الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جھوٹ اوردھوکے کاسہارالے کرحج و عمرہ کرناکیسا ہے ؟(سائل : رجب علی،موسیٰ لین،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں جھوٹ بولنے اوردھوکہ دینے کی شریعت میں حرمت ومذمت(برائی)وارد ہے ۔چنانچہ قران کریم میں ہے : لعنت اللٰه على الكٰذبین( ) ترجمہ،جھوٹوں پر اللہ کی لعنت(ہے )۔(کنز الایمان) اوراحادیث میں بھی جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔چنانچہ امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری متوفی261ھ اپنی سندکے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ان الصدق يهدي الى البر، وان البر يهدي الى الجنة، وان الرجل ليصدق حتى يكتب صديقًا، وان الكذب يهدي الى الفجور، وان الفجور يهدي الى النار، وان الرجل ليكذب حتى يكتب كذابًا»۔( ) یعنی،رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اورنیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ادمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اﷲ(عزوجل)کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اورجھوٹ سے بچو،کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور ادمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اورجھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے ،یہاں تک کہ اﷲ(عزوجل)کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔( ) اورجھوٹ کی مذمت بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی،قران مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اورجھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت ائی۔ حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی۔( ) اوردھوکہ دینے والوں کے بارے میں امام مسلم بن حجاج قشیری اپنی سندکے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من غشنا فليس منا۔( ) یعنی،نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ نے ارشادفرمایا : جودھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : غدر(دھوکہ) و بدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہے ،مسلم ہویا کافر،ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن،اصلی ہو یامرتد۔( ) لہٰذا معلوم ہواکہ جھوٹ
بولنااوردھوکہ دیناشرعا ناجائزوحرام اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے ،لیکن اگرکسی نے ان قبیح اعمال کاسہارالیتے ہوئے حج و عمرہ ادا کرلیا،تواس کاحج و عمرہ اداہوجائے گا،لیکن اس کیلئے ایساکرنادرست نہیں سراسر ناجائز وحرام ہے جس سے اجتناب(بچنا)واجب ہے ،اورارتکاب کرنے والاسخت گنہگارہوگا، جس کے سبب اس پرصدق دل سے توبہ لازم ہوگی۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب جمعرات،2/جمادی الاخری1443ھ،5/جنوری،2022م