ARTICLES

حالت نماز میں عورت کا نقاب کرنا

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عورت کسی ایسی جگہ ہوجہاں غیر محرم بھی ہوں اور نماز کاوقت ہواور اس نے نماز بھی پڑھنی ہوتو وہ نماز میں کیا کرے نقاب کرکے نماز پڑھے یا بغیر نقاب کے جیسے مسجدالحرام میں یہ مسئلہ خواتین کو پیش اتا ہے اس کے بارے میں شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے ؟

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں عورت کا حالت نماز میں نقاب کرنا مکروہ ہے اور اس کی کراہیت تابعین کرام اور فقہائے کرام سے ثابت ہے جیسے حضرت جابر بن زید ،طاوس،حسن بصری ،ابراہیم نخعی اور فقہائے احناف جیسے امام ابو بکر جصاص رازی متوفی370ھ ،امام فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفی 743ھ سے منقول ہے ۔ حضرت جابر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ : امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبۃ عبسی کوفی متوفی : 235ھ روایت لکھتے ہیں : عن جابر بن زیدٍ : انہ کرہ ان تصلی المراۃ وہی متنقبۃ او تطوف وہی متنقبۃ۔(117) یعنی،حضرت جابر بن زید سے مروی ہے کہ اپ نے اسے مکروہ قرار دیاکہ عورت اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس نے نقاب کیا ہواور عورت طواف کرے اس حالت میں کہ اس نے نقاب کیا ہواہو۔ حضرت طاوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبۃ عبسی کوفی متوفی : 235ھ روایت لکھتے ہیں : عن طاوسٍ : انہ کرہ ان تصلی المراۃ وہی متنقبۃ۔(118) یعنی،حضرت طاوس سے مروی ہے کہ اپ نے اسے مکروہ قرار دیا کہ عورت اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس نے نقاب کیا ہوا ہو۔ امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ : امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبۃ عبسی کوفی متوفی : 235ھ روایت لکھتے ہیں : عن الحسن، قال : کان یکرہ ان تصلی المراۃ متنقبۃ۔(119) یعنی،امام حسن بصری سے مروی ہے کہ اپ نے اسے مکروہ قرار دیا کہ عورت اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس نے نقاب کیا ہواہو۔ حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم انصاری متوفی192ھ لکھتے ہیں : عن ابی حنیفۃ، عن حمادٍ، عن ابراہیم، انہ کان یکرہ ان یغطی الرجل فاہ وہو فی الصلاۃ، ویکرہ ان تصلی المراۃ وہی متنقبۃ۔(120) یعنی،حضرت امام ابو حنیفہ سے مروی ہے اور وہ حضرت حماد سے اور وہ حضرت ابراہیم(نخعی) سے روایت کرتے ہیں کہ اپ اسے مکروہ جانتے تھے کہ مرد اپنے منہ کو ڈھکے اس حالت میں کہ وہ نماز میں ہو اور اسے (بھی)مکروہ جانتے تھے کہ عورت اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس نے نقاب کیا ہوا ہو۔ حضرت امام ابوجعفر طحاوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : اورامام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبد الملک بن سلمہ بن سلیم بن سلیمان طحاوی حنفی متوفی321ھ لکھتے ہیں : ولا باس ان تغطی المراۃ فاھافی احرامھاالا فی الصلاۃفانھالا تغطیہ فیھا۔(121) یعنی،اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت اپنے احرام میں اپنا منہ ڈھکے (یعنی اوپر سے چادر لٹکالے جیسا کہ مندرجہ ذیل میں ہے )سوائے نمازکے پس و ہ نماز میں چہرہ نہیں ڈھکے گی۔ اس عبارت کے تحت امام ابو بکر جصاص رازی حنفی متوفی370ھ لکھتے ہیں : وھذا ینبغی ان یکون علی سبیل سدل الخمار،لا علی جہۃ النقاب ،لانہ لا ینبغی لھاان تنتقب ،ویکرہ تغطیۃ الفم فی الصلاۃ ،لما روی عن النبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم فیہ۔(122) یعنی،(عورت کا منہ ڈھکنا )چاہیے کہ سر سے چادر لٹکانے کے طور پر ہونہ کہ نقاب کے طور پراس لئے کہ عورت کو حالت احرام میں نقاب نہیں کرنا چاہیے اور نماز میں منہ چھپانا مکروہ ہے کیونکہ اس بارے میں نبی علیہ الصلوۃ و السلام صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مروی ہے ۔ اور فقہاء کرام نے نماز میں تلثم کومجوسیوں کے فعل کے مشابہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ امام فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفی 743ھ لکھتے ہیں : ویکرہ التلثم وہو تغطیۃ الانف والفم فی الصلاۃ؛ لانہ یشبہ فعل
المجوس۔(123) یعنی، تلثم مکروہ ہے اور یہ نماز میں منہ اور ناک کو ڈھانپنا ہے کیونکہ یہ فعل مجوس کے مشابہ ہے ۔ اور یہاں کراہت کو مطلقا ذکر کیا گیاہے جس سے مراد کراہت تحریمی ہے ۔ چنانچہ علامہ شیخ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ لکھتے ہیں : نوعان احدہما ما کرہ تحریمًا وہو المحمل عند اطلاقہم الکراہۃ کما ذکرہ فی ’’فتح القدیر‘‘ من کتاب الزکاۃ۔(124) یعنی،مکروہ کی دو قسمیں ہیں : ان میں سے ایک مکروہ تحریمی ہے اور مطلق کراہت کا محمل مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ اسے "فتح القدیر” کے کتاب الزکوۃ میں ذکر کیا۔ اورعلامہ ابوجعفراحمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی حنفی متوفی 1231ھ لکھتے ہیں : والمکروہ عند الفقہاء نوعان مکروہ تحریما وہو المحمل عند اطلاقہم الکراہۃ۔(125) یعنی،فقہاء کے نزدیک مکروہ کی دو قسمیں ہیں ایک مکروہ تحریمی ہے اور مطلق کراہت کا محمل مکروہ تحریمی ہے ۔ علامہ سیدمحمد ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں : نوعان : احدہما ما کرہ تحریمًا، وہو المحمل عند اطلاقہم الکراہۃ۔(126) یعنی،مکروہ کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک مکروہ تحریمی ہے اور مطلق کراہت کا محمل مکروہ تحریمی ہے ۔ اور ایک مقام پر لکھتے ہیں : لان اطلاق الکراہۃ مصروف الی التحریم۔ (127) یعنی،مطلق کراہت کا ہونا تحریمی کی طرف پھیرا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم
الخمیس،ذوالقعدۃ،1439ھ۔12،اغسطس2018م FU-15

حوالہ جات

(117) المصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ ،باب المراۃ تصلی وھی متنقبۃ ، برقم : 7395 ،5/107

(118) المصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ ،باب المراۃ تصلی وھی متنقبۃ ، برقم : 7396 ،5/107

(119) المصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ ،باب المراۃ تصلی وھی متنقبۃ ، برقم : 7397 ،5/107

(120) الاثار لابی یوسف ،باب افتتاح الصلاۃ ، برقم : 148،ص : 30

(121) مختصر الطحاوی،کتاب الحج ،باب ما یجتنبہ المحرم،ص 68

(122) شرح مختصر الطحاوی،کتاب المناسک،باب ما یجتنبہ المحرم،2/559

(120) الاثار لابی یوسف ،باب افتتاح الصلاۃ ، برقم : 148،ص : 30

(تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ، کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا ، تحت قولہ : وسدلہ ، 1/411)

(124) البحر الرائق ، کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ الصلاۃ وما یکرہ فیھا، تحت قولہ : وکرہ عبثہ بثوبہ وبدنہ ،2/33

(125) حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطھارۃ،فصل فی المکروہات،ص80

(126) رد المحتار،کتاب الطھارۃ،مطلب فی تعریف المکروہ وانہ قد یطلق ۔۔۔۔۔الخ،تحت قولہ : ومکروہہ، 1/280

(127) رد المحتار،کتاب الطھارۃ،مطلب فی تعریف المکروہ وانہ قد یطلق ۔۔۔۔۔الخ،تحت قولہ : تحریما لو بماء النھر والمملوک لہ۔۔۔۔۔الخ ،1/281

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button