جنایات یعنی سزاوں کے متعلق مسائل فقہیہ :
مسئلہ ۱: قتل ناحق کی پانچ صورتیں ہیں ۔ (۱) قتل عمد (۲) قتل شبہ عمد (۳) قتل خطا (۴) قائم مقام خطا (۵) قتل بالسبب۔ قتل عمد یہ ہے کہ کسی دھار دار آلے سے قصداً قتل کرے۔ آگ سے جلا دینا بھی قتل عمد ہی ہے۔ دھار دار آلہ مثلاً تلوار، چھری یا لکڑی اور بانس کی کھپچی میں دھار نکال کر قتل کیا یا دھار دار پتھر سے قتل کیا، لوہا، تانبا اور پیتل وغیرہ کی کسی چیز سے قتل کرے گا ، اگر اس سے جرح یعنی زخم ہوا تو قتل عمد ہے ، مثلاً چھری، خنجر، تیر، نیزہ، بلم وغیرہ کہ یہ سب آلہ جارحہ ہیں ۔ گولی اور چھرے سے قتل ہوا، یہ بھی اسی میں داخل ہے ۔ (ہدایہ جلد ۴، ص ۵۵۹، در مختار و شامی ص ۴۶۶ جلد ۵، بحر الرائق ص ۲۸۷، جلد ۸، تبین الحقائق ص ۹۷، ج ۶، طحطاوی ص ۲۵۷ جلد ۴)
مسئلہ ۲: قتل عمد کا حکم یہ ہے کہ ایسا شخص نہایت سخت گنہ گار ہے (در مختار و شامی ج ۵ ، ص ۴۶۷، تبیین ص ۹۸ جلد ۶، بحر الرائق ص ۲۸۸ ، جلد ۸، طحطاوی ص ۲۵۸ جلد ۴، درر غرر ص ۸۹ جلد ۲، عالمگیری ص ۲ جلد ۶۔) کفر کے بعد تمام گناہوں میں سب سے بڑا گناہ قتل ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا ۔ من یقتل مؤمنًا متعمدًا فجزائہٗ جھنم خالدًا فیھا (پ ۵ ع ۹) جو کسی مومن کو قصداً قتل کرے اس کی سزا جہنم میں رہنا ہے ایسے شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں اس کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف ہے جیسا کہ کتب حدیث میں یہ بات مذکور ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اور صحیح یہ ہے کہ ایسے قاتل کی بھی مغفرت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالی کی مشیت میں ہے۔ اگر وہ چاہے تو بخش دے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہٖ و یغفر ما دون ذلک لمن یشآئ (پ ۵ ع ۴) شرک یعنی کفر کو تو نہیں بخشے گا۔ اس سے نیچے جتنے گناہ ہیں جس کے لیے چاہے گا مغفرت فرما دے گا اور پہلی آیت کا یہ مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ مومن کو جو بحیثیت مومن قتل کرے گا یا اس کے قتل کو حلال سمجھے گا وہ بے شک ہمیشہ جہنم میں رہے گا یا خلود سے مراد بہت دنوں تک رہنا ہے۔
مسئلہ ۳: قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی یہی متعین ہے۔ ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے مگر بغیر مرضی قاتل اگر مال لینا چاہیں تونہیں ہو سکتا۔ یعنی قاتل اگر قصاص کو کہے تو اولیائے مقتول اس سے مال نہیں لے سکتے۔ مال پر مصالحت کی صورت میں دیت کے برابر یا کم یا زیادہ تینوں ہی صورتیں جائز ہیں ۔ یعنی مال لینے کی صورت میں یہ ضروری نہیں کہ دیت سے زیادہ نہ ہو اور جس مال پر صلح ہوئی وہ دیت کی قسم سے ہو یا دوسری جنس سے ہو دونوں صورتوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ (عالمگیری ص ۳ جلد ۶، طحطاوی ص ۲۵۸ جلد ۴، تبین ص ۹۸ جلد ۶، بحر الرائق ص ۲۹۰ جلد ۸، در مختار و شامی ص ۴۶۷ ج ۵)
مسئلہ ۴ : قتل عمد میں قاتل کے ذمے کفارہ واجب نہیں ۔ (طحطاوی ص ۲۵۸ ج ۴، بحر الرائق ص ۲۹۱ ج ۸، تبین ص ۹۹ ج ۶، در مختار و شامی ص ۴۶۷ ج ۵، دررغرر ص ۸۹ ج ۲، عامہ متون)
مسئلہ ۵ : اگر اولیاء میں سے کسی ایک نے معاف کر دیا تو بھی باقی کے حق میں قصاص ساقط ہو جائے گا لیکن دیت واجب ہو جائے گی۔ (تبیین الحقائق ص ۹۹، ج ۶)
مسئلہ ۶ : اولیائے مقتول نے اگر نصف قصاص معاف کر دیا تو کل ہی معاف ہوگیا، یعنی اس میں تجزی نہیں ہو سکتی، اب اگر یہ چاہیں کہ باقی نصف کے مقابل میں مال لیں ، یہ نہیں ہو سکتا (شلبی بر تبین ص ۹۹، ج ۶)
مسئلہ ۷ : قتل کی دوسری قسم شبہ عمد ہے۔ وہ یہ کہ قصداً قتل کرے مگر اسلحہ سے یا جو چیزیں اسلحہ کے قائم مقام ہوں ان سے قتل نہ کرے مثلاً کسی کو لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالا یہ شبہ عمد ہے اس صورت میں بھی قاتل گنہ گار ہے اور اس پر کفارہ واجب ہے اور قاتل کے عصبہ پر دیت مغلظہ واجب جو تین سال میں ادا کریں گے۔ دیت کی مقدار کیا ہوگی اس کو آئندہ ان شاء اللہ بیان کیا جائے گا۔(طحطاوی ص ۲۵۸ جلد ۵، بحر الرائق ص ۲۹۱ ج ۸، تبیین ص ۱۰۰ ج ۶، در مختار و شامی ص ۴۶۸ ج ۵، درغرر ص ۹۰ ج ۲)
مسئلہ ۸ : شبہ عمد مار ڈالنے ہی کی صورت میں ہے۔ اور اگر وہ جان سے نہیں مارا گیا بلکہ اس کا کوئی عضوتلف ہوگیا مثلاً لاٹھی سے مارا اور اس کا ہاتھ یا انگلی ٹوٹ کر علیحدہ ہوگئی تو اس کو شبہ عمد نہیں کہیں گے بلکہ یہ عمد ہے اور اس صورت میں قصاص ہے۔ (درغرر ص ۹۰ ج۲، بحرالرائق ص ۲۸۷ ج ۷۸، درمختار و شامی ص ۴۶۸ ج ۵، طحطاوی ص ۲۵۹ ج ۴، عالمگیری ص ۳ ج ۶)
مسئلہ ۹ : تیسری قسم قتل خطا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اس کے گمان میں غلطی ہوئی، مثلاً اس کو شکار سمجھ کر قتل کیا اور یہ شکار نہ تھا بلکہ انسان تھا یا حربی یا مرتد سمجھ کر قتل کیا حالاں کہ وہ مسلم تھا دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے فعل میں غلطی ہوئی مثلاً شکار پر یا چاند ماری پر گولی چلائی اور لگ گئی آدمی کو کہ یہاں انسان کو شکار نہیں سمجھا بلکہ شکار ہی کو شکار سمجھا اور شکار ہی پر گولی چلائی مگر ہاتھ بہک گیا ۔ گولی شکار کو نہیں لگی بلکہ آدمی کو لگی۔ اسی کی یہ دو صورتیں بھی ہیں ۔ نشانہ پر گولی لگ کر لوٹ آئی اور کسی آدمی کو لگی یا نشانہ سے پار ہو کر کسی آدمی کو لگی یا ایک شخص کو مارنا چاہتا تھا دوسرے کو لگی یا ایک شخص کے ہاتھ میں مارنا چاہتا تھا دوسرے کی گردن میں لگی یا ایک شخص کو مارنا چاہتا تھا مگر گولی دیوار پر لگی پھر ٹپا کھا کر لوٹی اور اس شخص کو لگی یا اس کے ہاتھ سے لکڑی یا اینٹ چھوٹ کر کسی آدمی پر گری او روہ مرگیا یہ سب صورتیں قتل خطا کی ہیں (در مختار و شامی ص ۴۶۹ جلد ۵، طحطاوی ص ۲۵۹ جلد ۴، تبیین ص ۱۰۱ جلد ۶، بحر الرائق ص ۲۹۲ جلد ۸)
مسئلہ ۱۰ : قتل خطا کا حکم یہ ہے کہ قاتل پر کفارہ واجب ہے اور اس کے عصبہ پر دیت واجب ہے جو تین سال میں اداکی جائے ۔ قتل خطا کی دو صورتیں ہیں اور ان میں اس کے ذمے قتل کا گناہ نہیں ۔ یہ تو ضرور گناہ ہے کہ اس نے آلے کے استعمال میں بے احتیاطی برتی، شریعت کا حکم ہے کہ ایسے موقعوں پر احتیاط سے کام لینا چاہیے۔(درغرر ص ۹۰ ج ۲، طحطاوی ص ۲۶۰ ج ۴، بحر الرائق ص ۲۹۲ ج ۸، تبیین ص ۱۰۱ ج ۶، در مختار و شامی ص ۴۶۹ ج ۵)
مسئلہ ۱۱ : مقتول کے جسم کے جس حصے پر وار کرنا چاہتا تھا وہاں نہیں لگا۔ دوسری جگہ لگا یہ خطا نہیں ہے بلکہ عمد ہے اور اس میں قصاص واجب ہے (بحر الرائق ص ۲۹۱ ج۸ ، تبیین ص ۱۰۱ ج ۶، در مختار ص ۴۶۹ ج ۵، عالمگیری ص ۳ ج ۶ و ہدایہ)
مسئلہ ۱۲ : قتل کی ان تینوں قسموں میں قاتل میراث سے محروم ہوتا ہے یعنی اگر کسی نے اپنے مورث کو قتل کیا تو اس کا ترکہ اس کو نہیں ملے گا بشرطیکہ جس سے قتل ہوا وہ مکلف ہو اور اگر مجنوں یا بچہ ہے تو میراث سے محروم نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳ ج ۶ ، بحر الرائق ص ۲۹۳ ج ۸ ، تبیین ص ۱۰۲ ج ۶، در مختار و شامی ص ۴۷۰ ج ۵، شلبی بر تبیین ص ۹۸ ج ۶، طحطاوی صفحہ ۲۶۰ جلد ۴)
مسئلہ ۱۳ : چوتھی قسم قائم مقام خطا جیسے کوئی شخص سوتے میں کسی پر گر پڑا اور یہ مر گیا اسی طرح چھت سے کسی انسان پر گرا اور مر گیا قتل کی اس صورت میں بھی وہی احکام ہیں جو خطا میں ہیں یعنی قاتل پر کفارہ واجب ہے اور اس کے عصبہ پر دیت اور قاتل میراث سے محروم ہوگا اور اس میں بھی قتل کرنے کا گناہ نہیں ، مگر یہ گناہ ہے کہ ایسی بے احتیاطی کی جس سے ایک انسان کی جان ضائع کی (عالمگیری ص ۳ جلد ۶، بحر الرائق ص ۲۹۲ ج ۸، در مختار و شامی ص ۴۶۹ جلد ۵، تبیین ص ۱۰۱جلد ۶، درغرر ص ۹۱ جلد ۲)
مسئلہ ۱۴ : پانچویں قسم قتل بالسبب ، جیسے کسی شخص نے دوسری کی ملک میں کنواں کھدوایا یا پتھر رکھ دیا یا راستہ میں لکڑی رکھ دی اور کوئی شخص کنوئیں میں گر کر یا پتھر وغیرہ یا لکڑی سے ٹھوکر کھا کر مر گیا۔ اس قتل کا سبب وہ شخص ہے جس نے کنواں کھودا تھا اور پتھر رکھ دیا تھا ۔ اس صورت میں اس کے عصبہ کے ذمے دیت ہے۔ قاتل پر نہ کفارہ ہے نہ قتل کا گناہ، اس کا گناہ ضرور ہے کہ پرائی ملک میں کنواں کھدوایا یا وہاں پتھر رکھ دیا (در مختار ص ۴۶۹ جلد ۵، تبیین ص ۱۰۲ جلد ۶، بحر الرائق ص ۲۹۳ ج ۸، عالمگیری ص ۳ جلد ۲)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔