ARTICLESشرعی سوالات

حالتِ طواف میں نماز کی طرح ہاتھ باندھنا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حالتِ طواف میں نماز کی طرح ہاتھ باندھنا شرعاً کیسا ہے کچھ لوگ اسے مستحب سمجھتے اور کچھ مکروہ کہتے ہیں برائے مہربانی اس مسئلہ کو ہمارے لئے واضح فرما دیں ؟

(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ )

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : طواف کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ کُھلے رکھے نماز کی طرح ناف کے نیچے یا سینے پر ہاتھ نہ باندھے چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

و أما ما توہّمہ بعض من لا روایۃ لہ و لا درایۃ من استحباب وضع الیدین کالصّلاۃ فہو نشاء ۃ من غفلتہ عمّا تواتر من فعلہ ﷺ من الإرسال فی الطّواف، فلیس فوق أدبہ ربّہ أدب مستحب، و لا فوق آداب الأصحاب و أتباعہم من الأئمۃ الأربعۃ و إجماعہم، و یکفی للمستند عدم ذکرہ فی مناسکہم (107)

یعنی، مگر جو بعض ایسے لوگوں نے وہم کر لیا ہے جس کے پاس نہ کوئی روایت ہے او رنہ اُسے درایت ہے کہ طواف میں نماز کی طرح ہاتھ رکھنا مستحب ہے پس وہ طواف میں ہاتھ چھوڑنے کے بارے میں یہ (حضورا کے ) متواتر (فعل) سے غفلت کی پیداوار ہے ، پس آپ ا کے اپنے ربّ کا ادب کرنے سے بڑھ کر کوئی ادب مستحب نہیں اور نہ اصحاب اور اُن کے اتباع ائمہ اربعہ کے ادب اور اُن کے اجماع سے بڑھ کر کوئی ادب ہے ، اور مُقلِّد کے لئے اُن کااپنے مناسک میں اسے ذکر نہ کرنا کافی ہے ۔ علامہ حسین بن محمد سعید عبدالغنی مکی نے مُلّا علی قاری کی اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ حضور ا کا متواتر فعل طواف میں ہاتھ چھوڑنا تھا چنانچہ لکھتے ہیں :

فیہ أن الأحادیث ساکتۃ عن الوضع و الإرسال، و ما أتی بحدیث فیہ التّصریح بالإرسال فکیف یقول تواتراً (108)

یعنی، احادیث ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے کے ذکر سے خاموش ہیں اور مُلاّ علی قاری ایسی حدیث بھی نہیں لائے کہ جس میں ہاتھ چھوڑنے کی تصریح ہو پھر وہ تواتر کی بات کیسے کرتے ہیں ؟۔ اور مُلّا علی قاری حنفی نے طواف میں ہاتھ باندھنے کو مکروہ قرار دیا ہے چنانچہ بحث کے آخر میں لکھتے ہیں :

و بہذا یتبین أنہ یقال : أن الوضع مکروہ لأنہ خلاف سنّۃ المأثورۃ (109)

یعنی، اور اس سے ظاہر ہو گیا کہ کہا جائے طواف میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ سنّت ماثورہ کے خلاف ہے ۔ اور فقہاء کرام نے اسے تسلیم کیا ہے کہ حالتِ طواف میں ہاتھ باندھنا مستحب نہیں ہے لیکن مُلّاعلی قاری کے قول کہ ’’اسے مکروہ کہا جا سکتا ہے ‘‘ کو تسلیم کرنے سے توقّف کیا ہے چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

فائدہ : آنچہ گمان بردہ اند بعض مردم کہ دست بستن در حالہ طواف بر ہیئت نماز مستحب است آن صحیح نیست چرا کہ ثابت نہ شدہ بستنِ دست در حالۃِ طواف از حضرت سید عالم ا و نہ از صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم و نہ ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم پس نباشد مستحب اصلاً آری اگر بہ نیت رعایت ادب و تعظیم و احضار قلب دست بست باکے نباشد وآنچہ شیخ علی قاری حکم بکراہۃ آن مطلق نمودہ است محل نظر است و اللہ تعالیٰ أعلم (110)

یعنی، فائدہ : وہ جو بعض لوگوں نے گُمان کر لیا ہے کہ طواف کی حالت میں نماز کی ہیئت میں ہاتھ باندھنا مستحب ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ طواف کی حالت میں ہاتھ باندھنا حضرت سید عالم ا سے ثابت نہیں اور نہ صحابہ و تابعین سے اور نہ ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم جمیعاً سے تو یہ اصلاً مستحب نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ اگر بنیت رعایتِ ادب، تعظیم و حضورِ قلبی ہاتھ باندھ لے تو حرج نہ ہو گا اور وہ جومُلّا علی قاری(111) نے مطلقاً کراہت کا حکم لگایا ہے وہ محلِ نظر ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم لہٰذا اختلاف سے بچنے کے لئے دورانِ طواف ہاتھ نہ باندھے اور اس پر تو اتفاق ہے کہ ہاتھ باندھنا مستحب نہیں ہے کہ استحباب پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الإثنین، ذو الحجۃ 1428ھ، 10دیسمبر 2007 م (New 09-F)

حوالہ جات

107۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مستحباتہ، ص227۔229

108۔ إرشاد الساری إلی مناسک الملا علی قاری، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مُستحبّاتہ، ص227

109۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مُستحبّاتہ، ص229

110۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف وانواع آن، فصل دویم دربیان شرائط صحۃ طواف، ص124۔ 125

111۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مستحباتہ، ص227۔228

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button