اس مضمون میں جہنم کے عذاب کی شدت کے متعلق حدیث قدسی بیان کی جائے گی۔ آپ کی آسانی کے لئے اعراب کے ساتھ عربی میں حدیث شریف کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی ہے۔
جہنم کے عذاب کی شدت کے متعلق حدیث قدسی:
عَنْ أنَسٍ رَضي الله عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ الله صلى الله عليه وسلم: أنَّ الله تَعَالَى يَقُوْلُ لِأهْوَنِ أهْلِ النَّارِ عَذَابًا: لَوْ أنَّ لَكَ مَا فِى الأرْضِ مِنْ شَيءٍ كُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ. قَال نَعَمْ. قَال فَقَدْ سَئَلْتُكَ مَا هُوَ أهْوَنَ مِنْ هَذَا وَأنْتَ فِى صُلْبِ آدَمَ أنْ لاَ تُشْرِكَ بِي فَأبَيْتَ إِلَّا الشّرْكَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جہنم میں سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا شخص سے ارشاد فرمائے گا:
”اگر روئے زمین کی ساری چیزیں تیری ملکیت ہوتیں تو (جہنم کے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ) کیا تو ساری چیزیں دینا قبول کر لیتا؟“
وہ عرض کرے گا:”بالکل“
اللہ تعالی فرمائے گا:”جب تو آدم کی پشت میں تھا تو میں نے تجھے اس سے بہت آسان کام کا حکم دیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا لیکن تو نے نہیں مانا اور شرک کیا۔“
حدیث قدسی کی تشریح:
ذیل میں جہنم کے عذاب کی شدت کے متعلق حدیث قدسی کی آسان الفاظ میں پوائنٹس کی صورت میں تشریح اور مسائل بیان کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالی نے قران پاک میں مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے اگر زمین کے دوگنا بھی دینا پڑے تو وہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے لیکن اس وقت کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ ” وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنۡ سُوۡٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ “ ترجمہ: اور اگر ظالموں کے لئے ہوتا جو کچھ زمین میں ہے سب اور اس کے ساتھ اس جیسا تو یہ سب چھڑائی میں دیتے روزِ قیامت کے بڑے عذاب سے۔ (زمر: 47)
- لیکن وہ اپنے اس قول میں بھی جھوٹے ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالی دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دے تو بھی یہ لوگ وہی کام کریں:” وَلَوْ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنْہُ وَ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ“ ترجمہ: اور اگر واپس بھیجے جائیں تو پھر وہی کریں جس سے منع کئے گئے تھے اور بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ (الانعام: 28)
”جب تو آدم کی پشت میں تھا “ اس سے مراد وہ میثاق ہے جو عالم ارواح میں اللہ تعالی نے ہر ایک سے لیا تھا اور انسان نے اس معاہدے پر عمل کی یقین دہانی کروائی تھی: ” وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدْنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ“ ترجمہ: اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی ۔ (الاعراف: 172)
حدیث شریف کا حوالہ:
صحیح بخاری، كتاب الرقاق ، باب صفة الجنة والنار، جلد8، صفحہ115، حدیث نمبر6557، دار طوق النجاہ،لبنان
حدیث شریف کا حکم:
اس حدیث شریف کی سند صحیح ہے۔