استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ حج میں حاجی تلبیہ کب منقطع کرے گا؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حج میں حاجی جمرۂ عقبہ کو رمی کرتے وقت پہلی کنکری کے ساتھ تلبیہ منقطع کرے گا چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
یقطعُ التّلبِیۃَ معَ أوّلِ حصاۃٍ یَرمِیہا مِن جمرۃِ العَقَبۃِ فی الحجِّ الصّحیحِ و الفاسدِ سوائٌ کان مفرداً أو مُتمتِّعاً أو قارناً (63)
یعنی، پہلی کنکری پر جو جمرۂ عقبہ کو مارتا ہے اُس پر تلبیہ ختم کرے گا حج صحیح ہو یا فاسد، برابر ہے کہ حج کرنے والا مفرد بالحج ہو یا متمتّع یا قارِن۔ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
و ہذا ہو الصّحیحُ مِن الرّوایۃِ علی ما ذکرہ ’’قاضیخان‘‘ و ’’الطّرابلسی‘‘ (64)
یعنی، یہی صحیح روایت ہے اِس بنا پر کہ جسے ’’قاضیخان‘‘ (65) اور ’’طرابلسی‘‘ نے ذکر کیا۔ اور جس نے رمی سے قبل حلق کروایا وہ حلق کروانے پر تلبیہ کو منقطع کر دے گا اور جس نے رمی، حلق اور ذبح سے قبل طوافِ زیارت کر لیا وہ بھی تلبیہ منقطع کر دے گا چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و لو حلقَ قبلَ الرَّمی أو طاف قبلَ الرَّمی و الحلقِ و الذَّبحِ قَطَعَہا (66)
یعنی، اگر رمی سے قبل حلق کروایا یا رمی، حلق اور ذبح سے قبل طوافِ زیارت کیاوہ تلبیہ کو منقطع کر دے گا۔ اِس کے تحت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
أمّا بعد الحلقِ قبلَ الرّمِی فبِالاتفاقِ، و أمَّا بعدَ طوافِ الزّیارَۃِ قبلَ الرَّمِی و الحلقِ فعلی قولِ أبی حنیفۃَ و محمدٍ (67)
یعنی، مگر حلق کے بعد رمی سے قبل تلبیہ منقطع کرنا تو بالاتفاق ہے اور طوافِ زیارت کے بعد رمی وحلق سے قبل (تلبیہ منقطع کرنا) تو وہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے قول کی بنا پر ہے ۔ اور اگر کسی شخص نے نہ رمی کی، نہ حلق اور نہ طوافِ زیارت یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ غُروبِ آفتاب پر تلبیہ منقطع کر دے گا چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و إنْ لم یرمِ حتَّی زالتِ الشَّمسُ لم یقطعْہَا حتیَّ یَرمی إلاَّ أن یغیبَ الشَّمسُ یومَ النَّحرِ فحینئذٍ یَقطعُہا (68)
یعنی، اور اگر رمی نہ کی یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا تو وہ تلبیہ کو منقطع نہیں کرے گا یہاں تک کہ رمی کرے مگر یہ کہ یوم نحر (دسویں تاریخ) کا سورج غروب ہو جائے تو وہ اُس وقت تلبیہ منقطع کر دے گا۔ اِس کے تحت ملا علی قاری لکھتے ہیں :
ہذا مرویٌ عن أبی حنیفۃَ، و کأنَّہ رضی اللہ عنہ راعی جانبَ الجوازِ فی الجُملۃِ، و إنْ فاتَہ وقتَ السُّنَّۃِ، و عن محمدٍ ثلاثُ روایاتٍ فظاہرُ الرِّوایۃِ کأبی حنیفۃَ (69)
یعنی، یہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے گویا کہ آپ نے فی الجملہ جانبِ جواز کی رعایت فرمائی اگرچہ اُس سے وقتِ سنّت فوت ہو گیا اور امام محمد سے تین روایات ہیں پس ظاہر الروایۃ امام ابو حنیفہ (کے قول) کی مثل ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلثاء، 28ذوالحجۃ1430ھ، 17نوفمبر 2009 م 665-F
حوالہ جات
63۔ لُباب المناسک ، باب مناسک منیً، فصل : فی قطع التّلبیۃ، ص152
64۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب مناسک منی، فصل : فی قطع التلبیۃ، تحت قولہ : أو متمتعاً أو قارناً، ص 317
65۔ فتاویٰ قاضیخان، کتاب الحجّ، فصل فی کیفیۃ الحجّ، 1/295
66۔ لباب المناسک، باب مناسک منیً، فصل : فی قطع التَّلبِیۃ، ص152
67۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب مناسک منیً، فصل : فی قطع التَّلبِیۃ، تحت قولہ : و لو حلق قبل الرّمی إلخ، ص318
68۔ لُباب المناسک، باب مناسک منیً، فصل : فی قطعِ التّلبِیۃ، ص152
69۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب مناسک منیً، فصل : فی قطع التَّلبِیۃ، ص318