ARTICLES

حائضہ جب احرام کی نیت سے میقات پرتلبیہ کہہ لے توکیا حکم ہوگا؟

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ ’’ہندوستان ‘‘ سے ’’ مدینہ طیبہ‘‘ گئی اور وہاں چند دن قیام کرنے کے بعد عمرہ کے ارادے سے ’’مکہ مکرمہ‘‘ روانہ ہوئی لیکن میقا ت انے سے قبل ہندہ کو حیض اگیاپھرجب ہندہ میقات پر پہنچی تو نہ اس نے نماز پڑھی اورنہ ہی احرام باندھا لیکن اس نے تلبیہ پڑھ لی تو اب کیا ہندہ کو دم دینالازم ہوگا یانہیں ،واضح رہے کہ جب ہندہ’’ مکہ معظمہ‘‘شریف پہنچ گئی تووہاں وہ کچھ دن رہنے کے بعد پاک ہو گئی تو اب کیاوہ عمرہ کر سکتی ہے یا نہیں برائے کرم جلد از جلد اس کاجواب عطافرمائیں ؟

(السائل : محمد نذیر برکاتی نیپالی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں اگر ہندہ نے احرام کی نیت کے ساتھ تلبیہ کہاتھا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگااور اس سبب سے وہ احرام والی ہوگئی ،لہٰذا ہندہ کو چاہیے کہ وہ پاک ہوجانے کے بعداسی احرام کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کرے ۔ لیکن اگر ہندہ نے میقات پر احرام کی نیت کے ساتھ تلبیہ نہیں کہاتھاتو وہ احرام والی نہ ہوئی، لہٰذا ہندہ پرتوبہ کے ساتھ دو میں سے ایک کام کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ ہندہ مواقیت میں سے کسی بھی میقات کی جانب لوٹ کر احرام باندھے اور اس کے بعدپاکی کی حالت میں عمرہ کرے یا پھرمیقات تجاوز کرنے کے سبب سے دم کی ادائیگی کرے اور پاک ہوجانے کے بعدعمرہ بھی کرے ۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں :

(من جاوز وقتہ غیر محرم)۔۔۔۔۔۔( ثم احرم)ای بعد المجاوزۃ( اولا)ای لم یحرم بعدھا( فعلیہ العود)ای فیجب علیہ الرجوع(الی وقت)ای الی میقات من المواقیت (وان لم یعد)ای مطلقا( فعلیہ دم)ای لمجاوزۃ الوقت۔(34)

یعنی،جس نے اپنی میقات سے بلا احرام تجاوز کیاتو اس نے میقات تجاوز کرکے احرام باندھا ہوگایانہیں دونوں صورتوں میں اس پر مواقیت میں کسی ایک میقات کی طرف لوٹنا واجب ہوگا اور اگروہ مطلقًانہ لوٹے تواس پر میقات سے تجاوز کرنے کے سبب سے دم لازم ہوگا۔ لیکن افضل یہ ہے کہ جس میقات کو بغیر احرام کے تجاوز کیا ہوتو اسی کی جانب لوٹ کر احرام باندھا جائے تاکہ عین کو مثل کے ذریعے پانا لازم نہ ائے ۔ چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی597ھ لکھتے ہیں :

لکن الافضل ان یحرم من میقاتہ ذلک لیکون مستدرک العین بالعین ، لا العین بالمثل ، فکان افضل۔(35)

لیکن افضل یہ ہے کہ وہ اسی میقات سے احرام باندھے تاکہ عین کا پانا عین کے ساتھ ہوجائے نہ کہ عین کا پانا مثل کے ساتھ ہوپس یہ افضل ہے ۔ اورجب ہندہ مواقیت میں سے کسی بھی میقات(جیسے طائف کی جانب دوسروں کے مقابلے میں قریب ہی دو میقات ہیں ایک’’وادی محرم‘‘ دوسری ’’السیل الکبیر‘‘) سے لوٹنے کے بعد وہاں سے احرام باندھ لے گی تو اس پر لازم انے والا دم بالاجماع ساقط ہوجائے گا۔ چنانچہ قاضی ومفتی مکہ مکرمہ امام ابو البقاء محمد بن احمد بن محمد بن الضیاء مکی حنفی متوفی54 8ھ لکھتے ہیں :

ولو جاوز المیقات ولم یحرم حتی عاد واحرم منہ سقط عنہ الدم بالاجماع ۔(36)

یعنی،اگر کسی نے بغیر احرام کے میقات سے تجاوز کیا یہاں تک کہ وہ لوٹا اور اس نے میقات سے احرام باندھ لیا تو بالاجماع اس سے دم ساقط ہوگیا۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

یوم السبت10جمادی الاول1440ھ۔15فروری2018م FU-10

حوالہ جات

(34)لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب
المواقیت،فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،ص118۔ 119

(35)المسالک فی المناسک ، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج من فرائضہ وسننہ وادابہ وغیر ذلک ، فصل فی احکام مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/310۔311

(36)البحر العمیق،الباب السادس : فی المواقیت،فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/620

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button