استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عام طور پر لوگ جب حج پر جاتے ہیں تو اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کے لئے تحفے تحائف خریدتے ہیں تو کچھ لوگ ان پر لعن طعن کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ حج پر خرید و فروخت شرعا ممنوع ہیں ، کیا تحفے تحائف خریدنے کی شرعا کوئی ممانعت ہے اور اگر نہیں ہے تو بہتر کیا ہے حج سے قبل خریدے یا حج کی ادائیگی کے بعد؟
(السائل : محمد حسنین، کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حج پر جانے سے مقصود تجارت نہ ہو، حج اصل ہو اور تبعا تجارت کرے تو اس کی اجازت قران کریم کی ایت کریمہ کی اس ایت کریمہ سے مستفاد ہے :
{ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم} (197)
ترجمہ : تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ اس کے تحت صدر الافاصل سید نعیم الدین مراد ابادی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلائے اس کا حج ہی کیا، اس پر یہ ایت نازل ہوئی۔ مسئلہ : جب تک تجارت سے افعال حج کی اد ا میں فرق نہ ائے اس وقت تک تجارت مباح ہے ۔ (خزائن العرفان، سورۃ البقرہ : 2/198) اور تحائف کی خریداری میں افضل یہ ہے کہ حج کے بعد خریدے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ
عن ابی امامۃ التیمی قال، قلت : لابن عمر : انا قوم نکری، فھل لنا من حج؟ قال : ا لستم تطوفون بالبیت، و تاتون المعرف، وترمون الجمار، و تحلقون رووسکم؟ قلنا : بلٰی! قال : جائ رجل الی رسول اللٰہ ﷺ فسالہٗ عن الذی سالتنی، فلم یجبہ، حتی نزل جبرئیل علیہ السلام بھٰذہ الایۃ : { لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم}، فقال : ’’انتم حجاج‘‘ (198)
یعنی، ابو اما مہ تیمی سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی ہم کرایہ پر اونٹ چلانے والے لوگ ہیں ، کیا ہمارا حج ہو گا؟ تو اپ نے فرمایا : کیا تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے ، عرفات نہیں جاتے ، رمی جمار نہیں کرتے ، اور اپنے سروں کو نہیں منڈواتے ، ہم نے عرض کی، کیوں نہیں ، فرمایا، ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایا اس نے یہی سوال کیا جو تم نے کیا ہے تو اپ ﷺ نے اسے کوئی جواب ارشاد نہ فرمایا یہاں تک حضرت جبریل علیہ السلام یہ ایت لے کر نازل ہوئے :
{ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم}
(ترجمہ : تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو) تو حضور ﷺ نے فرمایا ’’تم لوگ حاجی ہو‘‘۔ اس ایت کے تحت فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد حنفی متوفی 373ھ لکھتے ہیں کہ
’’ ذلک انھم کانو اذا حجوا، کفو عن التجارۃ وطلب المعیشۃ فی الحج، فجعل لھم رخصۃً فی ذلک، فقال تعالیٰ : { لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم} ای لاماثمہ علیکم ان تطلبوا رزقا من ربکم لنا التجارۃفی ایام الحج (199)
یعنی، یہ اس لئے کہ وہ جب حج کرتے تو تجارت اور طلب معاش سے رک جاتے نہ (کوئی چیز) خریدتے نہ بیچتے یہاں تک کہ ان کے حج میں جو ایام گزر جائیں تو ان کے لئے اس میں رخصت دے دی ، پس اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
{ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم}
(ترجمہ : تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو) امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی لکھتے ہیں :
اذا ثبت ھذا ففی الایۃ دلیلً علی جواز التجارۃ فی الحج للحاج مع اداء العبادۃ وان القصد الی ذلک لا یکون شرکا، ولا یخرج بہ المکلف عن رسم الاخلاص المفترض علیہ (200)
یعنی، جب یہ ثابت ہو گیا توایت میں حاجی کے لئے حج میں عبادت کی ادائیگی کے ساتھ تجارت کے جواز کی دلیل ہے اور اس کا مقصد (حج کے ساتھ تجارت کی) شرکت نہیں ہے اور اس سے مکلف رسم اخلاص سے خارج نہیں ہوتا جو کہ اس پر فرض ہے ۔
واما ان الحج دون التجارۃ افضل، لعروھا عن شوائب الدنیا وتعلق القلب لغیرھا (201)
یعنی،اگر اس نے تجارت کے بغیر حج کیا تویہ اس کے دنیا کے رذائل یا گندگیوں سے اور اس کے غیر سے دل کے تعلق سے خالی ہونے کی وجہ سے افضل ہے ۔ علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ
عن ابی صالح مولی عمر، قال : قلت لعمر : یا امیر المومنین، کنتم تتجرون فی الحج؟ قال : وھل کانت معاشیھم الا فی الحج (202)
یعنی، ابو صالح مولی عمر سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کی، اے امیر المومنین! اپ لوگ حج میں تجارت کیا کرتے تھے ؟ فرمایا کہ ان کا معاش نہیں تھا مگر حج میں ۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
عن عمر بن دینار، قال ابن عباس ’’کان عکاظ، مجنۃ، و ذوالمجاز اسواقًا فی الجاہلیۃ (فکانوا یتجرون فیہا)، فلما کان الاسلام کانہم کرھوا ان یتجروا فی الحج، فسالوا رسول اللٰہ، فانزل اللٰہ تعالٰی { لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم} فی مواسم الحج‘‘ (203)
یعنی، عمر بن دینار سے مروی ہے کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز یہ زمانہ جاہلیت میں بازاریں تھیں لوگ ان میں تجارت کرتے تھے پس جب اسلام ایا تو گویا کہ انہوں نے حج میں تجارت کو ناپسند سمجھا، اور رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ’’تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو‘‘ ایام حج میں ۔ (204) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے :
عن علی بن ابی طلحۃ، عن ابن عباس قولہ : { لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلًا من ربکم} یقول : لا حرج علیکم فی الشرائ و البیع، قبل الاحرام و بعدہ (205)
یعنی، حضرت علی بن ابی طلحہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ اپ فرماتے ہیں کہ تم پر احرام سے قبل اور اس کے بعد خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لہٰذا حج کے ساتھ تجارت شرعا جائز ہے جبکہ اس سے حج کے افعال کی ادائیگی میں خلل واقع نہ ہو اگر چہ تجارت کے بغیر حج افضل ہے ۔اور یہ اس وقت ہے جب تجارت ہو اور تجارت میں خرید و فروخت دولت کمانے کی غرض سے ہوتی ہے جب کہ یہاں یہ مقصد نہیں ہوتا حاجی وہاں سے جوکچھ خریدتا ہے وہ تحفے کے طور پر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو دینے کے لئے خریدتا ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاثنین، 9 ذی قعدہ 1434ھ، 16 سبتمبر 2013 م 865-F
حوالہ جات
197۔ البقرۃ : 2/198
198۔ سنن الدار قطنی، کتاب الحج، برقم : 2730، 1۔2/257، و اللفظ لہ، و برقم : 2725، 1۔2/256۔ تفسیر الطبری، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 2/294۔ تفسیر القرطبی، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 1/2/414۔ تفسیر الحداد، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 1/284، 285۔ تفسیر السمرقندی، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 1/133
199۔ تفسیر السمر قندی، سورۃ البقرۃ، الابۃ : 194۔202،1/133
200۔ الجامع لاحکام القران، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198،1/2/413
201۔ الجامع الاحکام القران، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198،1/2/414
202۔ تفسیر الطبری سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198،2/296
203۔ تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، سورۃ البقرۃ، برقم : 1881، 1/311
تفسیر الطبری، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 2/297۔
الدر المنثور فی تفسیر بالماثور، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، 1/497
204۔ حج کے کلمات قران کریم میں نہیں ہیں شاید یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات ہو جیسا کہ عطا تابعی نے یہی ہے کہ ھکذا قراھا ابن عباس (تفسیر الطبری، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، برقم : 3776، 2/295)، اسی طرح عکرمہ کا قول ہے کہ یہ ایت اسی طرح پڑھی جاتی تھی (تفسیر الطبری، سورۃ البقرۃ، الایۃ : 198، برقم : 3769، 2/294)
205۔ تفسیر ابن ابی حاتم الرازی، سورۃ البقرۃ، برقم : 882، 1/312