بہار شریعت

جنایات یعنی سزاوں کے متعلق آیات و احادیث

جنایات یعنی سزاوں کے متعلق آیات و احادیث

اللہ عزوجل فرماتا ہے

یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی ط الحر بالحر و العبد بالعبد و الانثی بالانثی ط فمن عفی لہٗ من اخیہ شیئٌ فاتباعٌ بالمعروف و ادائٌ الیہ باحسان ط ذلک تخفیفٌ من ربکم و رحمۃٌ فمن اعتدی بعد ذلک فلہٗ عذابٌ الیمٌ o ولکم فی القصاص حیوۃٌ یا ٓؤلی الالباب لعلکم تتقونo (پ ۲ ع ۶)اللہ

متعلقہ مضامین

ترجمہ : اے ایمان والو ! قصاص یعنی جو ناحق قتل کئے گئے ان کا بدلہ لینا تم پر فرض کیا گیا۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہو تو بھلائی سے تقاضہ کرے اور اچھی طرح سے اس کو ادا کر دے ۔ یہ تمہارے رب کی جانب سے تمہارے لیے آسانی ہے اور تم پر مہربانی ہے، اب اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے اور تمہارے لیے خون کا بدلہ لینے میں زندگی ہے۔ اے عقل والو تاکہ تم بچو ۔

اور فرماتا ہے۔

وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس لا والعین بالعین و الانف بالانف و الاذن بالاذن والسن بالسن لا والجروح قصاصٌ ط فمن تصدق بہٖ فھو کفارۃٌ لہٗ ط ومن لم یحکم بمآ انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون o

ترجمہ : اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے۔ پھر جو معاف کر دے تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہے اور جو اللہ کے نازل کیئے پر حکم نہ کرے وہ ہی لوگ ظالم ہیں ۔

حدیث : امام بخاری اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا اور ان میں دیت نہ تھی تو اللہ تعالی نے اس امت کے لیے فرمایا کتب علیکم القصاص فی القتلی (الایہ) ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں ، عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کرے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ بھلائی سے طلب کرے اور قاتل اچھی طرح ادا کرے۔

اور فرماتاہے : من اجل ذلک ج کتبنا علی بنی اسرائیل انہٗ من قتل نفسًا بغیر نفسٍ او فسادٍ فی الارض فکانما قتل الناس جمیعًا ط ومن احیاھا فکانمآ احیا الناس جمیعًا (پ ۶ ع ۸)

اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا تو گویا اس نے سب انسانوں کو زندہ رکھا ۔ اور فرماتا ہے وما کان لمؤمنٍ ان یقتل مؤمنًا الا خطأً ج ومن قتل مؤمنًا خطائً فتحریر رقبۃٍ مؤمنۃٍ و دیۃٌ مسلمۃٌ الی اھلہٖ الا ان یصدقوا ط فان کان من قومٍ عدوٍ لکم وھو مؤمنٌ فتحریرٌ رقبۃٍ مؤمنۃٍ ط وان کان من قومٍ بینکم وبینھم میثاقٌ فدیۃٌ مسلمۃٌ الی اھلہٖ و تحریر رقبۃٍ مؤمنۃٍ ج فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین توبۃً من اللہ ط وکان اللہ علیمًا حکیمًا ہ ومن یقتل مؤمنًا متعمدًا فجزآؤہٗ جہنم خالدًا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہٗ واعدلہٗ عذابًا عظیمًا (پ ۵ ع ۹)

ترجمہ : اور مسلمان کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر غلطی کے طور پر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک غلام مسلم کا آزاد کرنا ہے اور خوں بہا کہ مقتول کے لوگوں کو دیا جائے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں ۔پھر وہ اگر اس قوم سے ہے جو تمہاری دشمن ہے اور وہ خود مسلمان ہے۔ تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان مملوک کو آزاد کیا جائے۔ پھر جو نہ پائے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اللہ سے اس کی توبہ ہے اللہ جاننے والا حکمت والا ہے اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ اس میں مدتوں رہے اور اللہ نے اس پر غضب فرمایا اور اس پر لعنت کی اور اس پر بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

حدیث ۱: امام بخاری و مسلم نے صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان مرد کا جو لا الہ الا اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں حلال ہے۔ (۱) نفس کے بدلے میں نفس، (۲) ثیب زانی اور (۳) اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہل اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔

حدیث ۲ : امام بخاری اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے دین کی سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔

حدیث ۳ : صحیحین میں عبد اللہ بن مسعور رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔

حدیث ۴ : امام بخاری اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔

حدیث ۵، ۶ : امام ترمذی اور نسائی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اور ابن ماجہ براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے۔ ایک مرد مسلم کے قتل سے ” ۔

حدیث ۷، ۸:امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللہ تعالی جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔

حدیث ۹ : امام مالک نے سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے پانچ یا سات نفر کو ایک شخص کو دھوکا دے کر قتل کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا اور فرمایا کہ اگر صنعا کے سب لوگ اس خون میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسی کے مثل ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی ہے۔

حدیث ۱۰ : دار قطنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب ایک مرد دوسرے کو پکڑ لے اور کوئی اور آ کر قتل کر دے تو قاتل قتل کر دیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا۔

حدیث ۱۱ : امام ترمذی اور امام شافعی حضرت ابی شریح کعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا پھر تم نے اے قبیلہء خزاعہ ہذیل کے آدمی کو قتل کر دیا اب میں اس کی دیت خود دیتا ہوں ، اس کے بعد جو کوئی کسی کو قتل کرے تو مقتول کے گھر والے دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کریں اگر پسند کریں تو قتل کریں اور اگر وہ چاہیں تو خوں بہا لیں ۔

حدیث ۱۲ : صحیحین میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ حضرت ربیع نے جو انس بن مالک کی پھوپھی تھیں ایک انصاریہ عورت کے دانت توڑ دیئے تو وہ لوگ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضور نے قصاص کا حکم فرمایا ۔ حضرت انس کے چچا انس بن النضر نے عرض کی یا رسول اللہ ، قسم اللہ کی ان کے دانت نہیں توڑے جائیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے انس ! اللہ کا حکم قصاص کا ہے ، اس کے بعد وہ لوگ راضی ہوگئے اور انہوں نے دیت قبول کر لی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔

حدیث ۱۳ : امام بخاری اپنی صحیح میں ابو جحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا، کیا تمہارے پاس کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو قرآن میں نہیں ، تو انہوں نے فرمایا ” قسم اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا ، ہمارے پاس وہی ہے جو قرآن میں ہے مگر اللہ نے جو قرآن کی سمجھ کسی کو دے دی اور ہمارے پاس وہی ہے جو اس صحیفہ میں ہے” ۔ میں نے کہا ، اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ تو فرمایا، دیت اور اس کے احکام اور قیدی کو چھڑانا اور یہ کہ کوئی مسلم کسی کافر (حربی ) کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

حدیث ۱۴ : ابو دائود و نسائی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اور ابن ماجہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں اور ان کے ادنی کے ذمہ کو پورا کیا جائے گا اور جو دور والوں نے غنیمت حاصل کی ہو وہ سب لشکریوں کو ملے گی اور وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہیں ۔ خبردار کوئی مسلمان کسی کافر (حربی) کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور نہ کوئی ذمی، جب تک وہ ذمہ میں باقی ہے۔

حدیث ۱۵ : ترمذی اور دارمی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حدیں مسجد میں قائم نہ کی جائیں اور اگر باپ نے اپنی اولاد کو قتل کیا ہو تو باپ سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔

حدیث ۱۶ : ترمذی سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور باپ کے قصاص میں بیٹے کو قتل کرتے اور بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل نہ کرتے یعنی اگر باپ نے قتل کیا تو بیٹے سے قصاص لیتے اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا ہو تو باپ سے قصاص نہ لیتے۔

حدیث ۱۷ : ابو دائود و نسائی ابو رمثہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور نے دریافت کیا ، یہ کون ہے ؟ میرے والد نے کہا، یہ میرا لڑکا ہے آپ اس کے گواہ رہیں ۔ حضور نے فرمایا ، خبردار نہ یہ تمہارے اوپر جنایت کر سکتا ہے اور نہ تم اسپر جنایت کر سکتے ہو (بلکہ جو جنایت کرے گا وہی ماخوذ ہوگا)۔

حدیث ۱۸ : امام ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و دارمی ابو امامہ بن سہیل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا جب باغیوں نے محاصرہ کیا تو کھڑکی سے جھانک کر فرمایا کہ میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی مرد مسلم کا خون حلال نہیں ہے۔ مگر تین وجہوں سے احصان کے بعد زنا سے یا اسلام کے بعد کفر سے یا کسی نفس کو بغیر کسی نفس کے قتل کر دینے سے انہیں وجوہ سے قتل کیا جائے گا۔ قسم خدا کی نہ میں نے زمانہء کفر میں زنا کیا اور نہ زمانہء اسلام میں اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی مرتد نہیں ہوا اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ تعالی نے حرام فرمایا، قتل نہیں کیا پھر تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو۔

حدیث ۱۹ : ابو دائود حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کر لے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔

حدیث ۲۰ : ابو دائود انہیں سے اور نسائی معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصدا ناحق قتل کیا ( اس کی تاویل آگے آئے گی)۔

حدیث ۲۱ : امام ترمذی نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ناحق جان بوجھ کر قتل کیا وہ اولیائے مقتول کو دے دیا جائے گا۔ پس وہ اگر چاہیں قتل کریں اور اگر چاہیں دیت لیں ۔

حدیث ۲۲ : دارمی نے ابن شریح خزاعی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو اس بات کے ساتھ مبتلا ہو کہ اس کے یہاں کوئی قتل ہوگیا یا زخمی ہوگیا تو تین چیزوں میں سے ایک اختیار کرے ۔ اگر چوتھی چیز کا ارادہ کرے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو (یعنی روک دو) یہ اختیار ہے کہ قصاص لے یا معاف کرے یا دیت لے پھر ان تینوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کے بعد اگر کوئی زیادتی کرے تو اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

حدیث ۲۳ : ابو دائود جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کو معاف نہیں کروں گا جس نے دیت لینے کے بعد قتل کیا۔

حدیث ۲۴ : امام ترمذی و ابن ماجہ نے ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، وہ کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جس کے جسم میں کوئی زخم لگ جائے پھر وہ اس کا صدقہ کر دے (معاف کر دے) تو اللہ اس کا ایک درجہ بڑھاتا ہے اور ایک گناہ معاف کرتا ہے۔

حدیث ۲۵ : امام بخاری اپنی صحیح میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرد نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! کون سا گناہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے ؟ فرمایا کہ اللہ کا کوئی شریک بتائے ، حالاں کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا۔ عرض کی پھر کون سا گناہ ؟ فرمایا پھر یہ کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔ کہا۔ پھر کون سا ؟ ارشاد فرمایا ، پھر یہ کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ پس اللہ نے اس کی تصدیق فرمائی : والذین لا یدعون مع اللہ الھًا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون ج ومن یفعل ذلک یلق اثامًا o یضعف لہ العذاب یوم القیمۃ ویخلد فیہ مھانًا o الا من تاب وامن و عمل عملاً صالحًا فاؤ لٓئک یبدل اللہ سیاتھم حسنتٍ ط و کان اللہ غفورًا رحیمًا o (پ ۱۹ ، ع ۳)

ترجمہ : اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ناحق قتل نہیں کرتے، اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا، اس کے لیے چند در چند عذاب کیا جائے گا۔ اور وہ اس میں مدتوں ذلت کے ساتھ رہے گا، مگر جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اوراچھے کام کرے۔ اللہ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ مغفرت والا رحم والا ہے۔

حدیث ۲۶ : امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ان نقبا سے ہوں جنہوں نے (لیلۃ العقبہ) میں رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی۔ ہم نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور زنا نہ کریں گے اور خدا کی نافرمانی نہ کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم کو جنت دی جائے گی اور اگر ان میں سے کوئی کام ہم نے کیا تو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے۔

حدیث ۲۷ : امام بخاری اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں ۔ (۱) حرم میں الحاد کرنے والا اور (۲) اسلام میں طریقہء جہالت کا طلب کرنے والا اور (۳) کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والاتاکہ اسے بہائے۔

حدیث ۲۸ : امام ابو جعفر طحاوی نے اپنی کتاب شرح معانی الآثار میں نعمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قصاص میں قتل تلوار ہی سے ہوگا۔

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button