِ اسود کی جانب تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے اِشارہ کرے گویا وہ حجرِ اسود پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے پھر اُن کو چوم لے ۔ اور اِس باب میں صریح عبارت علامہ سراج الدین ابن نجیم حنفی متوفی 1005ھ نے نقل فرمائی ہے چنانچہ لکھتے ہیں :

و فی ’’الخانیۃ‘‘ ذکر مسح الوجہ بالید مکان التقبیل لکن بعد أن یرفع یدیہ کما فی الصلاۃ، کذا فی ’’المجتبیٰ‘‘، و ’’مناسک الکرمانی‘‘، زاد فی ’’التحفۃ‘‘ و یرسلہا ثم یستلم (313)

یعنی، ’’فتاویٰ خانیہ‘‘ میں بوسہ دینے کی جگہ (اشارے کے بعد) ہاتھوں کو چہرے پر مَلنے کا ذکر کیا لیکن یہ رفعِ یدین کے بعد جیسا کہ نماز میں ، اسی طرح ’’مجتبیٰ‘‘ اور ’’مناسک کرمانی‘‘(314) میں ہے اور ’’تحفۃ الفقہا‘‘(315) میں زیادہ کیا (رفع یدین کے بعد) دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دے پھر استلام کرے ۔(316) اِن عبارات میں استلام کے واسطے صرف اِشارہ کے لئے ہاتھ اُٹھانے کا ذکر ہے اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں کہ کہاں تک اُٹھائے ۔ ظاہر یہی ہے کہ اِشارہ کے لئے سینے کے برابر سے لے کر کندھوں تک یا کندھو ں سے تھوڑا اُوپر تک ہاتھ اُٹھائے گا کہ اگر کوئی شخص حجرِ اسود کے پاس کھڑا ہو تو اُسے حجرِ اسود کو چُھونے کے لئے کہاں تک ہاتھ اُٹھانے پڑیں گے اُس کی حد مقرر نہیں کی جا سکتی کیونکہ جو دراز قد ہو گا اورجو درمیانہ قد ہو گا اور جو پست قد ہو گا سب کے ہاتھ اُٹھانے کی حد الگ الگ ہو گی، جب یہاں مقصود اِشارہ ہے جو بالفعل چومنے کے قائم مقام ہے تو ہر شخص اپنے قد کے حساب سے ہاتھ اُٹھائے گا۔ بہر حال اِشارہ میں ہاتھ کی ہتھیلیاں حجرِ اسود کی جانب رکھے گا کیونکہ یہ اِشارہ اِس بات کا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ حجرِ اسود پر رکھ رہا ہے پھر اُن کو چوم رہا ہے ۔ اور استلام ہر چکر میں مسنون ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

وکلّما مرّ بالحجر فعل ما ذکر من الاستلام(317)

یعنی، جب جب حجر اسود سے گزرے استلام کرے ۔ اس کے تحت علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

قولہ : من الاستلام : فہو سنّۃ بین کل شوطین کما فی ’’غایۃ البیان‘‘(318)

یعنی، استلام طواف کے ہر دو چکروں کے مابین مسنون ہے جیسا کہ ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے ۔ اِسی طرح حکم ہے کہ طواف کو استلام حجر کے ساتھ ختم کرے یعنی طواف پورا کر کے استلام حجر کرے ، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں (طواف کے ) شروع اور آخر میں استلام درمیان کے استلام سے زیادہ مؤکد ہے (319) کانوں تک یا کندھوں تک ہاتھ اُٹھانا صرف ابتدائِ طواف میں تکبیر کہتے وقت ہے نہ کہ ہر بار اور ہر بار رفع یدین کے بارے میں فتح القدیر(320) کے حوالے سیلکھتے ہیں :

و اعتقادی أن عدم الرفع ہو الصواب و لم أرعنہ علیہ الصلاۃ و السلام خلافہ (321)

یعنی، میرا اعتقاد یہ ہے کہ (ہر بار میں ) ہاتھ نہ اُٹھانا ہی حق ہے (322) اور میں نے آپ علیہ الصلاۃ و السّلام سے اس کا خلاف نہیں دیکھا۔ اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طواف و سعی کے مابین بھی استلام کرے ، جیسا کہ علامہ شمس الدین تمرتاشی نے ’’تنویر الأبصار‘‘(323) میں لکھا ہے اورملا علی قاری حنفی صاحب بدائع اور کافی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

صرحا بأن السنۃ أن یستلم بین کل شرطین وکذا بین الطواف والسعی

یعنی،انہوں نے تصریح کی ہے کہ ہر دو پھیروں کے مابین استلام سنت ہے ۔ اسی طرح طواف اور سعی کے مابین مسنون ہے ۔(324) دراصل یہ نواں استلام ہے جو طواف کے ابتداء سے اختتام تک آٹھ استلام کے علاوہ ہے ، اور یہ مستحب ہے جیسا کہ صدر الشریعہ محمد امجد علی فرماتے ہیں : صفا و مروہ میں سعی کے لئے (نماز طواف، ملتزم سے چمٹنے اور زمزم پینے کے بعد) پھر حجرِ اسود کے پاس آؤ اسی طرح تکبیر وغیرہ کہہ کر چومواورنہ ہوسکے تواُس کی طرف منہ کرکے ’’اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ والحمد للّٰہ ‘‘ اور درود شریف پڑھتے ہوئے فوراً باب الصفا کی طرف روانہ ہو۔ (325)

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعاء، 8شوال المکرم 1427ھ، 1نوفمبر 2006 م (224-F)

حوالہ جات

284۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج….إلخ، 1/387

285۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف وانواع آن، فصل سیوم در بیان کیفیۃ اداء طواف، ص127

286۔ لباب المناسک، باب دخول مکۃ، فصل : فی صفۃ الشروع فی الطواف اذا أراد الشروع ، ص103

287۔ مختصر القدوری فی الفقہ الحنفی، کتاب الحج، ص67

288۔ المختار الفتوی، کتاب الحج، فصل : فإذا دخل مکۃ إلخ، ص80

289۔ مجمع البحرین وملتقی النیرین، کتاب الحج، فصل فی صفۃ أفعال الحج، ص223

290۔ فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ، کتاب الحج، فصل فی کیفیۃ أداء الحج، 1/292

291۔ الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الحج، الباب الخامس فی کیفیۃ اداء، 1/225

292۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب دخول مکۃ، فصل فی صفۃ الشروع إلخ، تحت قولہ : حداء منکبیہ أو اذنیہ، ص184

293۔ بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل فی بیان سنن الحج إلخ، 2/116

294۔ النھر الفائق، کتاب الحج، باب الإحرام، تحت قولہ : مستلماً، 2/74

295۔ الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الحج، الباب الخامس فی کیفیۃ اداء، 1/225

296۔ رَدُّ المحتار، کتاب الحج، مطلب : فی دخول مکۃ، تحت قولہ : کالصّلاۃ، 3/577

297۔ تصحیح میں اختلاف ہے کہ اس میں دو اقوال ہیں ایک کانوں ک ہاتھ اٹھانا اور دوسرا کندھوں تک ہاتھ اُٹھانا اور فقہاء کرام میں سے بعض نے اوّل کی تصحیح کی او ربعض نے قولِ ثانی کی ۔ اس صورت میں دونوں اقوال میں موافقت اس طرح ہوگی کہ ہاتھ اسی طرح اُٹھائے ہاتھ کا نچلا حصہ کندھوں کے برابر ہو اور انگلیاں کانوں کے برابر ۔ علامہ عبدالقادر رافعی حنفی نے اس موافقت کے علامہ اصمتی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اوریہی اَحسن ہے ۔ (تقریرات الرافعی علی الدر والرد ، کتاب الحج، مطلب : فی دخول مکۃ، تحت قول الرد : فقد اختلف التصحیح ،3/577)

298۔ إثارۃ الترغیب والتشویق، القسم الأول، الفصل الحادی والخمسون، ص273

299۔ المسالک فی المناسک، فصل قبل فی حقیقۃ الطواف، ص385

300۔ یعنی، اے اللہ ! میں تیرے عزّت والے گھر کا طواف کرنا چاہتا ہوں اس کو تو میرے لئے آسان کر اور اس کو مجھ سے قبول کر۔

301۔ بہارِشریعت، حج کا بیان، طواف کا طریقہ اور دعائیں ، 1/1596

302۔ صحیح مسلم، کتاب الصّلاۃ، استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الإحرام إلخ، برقم : 25۔(391)، واللفظ لہ، 1/293

303۔ سنن النسائی، کتاب الافتتاح، باب رفع الیدین حیال أُذنین، برقم : 876، 1/2/133

304۔ سنن أبی داود، کتاب الصّلاۃ، باب من ذکر أنہ یرفع یدیہ إلخ، برقم : 745، 1/335

305۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف، فصل سیوم در بیان کیفیت اداء طواف، ص127

306۔ اور یہ بات فقہاء کرام کی عبارت ’’کما فی الصّلاۃ‘‘ سے مستفاد ہے ۔

307۔ فتاویٰ رضویہ، رسالہ انوار البشارہ فی مسائل الحج، فصل سوم : طواف وسعی صفا ومروہ کا بیان، 10/739

308۔ یعنی، اے اللہ! میں تیرے عزّت والے گھر کاطواف کرنا چاہتاہوں اس کو تو میرے لئے آسان کر اور اس کو مجھ سے قبول کر۔

309۔ الحج مصنفہ سیّد سلمان اشرف، حجراسود، ص 78۔79

310۔ بہارِ شریعت، حج کابیان، طواف و سعی صفاومروہ و عمرہ کا بیان، طواف کا طریقہ اوردعائیں ، 1/1096

311۔ فتاوی قاضیخان علی ھامش الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الحج، فصل فی کیفیۃ أداء الحج، 1/292

312۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک….إلخ، 1/386

313۔ النھر الفائق، کتاب الحج، باب الإحرام، تحت قولہ : مستلماً ،2/74

314۔ ہمارے پاس موجود نسخے میں باوجودِ کوشش اس مسئلہ تک رسائی نہ ہوسکی۔

315۔ تحفۃ الفقہاء، کتاب الحج، باب الإحرام، ص197

316۔ علامہ شامی نے بھی ’’نہر‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تکبیر کے لئے اُٹھاتے ہوئے ہاتھ چھوڑے پھر استلام کرے ۔(ردالمحتار ، کتاب الحج، مطلب : فی دخول مکۃ، تحت قولہ : واستلمہ، 3/577)

317۔ الدرالمختار، کتاب الحج، فصل فی الإحرام وصفۃ المفرد بالحج، مع قولہ وکلما مرالخ، ص161

318۔ غایۃ البیان ، کتاب الحج، ق204/أ

319۔ ردالمحتار، کتاب الحج، مطلب : فی طوافِ القدوم، 3/584

320۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الإحرام، تحت قولہ : استقبل وکبروھلل، 20/359

321۔ ردالمحتار، کتاب الحج، مطلب : فی طوافِ القدوم، 3/584

322۔ ملاعلی قاری لکھتے ہیں : ابن ہمام نے جو فرمایا ہے وہ مطول ہے اور علامہ کرمانی اور اور طحاوی کے کلام اور بعض احادیث کا ظاہر دوسرے قول یعنی ہر بار ہاتھ اُٹھانے کی تائید کرتا ہے ۔

323۔ تنویر الأبصار مع شرحہ للحصکفی، کتاب الحج، فصل فی الإحرام وصفۃ المفرد بالحج، ص161، ولفظہ : وعاد واستلم الحجر وکبر وھلل وخرج

یعنی، واجب طواف ادا کرکے زمزم پینے کے بعد حجراسود کولوٹ آئے اور استلام کرے ، تکبیروتہلیل کرے اور (باب صفا سے سعی کے لئے )نکل جائے ۔

324۔ ملاعلی قاری لکھتے ہیں کہ ’’فتاویٰ سراجیہ‘‘ اور’’شرح المختار‘‘ میں ہے کہ طواف کے اول اور آخر میں استلام مسنون ہے اور درمیان میں ادب ہے اور صاحبِ بدائع اور کافی نے لکھا کہ ہر دوپھیروں اور طواف وسعی کے مابین استلام مسنون ہے اور خود لکھتے ہیں دونوں اقوال میں منافات نہیں ہے وہ اس طرح کہ اوّل وآخر کا استلام درمیان کے استلام سے زیادہ مؤکدہے ۔(المسلک المقتسط فی المنسک المتوسط ، باب دخول مکۃ، فصل فی فقہ الشروع فی الطواف إلخ، 187، تحت قولہ : ومن الاستلام)

325۔ بہارِ شریعت ،حج کابیان، صفا ومروہ کی سعی، 1/1105

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button