استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ الحمد للہ اس سال حج جمعۃ المبارک کے دن ہے اور لوگ اسے حج اکبر کہتے ہیں او رکہا جاتا ہے یہ ایک حج ثواب میں ستر حج کے برابر ہے اور سُنا ہے کہ یہاں کے مطوے کہتے ہیں حج جمعہ کے روز ہو یا کسی اور روز اس میں کوئی فرق نہیں اور ہمارے ایک سُنّی ہیں ان کی تحریر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے جو حج قبول ہو جائے وہی حج اکبر ہے اور عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہتے ہیں اور انہوں نے ایک شعر سے بھی اس پر استدلال کیا ہے ۔ آپ سے التماس ہے کہ فقہ حنفی کی روشنی میں اس مسئلہ کو دلائل سے واضح کریں تاکہ تذبذب دُور ہو اور مسئلہ واضح ہو۔
(السائل : محمد سہیل قادری، محلہ حارّۃ الباب شبیکہ، مکۃ المکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حضر ت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : ’’جب جمعہ کا دن یوم عرفہ کے موافق ہو جائے تو اس روز کا حج ان ستر حج سے افضل ہے جو جمعہ کے دن نہ ہوں ‘‘۔ او ریہ حدیث ’’تجرید الصحاح‘‘ ’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ‘‘، ’’مراقی الفلاح شرح نور الایضاح‘‘ اور ’’حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب‘‘ میں موجود ہے ۔ اور علامہ مدقق حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069ھ جو اپنے زمانے کے بڑے فقیہ تھے ان کی عبارت یہ ہے :
و أفضل الأیام یوم عرفۃإذا وافق یوم الجمعۃ وہو أفضل من سبعین حجۃ فی غیر جمعۃ رواہ صاحب معراج الدرایۃ بقولہ : و قد صحّ عن رسول اللہ ﷺ أنہ قال : أَفْضَلُ الْأَیَّامِ یَوْمَ عَرَفَۃَ إِذَا وَافَقَ جُمُعَۃً، وَ ہُوَ أفْضَلُ مِنْ سَبْعِیْنَ حَجَّۃٍ‘‘ ذکرہ فی ’’تحرید الصحاح‘‘ بعلامۃ المؤطا و کذا قالہ الزیلعی شارح الکنز (286)
یعنی، تمام دنوں میں افضل دن عرفہ کا دن ہے جب وہ جمعہ کے موافق ہو اور وہ اُن ستر حجوں سے افضل ہے جو جمعہ کے علاوہ کسی اور دن میں ہوں ، اسے صاحب معراج الدرایہ نے اپنے اس قول کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ا سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ا نے فرمایا’’جب جمعہ کا دن یوم عرفہ کے موافق ہو جائے تو اس روز کا حج اُن ستر حجوں سے افضل ہے جو جمعہ کے دن نہ ہوں ‘‘ اسے ’’تحرید الصحاح‘‘ میں مؤطا کی علامت سے ذکر کیا او راسی طرح شارح کنز زیلعی نے فرمایا۔ اور ’’مراقی الفلاح‘‘ کے محقّق بشار بکری عرابی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی نے ’’فتح الباری‘‘ (8/271) میں ذکر فرمایا ہے ۔ اور اس حج کی فضیلت اور اسے حج اکبر کہنے کے جواز پر علامہ ملا علی القاری حنفی متوفی 1014ھ نے ایک مستقل رسالہ ’’الحظ الأوفر فی الحج الأکبر ‘‘کے نام سے تحریر فرمایا ہے ۔ (287) پس ہمارے لئے مندرجہ بالا سطور میں مذکور حدیث اور حنفی فقہاء کی کُتُب میں اس حدیث کا منقول ہونا اس حج کی فضیلت اور فضائل میں حدیث کے معتبر ہونے کے لئے کافی ہے اوراس حج کو ’’حج اکبر‘‘ کہنے کے لئے ملا علی القاری جو کہ بیک وقت ایک عظیم مُحدّث، بڑے فقیہ اور مناسکِ حج کے ماہر تھے ان کی تصریح بلکہ اس کے لئے ان کی ایک مستقل تحریر کافی ہے ، اگرچہ بعض نے اسے ’’حج اکبر‘‘ کہنے کے بارے میں اختلاف بھی کیا ہے مگر وہ بھی اس روز کے حج کو دیگر روز کے حج سے افضل مانتے ہیں جیسا کہ شیخ محقِّق عبدالحق مُحدّث دہلوی نے ’’شرح سفر السعادت‘‘ میں لکھا ہے ۔ اور اس روز کو ’’حج اکبر‘‘ کہنے کی تائید میں قرآن کریم کے کلمات طیبات ’’یوم الحج الأکبر‘‘ بھی موجود ہیں ، اگرچہ بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد مطلق حج ہے اور یہ حج اصغر یعنی عمرہ کے مقابلے میں ہے ۔ بہر حال ہم حنفی ہیں ہمارے لئے فقہ حنفی میں اس مسئلہ کی جستجو لازم ہے ، ہمارے فقہاء جو لکھیں وہی ہمارے لئے معتبر ہے ، وہی مستند ہے ، ان کے علاوہ کسی اورکے قول کی طرف توجہ کی ہمیں ہرگز حاجت نہیں تو فقہ حنفی کی کُتُب میں ا س بات پر ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جمعہ کے دن وقوف عرفات دوسرے دن کے وقوف سے افضل ہے ، پھر اس فضیلت کی متعدد وجوہ فقہاء کرام نے بیان کی ہیں ۔ اور حنفی مناسک کی ایک مشہور و مستند کتاب ’’حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب‘‘ ہے جسے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ نے 1135ھ میں تحریر فرمایا، مصنّف کا اپنا مقام فقہ حنفی میں مسلّم ہے اور آپ اپنے زمانہ اور اس کے بعد عرب و عجم خصوصاً بلاد حرمین شریفین میں معروف رہے اور سندھ و بلوچستان کے اکثر علماء کے مابین قدیم سے آپ کا نام بطور سند لیا جاتا رہا چنانچہ انہوں نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے آپ کے فائدے کے لئے اسے تحریر کر دیتا ہوں ، لکھتے ہیں :
مر وقوف عرفات را کہ واقع آید در روزِ جمعہ فضیلت زائد است بر وقوف در سائر ایام از وجوہ کثیرہ زیرانکہ ہست دروے موافقت پیغمبر خدا ا چہ وقوفِ اُو در حجۃ الوداع در روزِ جمعہ بود بلا خلاف، و مجتمع میشوند دروے دو روز کہ آنہاں افضل الا یام اند، و حاصل می گردد ، مر اعمال را شرف بشرف امکنہ و ازمنہ و موجود میشود در وے ساعتِ جمعہ کہ مستجاب گردد دعاء دروے ، و بسبب کثرت اجتماع مومناں در وے ، و بواسطہ اجتماع دو عبادات اعنی نمازِ جمعہ و وقوف دروے ، و نیز موافق می شود این روز بروزیکہ کمال نمود حق سبحانہ تعالیٰ دروے دین خود راچہ نازل گشت بر پیغمبر خدا ا در عرفات روز حجۃ الوداع کہ {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ} الایۃ، و واقع شدہ است در روایتے کہ چون موافق گردد روزِ عرفہ بروزِ جمعہ مغفرت نماید حق سبحانہ تعالیٰ مر جمیع اہلِ وقوف را۔ سوال : اگر گفتہ شود کہ وار د شدہ است مغفرت در حق جمیع اہلِ موقف مطلقاً پس تخصیص آن بروزِ جمعہ بسبب چہ باشد۔ جواب : گفتہ شود کہ بعضے علماء گفتہ اند کہ بسبب آنکہ مغفرت نماید ایشان را خدائے تعالیٰ در وقوف در روزِ جمعہ بغیر واسطہ و در غیر اوبخشد بغضے را از ایشان ببعضے دیگر، و بعضے علماء گفتہ اند کہ مغفرت کردہ شود در وقوف غیر روز جمعہ مر حجاج را فقط واللہ تعالیٰ اعلم
و روایت کردہ است ازیں در کتاب خود مسمّی بہ ’’تجرید الصحاح‘‘ از حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہ گفت فرمود پیغمبر خدا ا کہ چون موافق گردد روزِ جمعہ بروز ِعرفہ پس حج آن روز افضل باشد از ہفتاد حج در غیر جمعہ کذا ذکر الزیلعی فی شرح الکنز، و لیکن محدّثین را در ثبوت ایں حدیث مقال است، و شیخ عبدالحق دہلوی در’’ شرح سفر السعادۃ‘‘ گفتہ کہ آنچہ عامہ مردم ایں روز را’’ حج اکبر‘‘ گویند چیزے نیست {وَ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَر} کہ در قرآن واقع شدہ مراد بآن حج است قطعاً در مقابلہ حجِ اصغر کہ آن عمرہ است، و باوجود آن در فضل و شرف حج روزِ جمعہ شبہ نیست قطعاً از جہت شرفِ زمان و مکان و موافقت حج پیغمبر خدا ا 1ھ، و ملا علی قاری افادہ نمود است حج اکبر را بر وقوف روز جمعہ، و تالیف نمودہ است دروے رسالہ را کہ نام نہادہ است او را ’’الحظ الأوفر فی الحج الأکبر‘‘ واللہ الموفق و المعین (288)
یعنی، جمعہ کے روز وقوفِ عرفات دوسرے دن کے وقوف سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور اس کی کئی وجوہ ہیں کیونکہ اس میں (حجۃ الوداع میں ) رسول اللہ ا کے وقوف کے ساتھ موافقت ہے اس لئے کہ آپ ا کا حجۃ الوداع میں وقوف بلاخلاف جمعہ کے روز تھا۔ اور (یہ کہ) اس روز دو روز جمع ہوتے ہیں جو کہ أفضل الأیام (تمام دنوں میں افضل) ہیں اور اعمال کو زمانہ اور مکان کے شرف کے ساتھ شرف حاصل ہو جاتا ہے ، اور اس میں جمعہ کی وہ ساعت موجود ہوتی ہے جس میں دُعاء مستجاب (مقبول) ہوتی ہے ، اور (ایک فضیلت) اس روز مسلمانوں کا کثیر اجتماع کے سبب سے ہے ۔ اور (ایک فضیلت) اس روز دو دو عبادتوں یعنی نمازِ جمعہ اور وقوفِ عرفات کے اجتماع کے واسطے سے ہے ، نیز اِس دن کو اُس دن سے موافقت ہوتی ہے جس میں حق سبحانہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تکمیل فرمائی کہ عرفات میں حجۃ الوداع کے روز آیت { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ الاٰیۃ} رسول اللہ ا پر نازل ہوئی۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جب یوم عرفہ یوم جمعہ کے موافق ہو (یعنی روزِ عرفہ کو جمعہ ہو) تو اللہ تعالیٰ تمام اہلِ موقف کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ سوال : اگر یہاں یہ کہا جائے کہ اہلِ موقف کی مغفرت کی روایت تو مطلق ہے پھر اس کو جمعہ کے ساتھ مختص کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : کہا جائے گا کہ بعض علماء کرام فرماتے ہیں اس سبب سے کہ بروزِ جمعہ وقوف کے دن اللہ تعالیٰ یہ مغفرت ہر ایک کے لئے بلا واسطہ فرماتا ہے اور جمعہ کے علاوہ وقوف کے روز یہ مغفرت بالواسطہ ہوتی ہے کہ بعض کی مغفرت بعض دیگر کے واسطے ہوتی ہے ۔ اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں جمعہ کے روز وقوف کے دن حجاج اور غیر حجاج سب کی مغفرت ہوتی ہے ، جمعہ کے روز کے علاوہ دن وقوف میں صرف حجاج کی مغفرت ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔ او رکتاب ’’التجرید الصحاح‘‘ میں حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا جب جمعہ کا روز عرفہ کے دن کے موافق ہو جائے (یعنی جمعہ کو 9 ذوالحجہ ہو) پس اس روز کا حج دوسرے دن کے حج سے ستر گُنا افضل ہے ۔ اسی طرح (علامہ عثمان بن علی) زیلعی نے ’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ذکر کیا ہے ، لیکن مُحدِّثین کو اس حدیث کے ثبوت میں تأمل ہے ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’شرح سفر السعادۃ‘‘ میں فرمایا کہ عام لوگ جو اس دن کے حج کو ’’حج اکبر‘‘ کہتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ۔ اور قرآن کریم میں جو {یَوْم الْحَجِّ الْاَکْبَرِ} کے کلمات آئے ہیں اس سے مطلق حج مراد ہے جو حجِ اصغر یعنی عمرہ کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ اس کے باوجود جمعہ کے دن حج کے شرف و فضیلت میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے شرفِ زمانہ اور شرفِ مکان کی جہت سے اور رسول اللہ ﷺ کی موافقت کی جہت سے ۔ اور ملا علی قاری نے جمعہ کے روز حج کے ’’حجِ اکبر‘‘ ہونے کا افادہ کیا ہے اور اس پر ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے اور اس رسالہ کا نام ’’الحظ الأوفر فی الحج الأکبر‘‘ (یعنی حج اکبر میں ثواب کا وافر حصہ) رکھا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمانے والا اور بہترین مددگار ہے ۔ (ترجمہ مکمل ہوا) اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : وقوفِ عرفہ جمعہ کے دن میں ہو تو اس میں بہت ثواب ہے کہ یہ دو عیدوں کا اجتماع ہے اور اسی کو لوگ ’’حج اکبر‘‘ کہتے ہیں ۔ (289) لہٰذا ثابت ہوا معتمد و مستند فقہاء و علماء نے اس حج کو ’’حج اکبر‘‘ بھی کہا ہے اور بعض نے اگر اس سے اختلاف کیا مگر اس حج کے دوسرے دن میں حج سے افضل ہونے کے وہ بھی قائل ہیں ۔ اب بھی اگر کوئی اس دن کے حج کی فضیلت کا انکار کرے تو اس کا انکار ہرگز بلا دلیل ہو گا جس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور پھر عمرہ کو اگر ایک جگہ ’’حج اصغر‘‘ اور حج کو ’’حج اکبر‘‘ کہا گیا ہے تو قرآن و حدیث میں سینکڑوں مقامات پر عمرہ کو عمرہ اور حج کو حج بھی کہا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں جہاں بھی عمرہ اور حج کا ذکر ہے وہاں عمرہ کے لئے عمرہ کا اور حج کے حج کا کلمہ استعمال کیا گیا ہے یہی حال حدیث شریف کا بھی ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے العُمْرَۃُ فِیْ رَمَضَانَ تَعْدِلُ حجَّۃً رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے اور رہی یہ بات کہ جو حج مقبول ہو جائے وہی ’’حج اکبر‘‘ ہے یہ بات ’’حج اکبر‘‘ (یعنی جمعہ کے روز حج کے دن واقع ہونے ) کے افضل ہونے کی نفی نہیں کرتی، یہ اسی طرح ہے کہ کہا جائے جو نماز اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے وہ نماز کعبۃ اللہ میں پڑھی گئی نماز سے افضل ہے اور جو حج مقبول نہ ہو اگرچہ جمعہ کے روز کا حج ہی کیوں نہ ہو اس سے وہ حج افضل ہے جو جمعہ کے روز تو نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو گیا۔ اور پھر اشعار جو فقہی احکام بیان کرنے کے لئے نہ کہے گئے ہوں ان سے استدلال کرنا درست نہیں ہوتا اور وہ کسی فقہی حکم کے لئے دلیل نہیں ہوتے ، غیر فقہی اشعار میں اس قسم کے تذکرے سے شاعر کی مراد مسلمانوں کی اصلاح ہوتی ہے کہ وہ اپنی عبادات کو خالص اللہ کے لئے ادا کریں اور ان کو ان کے آداب کے ساتھ بجا لائیں ۔ اور محظورات کے ارتکا ب سے بچیں اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی امید رکھیں وغیرہا۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء،29 ذی القعدۃ1427ھ، 19دیسمبر 2006 م (309-F)
حوالہ جات
286۔ مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، کتاب الحج، فصل : العمرۃ سنۃ…إلخ، ص270
287۔ جمعیت اشاعت اہلسنّت (پاکستان) کا شعبہ نشر و اشاعت اپنی دوسو دس (210)اشاعت میں ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ کے اس موضوع پر تحریر کردہ رسالہ ’’الحظ الأوفر فی الحج الأکبر‘‘ بمعہ اردو ترجمہ’’حجِ اکبر کی حقیقت‘‘ اکتوبر 2011ء میں شائع کرچکاہے ۔ مرتّب
288۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیزدہم در بعضے مسائل متفرقہ، فصل در بعض مسائل متفرقہ ، مسئلہ : وقوف عرفہ بروز جمعہ، ص293۔294
289۔ بہار شریعت، حج کی منّت کا سوال، 1/1217