ARTICLES

حاجی کے لئے عمرہ ادا کرنا کب مکروہ ہے ؟

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حاجی کے لئے عمرہ ادا کرنا کب مکروہ ہے او رکیوں ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حاجی کے لئے یوم عرفہ اور ایام تشریق میں عمرہ کااحرام باندھنا مکروہ تحریمی ہے ۔چاہے وہ آفاقی ہو یا مکی ، چنانچہ علامہ عبداللہ بن محمود حنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں : و یکرَہُ یوم عرفۃَ و النَّحرِ و أَیَّامَ التَّشریقِ(43) و قال : فی شرحہ : منقولٌ عن عائشۃَ : و الظّاہرُ أَنَّہ سماعٌ مِن النَّبِیِّ ﷺ، (44)یعنی ، عمرہ یوم عرفہ اور ایام تشریق میں مکروہ ہے ، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے ، ظاہر ہے کہ وہ نبی کریم ا سے سماع ہے ۔ اور علامہ مظفر الدین بن احمد بن علی ابن السّاعاتی حنفی متوفی 694ھ لکھتے ہیں : و تجوزُ کلَّ العام إلا یوم النَّحرِ و أیَّام التَّشریقِ (45)یعنی، عمرہ پورے سال (بلا کراہت )جائز ہے سوائے یوم نحر اور ایام تشریق کے ۔ اور امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی لکھتے ہیں : أَمَّا وقتُ العُمرۃِ فجمیعُ السَّنَۃِ وقتٌ لہا، إلَّا أَنَّہ یکرہُ فی خمسۃٍ أیَّامٍ : یوم عرفۃَ، و یوم النَّحرِ و أیَّام التَّشریقِ (46)یعنی، مگر وقتِ عمرہ تو پورا سال اُس کا وقت ہے مگر عمرہ پانچ ایام میں مکروہ ہے : یوم عرفہ، یوم نحر اور ایامِ تشریق۔ کراہت کی وجہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول فرمان ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہے اور دوسری وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ ایام افعال حج کی ادائیگی کے ایام ہیں اور ان دنوں میں عمرہ میں مشغول ہو گا تو افعالِ حج میں سے بعض افعال کے فوت ہونے کا اندیشہ ہے ، چنانچہ علامہ عبداللہ بن محمود موصلی حنفی لکھتے ہیں : ولأَنَّ علیہ فی ہذہ الأَیَّامِ باقی أفعالِ للحجِّ، فلو اشتَغَلَ بالعُمرۃِ رُبما اشتَغَلَ عنْہا فتَفُوتُ و لوأدَّاھَا فیہا جازَ معَ الکراہۃ کصّلاۃ التَّطوُّعِ فی الأوقاتِ الخَمسۃِ المکروہۃِ (47)یعنی، کیونکہ اِن ایام میں حاجی پر باقی افعال حج کی ادائیگی ہے ، لیکن اگر وہ عمرہ میں مشغول ہو گیا تو بہت ممکن ہے کہ وہ افعالِ حج سے عدم توجہی کا شکار ہو جائے اور اُس سے افعالِ حج فوت ہو جائیں اور اگر عمرہ اُس نے اِن ایام میں ادا کر لیا تو مع الکراہت جائز ہو گیا جیسے نفل نماز پانچ مکروہ اوقات میں ادا کرنا۔ اور مکی اور حِل (یعنی مواقیت خمسہ کے اندر) کے رہنے والا اگر اسی سال حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اُسے اَشْہُرِ حج میں عمرہ مکروہ ہے کیونکہ اُس کا حج یا تو تمتع ہو گا یا قران اور اُن کے حق میں دونوں ممنوع ہیں : إلَّا فلا مانع للمکّیِّ من العمرۃِ المُفردۃِ فی أشہُرِ الحجِّ۔ فافہم یعنی، ورنہ مکی کو اَشْہُرِ حج میں عمرہ مفردہ سے کوئی مانع نہیں ۔ اور کراہت سے مراد تحریمی ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں : و کرہت تحریماً یوم عرفۃ و أربعۃ بعدہا، و أشہر الحج لمن یرید الحج من أہل مکۃ، و لمن أقام بہا قبل أشہرہ، و لمن فی داخل المیقات (48)یعنی، عمرہ مکروہ تحریمی ہے عرفہ اور اُس کے بعد چار دن (یعنی ذوالحجہ کی 10،11،12 ،13 تاریخ) اور اَشْہُرِ حج میں اُس شخص کے لئے جو اہلِ مکہ مکرمہ میں سے ہو اور اُس کے لئے جو اَشْہُرِ حج سے قبل مکہ میں مقیم ہو گیا اور اُس کے لئے جو حدودِ میقات کے اندر رہنے والا ہو۔ اور ’’بہارِ شریعت‘‘ میں بحوالہ ’’درمختار‘‘(49) ہے کہ ’’دسویں سے تیرہویں تک حج کرنے والے کو عمرہ کا احرام باندھنا ممنوع ہے ، اگر باندھا تو توڑ دے اوراس کی قضا کرے اور دم دے اور کر لیا تو ہو گیا مگر دَم واجب ہے ۔ (50) جب کہ ’’تنویر الأبصار‘‘ اور ’’در مختار‘‘ کی عبارت یہ ہے کہ ’’وکُرِہت تحریماً یومَ عرفۃَ و أربعۃً بعدَہا‘‘(51)(یعنی، یوم عرفہ (9 ذو الحجہ) اور اس کے بعد چار روز (10، 11، 12، 13 تاریخ کے غروبِ آفتاب تک حاجی کے لئے عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے ) اوراس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں : زوال سے قبل یا زوال کے بعد یوم عرفہ کے بعد چار روز (حاجی کو عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے )یہی مذہب ہے ۔ (52) اور علامہ شامی ’’بحر الرائق‘‘ کے حاشیہ میں ’’حاشیۃ المدنی‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

لأنَّ العُمرۃَ جائزۃٌ فی جمیعِ السَّنۃِ إلاَّ فی خمسۃِ أیَّامٍ لا فرقَ فی ذلک بین المکّیِّ و الآفاقیِّ کما صرّح بہ فی ’’النّہایۃِ‘‘ ، و ’’المبسوطِ‘‘ ، و ’’البحرِ‘‘ ، و ’’أخی زادہ‘‘، و العلّامۃ قاسم و غیرہم 1ھ (53)

یعنی، کیونکہ عمرہ پورے سال جائز ہے سوائے پانچ ایام کے ، اِس میں مکی اور آفاقی میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ ’’نہایہ‘‘ میں (صاحب نہایۃ نے )، ’’مبسوط(54) ‘‘ (میں صاحبِ مبسوط نے )، ’’بحرالرائق‘‘(55) (میں صاحب بحر نے )، اور اخی زادہ اور علامہ قاسم و غیرہم نے اس کی تصریح کی ہے ۔ علامہ شامی نے ’’رَدُّ المحتار‘‘ اور ’’منحۃ الخالق‘‘ میں پانچ دنوں (یعنی 9 تا13 ذوالحجہ) کا ذکر کیا ہے اور ’’بہار شریعت‘‘ میں علامہ شامی کی ’’رَدُّالمحتار‘‘ کے حوالے سے چار ایام کا ذکر کتابت کی غلطی یا سہو پر مبنی ہے ۔ اور یاد رہے کہ متمتع کے حق میں ایّامِ حج میں احرام حج سے قبل عمرے کرنا اصح قول کے مطابق مکروہ نہیں ہے جیساکہ ہمارے ’’فتاویٰ‘‘ میں اس کی تحقیق مذکورہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعہ 8شوال المکرم 1427 ھ، 1نوفمبر 2006 م (218-F)

حوالہ جات

43۔ المختار الفتوی، کتاب الحج، فصل فی العمرۃ، ص82

44۔ کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الحج، فصل فی أحکام العمرۃ، تحت قولہ : یکر یوم عرفۃ الخ، 1/204

45۔ مجمع البحرین، کتاب الحج، فصل فی العمرۃ، ص254

46۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی فی بیان نسک الحج، فصل فی وقت العمرۃ، ص293

47۔ کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الحج، فصل فی أحکام العمرۃ، تحت قولہ : ونکرہ یوم عرفہ الخ، 1/204

48۔ الھدایۃ العلائیۃ، أحکام الحج العمرۃ وأحکامھا، ص188

49۔ الدّرالمختار، کتاب الحج، باب الجنایات مع قولہ : حج فأھل بعمرۃ الخ، ص171

50۔ بہارِ شریعت، کتاب الحج، احرام ہوتے ہوئے دوسرا احرام باندھنا، 1/1193

51۔ الدّرالمختار ، کتاب الحج، مع قول التنویر : وکرھت یوم عرفۃ الخ، ص107

52۔ رَدُّ المحتار، کتاب الحج، مطلب : أحکام العمرۃ، تحت قولہ : یوم عرفۃ، 3/547

53۔ منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق، کتاب الحج، باب التّمتّع، تحت قول الکنز : ولا تمتع ولا قران الخ وتحت قول البحر : وما فی البدائع الخ، 2/642

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button