استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حاجی کو یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا چاہئے یا افطار کرنا چاہئے ، اگر رکھ لے تو کیا حکم ہے ؟
(السائل : عبدالواحد، کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : بعض فقہاء کرام نے لکھا ہے اگر حاجی سمجھے کہ روزہ اُسے افعالِ حج کی ادائیگی سے عاجز نہیں کرے گا اور ادائیگیٔ افعال میں اُسے روزے کے سبب نقاہت و کمزوری نہیں ہو گی تو وہ روزہ رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور بعض نے لکھا کہ اس صورت میں اس کے لئے روزہ مستحب ہے ، اور یہ بھی فرمایا حاجی یومِ عرفہ اگر اپنے اندر نقاہت محسوس کرے یا اُسے اس کا خوف ہو اور وہ روزے سے ہو اس صورت میں اُسے افطار کرنے کی اجازت ہے کہ بعد میں اس کی قضا کرلے گا او رنقاہت و کمزوری محسوس ہونے یا اس کا خوف ہونے کی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے ۔چنانچہ علامہ عالم بن العلاء الانصاری متوفی 786ھ لکھتے ہیں :
و لا بأس بصوم عرفۃ وہو أفضل لمن قوی علیہ فی السفر و الحضر، رواہ الحسن، و قد روی فیہ نہی ، وکذا صوم یوم الترویۃ، و قیل : النہی فی حق الحاج إن کان یضعفہ أو یخاف الضعف، و فی ’’الذخیرۃ‘‘ الواقف بعرفات إذا کان صائماً و خاف أن یضعفہ یفطر، و فی ’’الفتاوی العتابیۃ‘‘ صوم یوم عرفۃ و الترویۃ مستحب فی حق غیر الحاج و کذا من لا یخاف الضعف من الحاج (95)
یعنی، یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں او ریہ روزہ اس کے لئے افضل ہے جو سفر و حضر میں اس کی طاقت رکھتا ہو،اِسے حسن بن زیاد نے روایت کیا، اور اس میں نہی (منع) کو بھی روایت کیا گیا ہے ، اسی طرح یومِ ترویہ (8 ذوالحجہ) کا روزہ ، اور کہا گیا ہے نہی (ممانعت) حاجی کے حق میں ہے ، اگر روزہ اُسے کمزور کرے یا اُسے کمزوری کا خوف ہو اور ’’ذخیرہ‘‘ میں ہے کہ عرفات میں وقوف کرنے والا جب روزہ دار ہو اور اُسے خوف ہو کہ روزہ اُسے کمزور کر دے گا تو وہ افطار کر لے (یعنی اس صورت میں اس پر قضا لازم ہو گی) اور ’’فتاوی عتابیہ‘‘ میں ہے کہ غیر حاجی کے حق میں یومِ عرفہ اور یومِ ترویہ (یعنی 8 او ر9 ذو الحجہ) کا روزہ مستحب ہے ، اس طرح حاجیوں میں سے اس حاجی کے حق میں جسے کمزوری کا خوف نہ ہو۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1108ھ لکھتے ہیں : و عرفۃ و لو لحاجّ لم یضعفہ اور اس کے تحت علامہ سید محمد ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
صفۃ لحاج أی کان لا یضعفہ عن الوقوف بعرفات، و لا یحل بالدعوات ’’محیط‘‘ فلو أضعفہ کرہ (96)
یعنی، مندوب ہے عرفہ کا روزہ اگرچہ حاجی کے لئے جب کہ حاجی کو کمزور نہ کرے (در مختار) یہ حاجی کی صفت ہے یعنی روزہ اگر اُسے وقوفِ عرفات سے کمزور نہیں کرتا اور دعائیں مانگنے میں حائل نہیں ہوتا ۔ ’’محیط‘‘ میں ہے اگر اسے کمزور کرتا ہے تو مکروہ (تحریمی کما فی الدر) ہے ۔ اور بعض نے لکھا اس روز حاجی کے لئے مسنون یہ ہے کہ وہ روزہ دار نہ ہو، چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ لکھتے ہیں :
أما سننہ فالاغتسال… وأن یکون مفطراً الخ (97)
یعنی، مگر وقوف عرفہ کی سنّتیں پس غسل کرنا ہے … اور روزہ دار نہ ہو نا ہے الخ اور بعض نے مطلق مکروہ لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یوم عرفہ کی صبح حاجی منیٰ سے عرفات کا سفر کرتا ہے پھر وقوفِ عرفہ او رعصر تا مغرب دعاو مناجات میں رہتا ہے او ریہ وہ وقت ہوتا ہے جب روزہ دار طبعی طور پر کمزوری محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اس وقت زیادہ محنت نہیں کر پاتا، اس طرح زیادہ بول بھی نہیں پاتا جب کہ اس نے اس وقت قیام کرنا ہے او رپورا وقت دعا و التجامیں گزارنا ہے تو روزہ دار حاجی کے بارے میں قوی امکان اور غالب گمان یہی ہے کہ وہ قیام و دعا میں روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کے سبب اس میں سُست پڑ جائے ، لہٰذا اس کے حق میں افضل ہے کہ روزہ نہ رکھے اور غالب کا اعتبار کرتے ہوئے بعض فقہاء نے اس روز حاجی کے لئے روزہ کو مطلق مکروہ لکھا ہے ، اس طرح آٹھ تاریخ کے روزے کو بھی حاجی کے حق میں مکروہ لکھا ، چنانچہ علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی 542ھ لکھتے ہیں :
و یکرہ صوم یوم عرفۃ بعرفات و کذا یوم الترویۃ، لأنہ یعجزہ عن أداء أفعال الحج (98)
یعنی، عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے اور اسی طرح یوم ترویہ (8 ذو الحجہ) کا روزہ کیونکہ روزہ حاجی کو افعالِ حج کی ادائیگی سے عاجز کر دے گا۔ اور جہتِ کراہت کو ترجیح اس وجہ سے بھی ہے کہ حاجی کے حق میں اس روز روزہ سے ممانعت حدیث شریف سے ثابت ہے ، چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : اُمّ المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیہقی وطبرانی رحمہما اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ا عرفہ کے روز روزہ کو ہزار دن کے برابر بتاتے ۔ مگر حج کرنے والے پر جو عرفات میں ہے ، اُسے عرفہ کے دن کا روزہ مکروہ ہے کہ ابو داؤد و نسائی و ابن خزیمہ رحمہم اللہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور ا نے عرفہ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ (99)
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 8شوال المکرم 1427ھ، 1نوفمبر 2006 م (235-F)
حوالہ جات
95۔ الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصوم،الفصل الثامن فی بیان الأوقات التی یکرہ فیہا الصوم ، 3/414۔415
96۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصوم،3/391
97۔ الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الحج، الباب الخامس فی کیفیۃ الحج، 1/229
98۔ خلاصۃ الفتاویٰ، المجلد (1)، کتاب الصوم، الفصل الخامس فی الحظر و الإباحۃ، ص264
99۔ بہار شریعت، روزہ کا بیان، روزہ نفل کے فضائل،1/1010
Leave a Reply