ARTICLESشرعی سوالات

حالتِ احرام میں نماز کے لئے ٹوپی پہننے والے کا حکم

استفتاء : ۔کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین کہ ایک مُحرِم کہ جس نے ابھی عمرہ ادا نہیں کیا، اُسے ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا پوچھنے پر کہنے لگا کہ میں نماز کے لئے ٹوپی پہنتا ہوں جب کہ حالتِ احرام میں سر ڈھکنا ممنوع ہے اور اس نے دو یا تین نمازوں میں سر ڈھک لیا ہے تو اس صورت میں اس پر کیا لازم ہو گا؟

(السائل : حافظ جنید ولد محمد یوسف، لبیک حج گروپ، مکہ)

جواب

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : مُحرِم کو سر ڈھکنا ممنوع ہے چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

جائز نیست مُحرِم را اگر مرد باشد پوشیدن تمام سر یا بعض آن برابراست کہ بپوشد آن را بعمامہ با بقلنسوۃ یا بہ برنس (73)

یعنی، مُحرِم اگر مرد ہو تو اُسے اپنا (پورا) سر یا کچھ سر چُھپانا جائز نہیں ، چاہے اُسے عمامہ سے چُھپائے یا ٹوپی سے یا لمبی ٹوپی سے ۔ اور سر چار پہر چُھپایا تو دَم، اس سے کم چُھپایا تو صدقہ لازم ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

و لو غطی جمیع رأسہ أو وجہہ أی جمیع وجہہ بمخیط أو غیرہ یوماً و لیلۃً و کذا مقدار أحدھما فعلیہ دَمٌ أی کاملٌ بلاخلافٍ

یعنی، اگر پورا سر یا پورا چہرہ سِلے ہوئے (کپڑے ) یا اس کے غیر سے ایک دن اور رات اوراسی طرح دن و رات میں سے کسی ایک کی مقدار چُھپایا تو اس پر بلاخلاف کامل دَم ہے ۔

و الرُّبع منہما کالکُلّ قیاساً علی مسحھما

یعنی، سر اور چہرے کا چوتھائی کُل کی مثل ہے ان کو مسح پر قیاس کرتے ہوئے ۔ اور اگر چار پہر سے کم عرصہ کُل یا بعض سر کو چُھپایا تو صدقہ لازم ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و فی الأقلّ من یومٍ و کذا من لیلۃٍ صدقۃ (74)

یعنی، ایک دن اسی طرح ایک رات کی مقدار سے کم میں صدقہ ہے ۔ اور مذکور شخص نے جب نمازِ ظہر کے لئے ٹوپی پہنی نماز کے بعد اُتار دی لیکن اُتارتے وقت اس ممنوعِ سے باز آنے کی نیت نہ تھی کہ اس نے نمازِ عصر کے لئے پھر ٹوپی پہن لی اس طرح مغرب میں بھی تو یہ مسلسل پہننا شمار ہو گا چنانچہ علامہ محمد سلمان اشرف لکھتے ہیں : دن کو پہننا رات کو اُتار دیا یا رات کو پہنا دن کو اُتار دیا لیکن اُتارتے وقت باز آنے کی نیت سے نہیں اُتارا دوبارہ پھر پہننے کی نیت ہے تو جتنے دن پہنے گا ایک ہی بار کا پہننا شریعت اُسے قرار دے گی اور اس لئے ایک ہی کفارہ اس پر واجب ہو گا۔ (75) اور سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

فإن نَزعہ علی قصد أن یلبسَہُ ثانیاً، أو لیلبسَ بدلَہُ لا یلزمُہ کفَّارۃٌ أخریٰ لتداخُلِ لُبْسیہ و جعلِہما لُبْساً واحداً حکماً (76)

یعنی، پس اگر اُسے اس ارادے سے اُتارا کہ دوبارہ پہنے گا تو اس پر دوسرا کَفَّارہ لازم نہ ہو گا کیونکہ دونوں بار پہننے کے ایک دوسرے میں داخل ہونے کی وجہ سے (شرع نے ) دونوں کو حکماً ایک بار پہننا قرار دیا۔ لہٰذا نمازِ ظہر سے لے کر نمازِ مغرب تک مسلسل سر ڈھکنا قرار دینے کی صورت میں صرف صدقہ لازم آئے گا کیونکہ چار پہر مکمل نہیں ہوئے اور مخطورِ احرام کا ارتکاب گُناہ ہے بشرطیکہ عمداً بلا عذر ہو جیسا کہ مذکورہ صورت میں اور گُناہ کی وجہ سے اُسے توبہ کرنی ہو گی۔

واللہ اعلم بالصواب

یوم الأربعا،25ذی القعدہ 1428ھ، 5دیسمبر 2007 م (New 02-F)

حوالہ جات

73۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اَوّل در بیانِ اِحرام، فصل ششم در بیان مُحرَّماتِ اِحرام، ص87

74۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل فی تعظیۃ الرأس و الوجہ، ص435

75۔ الحج مصنّفہ محمد سلمان اشرف، احرام میں لباس ممنوع، جزئیات، ص45

76۔ رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر : ما لم یعزم علی الترک،3/658

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button