ARTICLESشرعی سوالات

حالتِ احرام میں سر پر سامان اُٹھانے کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ حالتِ احرام میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ سر پر سامان اُٹھائے ہوئے چل رہے تھے ، کیا اِس صورت میں انہوں نے اپنے سروں کو نہیں ڈھکا ہے اور اگر ڈھکا ہے تو اُن پر کیا لازم آئے گا؟

(السائل : محمد فیصل فتانی، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : سر ڈھکنے سے مراد ایسی چیز سے سر ڈھکنا ہے کہ جس سے عادۃً سر ڈھکا جاتا ہے اور اس طرح ڈھکنا کہ جس طرح عادۃً ڈھکا جاتا ہے اور سامان یا گٹھڑی وغیرہ سر پر اُٹھانے سے کچھ لازم نہیں آتا کیونکہ شرعاً و عرفاً اوڑھنا نہیں کہا جاتا چنانچہ امام حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی 292ھ (55) اور اُن سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ (56) نقل کرتے ہیں :

لو حمَلَ المُحرِمُ علی رأسِہ شیئًا یلبَسُہ النّاسُ یکون لابساً، و إنْ کان لا یلبَسہ النّاسُ کالإجَانَۃِ و نحوِہا فلا

یعنی، اگر سر پر ایسی چیز اُٹھائی کہ لوگ اُسے پہنتے ہیں تو پہننے والا ہو گا اور اگر لوگ اُسے نہ پہنتے ہوں جسے ٹب وغیرہ تو (پہننے والا) نہیں ہو گا۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :

فإِنَّ الذی رأیتُہُ فی عدَّۃِ کُتُبٍ أنَّہ لو غَطَّی رأسَہ بغیر مُعتادٍ کالعِدلِ و نحوہ لا یلزَمُ شیئٌ، فقد أطلقُوا عدمَ اللُّزُوم، و قد عدَّ ذلک فی ’’اللباب‘‘ مِن مُباحاتِ الإحرام (57)

یعنی، بے شک وہ جو میں نے متعدد کُتُب میں دیکھا (وہ یہ ہے کہ) اس نے سر کو اگر غیر معتاد جیسے گٹھڑی وغیرہ سے ڈھانپا تو اُسے کوئی شئے لازم نہیں ، فقہاء نے عدم لُزوم کو مطلق ذکر کیا ہے اور ’’لباب‘‘ (58) میں اسے مُباحاتِ احرام میں ذکر کیا ہے ۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

أَمَّا بِحَمْلِ إجَّانَۃٍ أو عِدلٍ فلا شیئَ علیہ (59)

یعنی، مگر (احرام میں ) ٹب (یا تھالہ) یا گٹھڑی اُٹھانے کے سبب اُس پر کچھ لازم نہیں ۔ علامہ حصکفی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

لو حَمَلَ علی رأسِہِ ثیاباً کان تغطِیۃً لا حَمْلُ عِدْلٍ و طَبَقٍ (60)

یعنی، اگر اپنے سر پر کپڑے اُٹھائے تو یہ (سر کو) ڈھکنا ہے نہ کہ گٹھڑی اور تھال اُٹھانا۔ اور علامہ عبد القادر رافعی حنفی (علامہ حسین بن محمد سعید عبد الغنی مکی حنفی متوفی 1366ھ نے ’’مناسک ملا علی قاری‘‘ پر اپنے حاشیہ ’’ارشاد السّاری‘‘ (61) میں اسے کچھ الفاظ کے تغیر سے نقل کیا ہے اور فرمایا علامہ حنیف الدین مرشدی نے اِسے ’’لباب المناسک‘‘ کی شرح میں لکھا ہے ) لکھتے ہیں :

قال المرشدی : لو کانت الثّیاب فی بُقجَۃٍ، و کانت مشدُودَۃً شَدًّا قویّاً، بحیثُ لا یحصلُ منہا تغطیۃٌ، فلا کراہۃَ فی حَمْلِہا و لا جزائَ، و إلا فیکرہُ و یجبُ الجزائُ، لأنَّہ تغطیۃٌ اھ سندی، و ہذا دالٌّ علی أنَّہ لو غطَّی رأسَہ بغیرِ المعتادِ لا یلزَمُہ شیئٌ و لو یوماً أو لیلۃً (62)

یعنی، علامہ حنیف الدین مرشدی حنفی نے فرمایا کہ کپڑے اگر گٹھڑی میں ہوں اور سخت مضبوط باندھے ہوئے ہوں اِس طرح کہ اُن سے ڈھانپنا نہ پایا جائے تو اُن کے اٹھانے میں نہ کراہت ہے اور نہ جزاء، ورنہ مکروہ ہے اور جزاء واجب کیونکہ وہ ڈھانپنا ہے اھ سندھی، اور یہ عبارت اِس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر سر کو غیر معتاد طور پر ڈھکا جائے تو اُس سے کچھ لازم نہ ہو گا ڈھکنا اگرچہ ایک دن یا رات ہو۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم السبت، 11 ذوالحجۃ1430ھ، 28نوفمبر 2009 م662-F

حوالہ جات

55۔ ردّ المحتار علی الدّر المختار، کتاب الحجّ، باب الإحرام، مطلب : فیما یحرمُ بالإحرام و ما لا یحرمُ، تحت قولہ : ما لم یمتدّ یوماً و لیلۃً الخ، 3/570

56۔ فتاویٰ قاضیخان، کتاب الحجّ، 1/286

57۔ ردّ المحتار علی الدّر المختار، کتاب الحجّ، باب الإحرام، مطلب : فیما یحرمُ الإحرام الخ، تحت قولہ : ما لم یمتدّ إلخ، 3/570

58۔ لباب المناسک ، باب الإحرام، فصل فی مباحاتہ، ص100

59۔ الدّر المختار ، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : أو سَتَر رأسَہ، ص166

60۔ الدّر المختار، کتاب الحجّ، باب الإحرام، تحت قولہ : و الرّأس، ص159

61۔ إرشاد السّاری إلی مناسک الملا علی القاری، باب الإحرام، فصل فی مباحاتہ، تحت قولہ : وکا کانت فی بقجۃ، ص175

62۔ تقریرات الرّافعی علی الدُّر و الرّد، کتاب الحجّ، مطلب : فیما یحرُمُ بالإحرام و ما لا یحرُمُ، تحت قولہ : لو حمَلَ علی رأسِہ إلخ، 3/569

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button